Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لائن یعنی لکیر، ہمارے ہاں بہت ہیں جسکے’’ فقیر‘‘

* * * شہزاد اعظم * * * *
لائن بھی بڑا ہمہ جہت قسم کا چہار حرفی لفظ ہے جسے سنتے یا پڑھتے ہی ذہن میں مختلف شبیہیں ابھرنے لگتی ہیں۔کسی کے ذہن میں فوراً ہی شیر کا تصور آتا ہے تو کسی کے دماغ کی سوچ ’’ضرورتمندوں‘‘ کی لامتناہی قطار کی طرف چلی جاتی ہے۔ کوئی کاغذ پر ایک سطر کے بارے میں سوچتا ہے تو کوئی ریل کی پٹڑیوں کے تصور میں کھوجاتا ہے کہ یہی ریلوے ’’لائن‘‘ اْس کے شہر سے بھی گزرتی ہوگی۔ لائن کا لفظ ہمارے ہاں زباں زدعام ہے۔ یہ انگریز کی میراث ہونے کے باوجود اردوبولنے والوں کی زبان پر چڑھ چکا ہے۔ہم نے اس لفظ کو ان ان مقامات پر قابل استعمال بنا دیا ہے جہاں اس کے ’’وارثوں‘‘ کو گمان بھی نہیں گزر سکتاکہ لائن کا استعمال یوں بھی ممکن ہو سکتا ہے مثلاًلائن کاٹنا،یہ ترکیب اس وقت بولنے یا لکھنے میں استعمال ہوتی ہے جب کسی کا ’’بیڑہ غرق‘‘ کرنا مقصود ہویا اس مقصد میں کامیابی حاصل ہو چکی ہو اسی لئے جب دو افراد خصوصاً صنفی اختلاف کے حامل دوستوں کے مابین تلخیاں پیدا کرنے میں کامیابی قدم بوسی کر لے تو بھی اس ترکیب کوبغلیں بجاتے ہوئے استعمال کیا جاتا ہے۔
لائن مارنا بھی ہماری ’’جدید بول چال‘‘ کا حصہ ہے جسکا مطلب کسی من پسند سے پینگیں بڑھانا ہے تاوقتیکہ کوئی لائن کاٹنے والا مداخلت نہ کر بیٹھے۔ لائن ملانا کی ترکیب ہمارے نوجوانوں اور نستعلیق بڈھوں میں عام ہے ۔یہ بڈھے اس کا استعمال صرف ٹیلیفون کے ذکر تک ہی محدود رکھے ہوئے ہیں مثلاًوہ کہتے ہیں کہ’’ذرا فلاں صاحب سے لائن ملائنیے‘‘۔اگر فون نہ ملے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’لائن نہیں مل رہی‘‘۔نوجوانوں میں لائن ملانا بھی لائن مارنے کے مترادفات میں شامل ہے۔ اسی لئے اگر وہ کسی کو دوستی کے ’’چنگل‘‘ میں پھنسانے کی تگ و دو میں مصروف ہوں تو کہا جاتا ہے کہ وہ لائن ملانے کے چکر میں ہے۔
ویسے اردو بڑی فیاض زبان ہے ۔ اس میں متعدد ایسے الفاظ موجود ہیں جن کے کئی معنی ہیں اور ایسے کئی معنی ہیں جن کے لئے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔اسی فیاض زبان میں لائن کوخط بھی کہتے ہیں۔ہمارے ہاں کی بڑی اکثریت انہیں لکھواتی ہے جبکہ بعض لوگ خود بھی لکھ لیتے ہیں۔ اس سے قبل اگر ’’خوش‘‘کا اضافہ کردیا جائے تو یہ ’’خوبصورت تحریر ‘‘ کی نشاندہی کرتا ہے۔ پردیس میں آکر ہمیں احساس ہوا کہ’’خط‘‘ کے بارے میں تمام تر تحقیق اور جستجو کے باوجود ہمارا علم ناقص ہی رہا۔ اس لفظ کے وسیع تر استعمال سے ہم نابلد تھے کیونکہ ’’خط‘‘ کا مطلب مسافر وین یا منی بس وغیرہ بھی ہوتا ہے اس کے علاوہ شاہراہ یا پختہ راستے کو بھی خط کہا جاتا ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں ایک ایسی قسم کے خط بھی ہوتے ہیں جو’’پکڑے‘‘ جاتے ہیں اور یوںمستقبل کے حسین خواب دیکھنے والوں کی دنیا اجڑ جاتی ہے۔
اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئیے کہ ہمارے ہاں مستقبل کے بارے میں خواب دیکھنے پر پابندی ہے، ایسا ہرگز نہیں بلکہ ہم تو خواب دیکھنے اور دکھانے کے ماہر ہیں۔ ہمارے اکثرسیاستداں عوام کو خواب دکھاتے ہیں ، انکا دل بہلاتے ہیں اور عوام بہل جاتے ہیں۔ لیکن کسی کو غلط فہمی کا شکار ہو کر یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ ہر معاشرے کی کچھ اقدار ہوتی ہیں، اصول و قواعد ہوتے ہیں۔ اسی طرح مستقبل کے خواب دیکھنے کے بھی کچھ قواعد ہیں جن کے مطابق مستقبل کے بارے میں ایک آدمی ایک خواب دیکھ سکتا ہے،دو آدمی دوخواب دیکھ سکتے ہیں مگر دو ’’شخصیات‘‘مستقبل کا مشترکہ یاایک خواب نہیں دیکھ سکتیں۔
اسی لئے جب مستقبل کا مشترکہ خواب دیکھنے والے فریقین ایک دوسرے کو تحریراً آگاہ کرنے کے لئے خط لکھتے ہیں تو یہ ’’پکڑے‘‘ جاتے ہیں۔ اردو کی بلاغت کا یہ عالم ہے کہ خط کا لفظ حجاموں کے ہاں بھی سننے میں آتا ہے جب کوئی گاہک آکرنائی سے کہتا ہے کہ’’بھائی ذرا خط بنادینا‘‘۔ لائن کو اردو میں لکیر بھی کہتے ہیں۔ہمارے ہاں اس کے’’ فقیروں‘‘ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کی اکثریت کسی نہ کسی پارٹی سے تعلق رکھتی ہے ۔ آپ ان سے استفسار کریں کہ آپ کی پارٹی نے یا آپکی پارٹی کے فلاں رہنما نے فلاں فلاں فلاں غلطیاں کیںتو جواب میں ً’’ہاں ‘‘یا ’’آہو‘‘ یا اس کے ہم معانی الفاظ سننے کوملیں گے۔ پھر آپ ان سے پوچھیں کہ اب آپ کا اس رہنما کے بارے میں کیا خیال ہے تو جواب ملے گا کہ ’’خواہ کچھ بھی ہو، ہمارالیڈرجیوے ہی جیوے‘‘۔ اسی لئے ان کو ’’لکیر کے فقیر‘‘کہا جاتا ہے۔
اسی طرح’’ فقیروں کی لکیر ‘‘ بھی ہوتی ہے۔ اس کا مشاہدہ کرنا ہو تو آپ اپنی سائیکل، موٹرسائیکل یا کارپر سوار ہوکر کسی بھی شاہراہ کے ٹریفک سگنل پر رکیں۔ فوراً ہی ایک فقیر ’’بھنبھناتا‘‘ ہوا آپ کے آگے دست سوال دراز کریگا۔آپ اس کے ہاتھ میں 5کا سکہ رکھ دیںپھر دیکھیں آپ کے سامنے ’’فقیروں کی لکیر‘‘ موجود ہوگی۔آپ کی جیبیں خالی ہو جائیں گی مگر ان کی لکیر مختصر نہیں ہوگی یہاں تک کہ آپ بھی خود کو فقیروں کی اس لکیر میں شامل سمجھنے لگیں گے۔

شیئر: