سعودی عرب میں عسیر کے پہاڑوں کے نیچے وادی میں مقامی ماہرِ ماحولیات لاحق آل ھادی ایک ایسے تعلیمی ماحولیاتی میوزیم کی ترقی میں مصروف ہیں جس سے ماحولیات کے متعلق آگاہی میں اضافہ ہوگا اور سیاحوں کی دلچسپی بڑھے گی۔
لیکن لاحق آل ھادی یہ کام کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھ رہے ہیں کہ ریجن کے قدرتی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھا جا سکے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق لاحق آل ھادی کا تعلق عسیر ریجن میں رجال المع گورنریٹ سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میوزیم کے منصوبے کا مقصد درختوں، حشرات، پرندوں اور روایتی زرعی آلات کو دستاویزی بنانے پر توجہ دینا ہے۔‘

میوزیم کے ایک حصے میں شہد کی مکھیوں اور شہد کی پیداوار پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔ اس حصے میں مقامی پھولوں کی بارے میں مزید تفصیلات کا بھی پتہ چلے گا جو شہد کی مکھیوں کے لیے معاون ثابت ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ میوزیم، معدومیت کے خطرے سے دوچار بیجوں کو محفوظ بنانے اور ان کی تعدا بڑھانے کے لیے کام کرے گا۔
عسیر کی وادی میں ان کے کھیت کے ایک کنارے پر انہوں نے 68 سے زیادہ زمروں کے درختوں اور پودوں کی شجر کاری کی ہے جن میں وہ پودے اور درخت بھی شامل ہیں جو نایاب ہو چکے ہیں یا خطرے سے دوچار ہیں۔

وہ اپنا وقت کم یاب بیجوں کو ایسے کاشتکاروں میں تقسیم کرنے پر لگاتے ہیں جو انھیں مزید پیداور کے لیے استعمال کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہر وہ بیج جسے زمین میں ڈالا جائے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین میں ایک نئی امید جنم لے گی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ان کی کوششوں کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں کیونکہ ماحول میں بہتری کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔ جب سے انھوں نے نئے بیج بوئے ہیں اور اس سے پودے نکلے ہیں اور سبزہ بڑھا ہے جس پر پرندے انحصار کرتے ہیں۔

سعودی ماہر ماحولیات کو عسیر کے اس علاقے سے نقل مکانی کر جانے والے مختلف زمروں کے پرندے واپس آتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
اس میوزیم میں عسیر کے روایتی فنِ تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھر کے لیے بھی ایک پویلین قائم کیا گیا ہے جس سے ریجن کی ثقافتی تاریخ کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔