Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علامہ اقبال کی شاعری میں عظمتِ انساں

 قوموں کے پیچیدہ مسائل اور فلسفیانہ موشگافیوںکو الفاظ کاخوبصورت جامہ پہنا کراقبال نے اشعار میں ڈھالا
تحریر:منظورالحق۔سابق سفیرپاکستان
تصور پاکستان کے خالق اور پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت سے علامہ محمد اقبال کو جوعظمت و احترام اور مقبولیت ملی وہ شاید ہی کسی اور شاعر کو نصیب ہوئی ہو۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک سیاسی رہنما ، عوامی قائد، دانشور، مفکر او ر دیدئہ بینا ئے قوم شاعر کی حیثیت سے ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ علامہ کی لازوال اور بے مثال شاعری ملکی یا جغرافیا ئی سرحدوں تک محدو دہے۔
اقبال وہ شاعر ہیں جنہوںنے شاعری کو اپنی ذات کی خواہشات اور مسائل و مصائب کے گرداب سے نکال کر فرد، معاشرہ،قوم اور ملت کی آزاد ی ، ترقی ، خوشحالی ، فلاح اور دین و دنیا کی کامیابی اور کامرانی کی ہر دم جواں، پیہم رواں ، با عمل اور با مقصد زندگی کی سحر انگیز وادی میں او ر کائنات کی وسعتوںمیں لے گئے ہیں۔ اس سے پہلے شاعری عمومی طور پر شاعروں کی ذات کے گرد گھومتی رہتی تھی او ر شعراءاپنے دکھڑے سنانے اور زمانے بھرکی شکایتیں اور فریادیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔وہاں شاعری کا مقصد صرف شاعری تھی۔ اقبال شاعری میںمقصدیت لے آئے۔ اُنہوں نے قوموں کے پیچیدہ مسائل اور فلسفیانہ موشگافیوںکو الفاظ کاخوبصورت جامہ پہنا کر انہیں روح پرور اشعار کے سانچے میں ڈھال کر اوراُن کا حل دے کر بے مثال اور باکمال شاعری تخلیق کی۔
علامہ اقبال نے اہلیان شرق کو ”پیام مشر ق “ دیا اور انہیں ” پس چہ باید کرد ائے اقوا م شرق “ کاسبق سکھایا۔ اِن حوالوں کی بناءپر وہ شاعر مشرق کہلائے۔ وہ مشر ق و مغرب کی اچھائیوں اور برائیوں کو بیان کرتے ہیں اور مشرق کو اپنی خامیاں دور کرکے علم و جستجو اور ترقی کے لئے مغرب کی خوبیوں سے مستفید ہونے اور وہاں کی برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ مغرب کے ایسے مخالف نہیں جیسے اکبر الٰہ آبادی تھے ۔وہ مشرق و مغرب کا موازنہ کرتے ہیں۔ اُن کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے:
ضمیرِمشرق ہے راہبانہ
 ضمیر مغرب ہے تاجرانہ
ایک اورشعر ملاحظہ کیجئے:
خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور
خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام
علامہ اقبال نے کئی موقعوں پر مغربی تہذیب اور سوچ و فکر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ وہ خود وہاں رہے تھے اور اُس معاشرے کے بارے میں اپنا نقطئہ نظر رکھتے تھے لیکن اُنہوں نے اپنے آپ کو”نہ شرقی ہے نہ عربی©©“ جن کا گھر ”نہ دہلی،نہ صفا ہاں نہ سمر قند ہو“ کہہ کر کس خوبصورت انداز میں مشرق و مغرب میں کسی ایک کوبھی مسترد نہ کرنے کی بات کی ہے:
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
ہم علامہ اقبال کی شاعری کو جغرافیائی قیود میں بند نہیں کر سکتے۔ وہ جب ملت کی بات کرتے ہیں تو جغرافیائی سرحدوںسے نکل کر نظریاتی اور روحانی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ اُن کی شاعری کی نظریاتی حدود کا ادراک کرانے کے لئے اُن کے کلام میں بہت کچھ ہے۔ وہ حکیم الامت بن کر ملت کو مخاطب کرتے ہیں لیکن ملت کی کامرانی کو بنی نوع انسان کی کامیابی سمجھتے ہیں۔علامہ سید نذیر نیازی کو جو اُن کے بہت قریب رہے تھے، ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:
”©میرے نزدیک فاشزم، کمیونزم یا زمانہ حال کے کوئی اور ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ میرے عقیدے کی رو سے صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے جو بنی نوع انسان کے لئے ہر نقطہ نگاہ سے موجبِ نجات ہے۔“اسی طرح بال جبریل میں علامہ اقبال نے انسانوں کو زمین و آسمان میں سب سے اہم مخلوق قرار دیا ہے۔اُن کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے:
نہ تو زمین کے لئے ہے، نہ آسمان کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے، تو نہیں جہاں کے لئے
اُن کی نظر میں ستارے انسان کے مقام کا اندازہ کر کے سہم جاتے ہیں:
عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
یہ عظیم مقام انسان کو دے کر علامہ اقبال کہتے ہیں:
علامہ اقبال کے نزدیک انسان ہی سب سے اعلیٰ و ارفع مخلوق ہے۔ اسی کی وجہ سے کائنات وجود میں آئی۔ ہر شے کی حقیقت انسان ہے۔ یہ احساس بانگ درا میںاُن کی نظم ©© ”تصویر درد“ میں اور پختہ ہو جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
یہ سب کچھ ہے مگرہستی مری مقصد ہے قدرت کا
سراپا نورہے جس کی حقیقت میں وہ ظلمت ہوں
نہ صہبا ہوں، نہ ساقی ہوں، نہ مستی ہوں، نہ پیمانہ
میں اس میخانہ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں
انسان کی حقیقت اور مقام کے اس سر بستہ راز کے سینہ¿ کائنات سے افشاہونے پر اقبال کہتے ہیں کہ :
میںہی تو ایک راز تھا سینہ¿ کائنات میں
علا مہ اقبال نے ضرب کلیم میں بھی زوال آدم خاکی کو کائنات کا زیاں کہا ہے۔انسان کی اس سے بڑھ کراور کیا عظمت ہوسکتی ہے کہ جب آدم علیہ السلام جنت سے رخصت ہو رہے تھے تو اس وقت کی کیفیت یوں بیان کی کہ:
عطا ہوئی ہے تجھے روز شب کی بیتابی
خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یاکہ سیمابی
سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے لیکن
تری سرشت میں ہے کو کبی و مہتابی
جما ل اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے
ہزار ہوش سے خوش تر ،تری شکر خوابی
تیری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر
کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی
علامہ اقبال بنی آدم کو کائنات کی اہم ترین مخلوق قرار دے کر، اُسے خودی کا احساس دلا کر اور اُسے مر دِ مومن کی خصلتوں سے مالا مال کر کے انسانیت کی لڑی میں پر وتے اور اُسے عظمت ِآدم علیہ السلام کا درس دیتے ہیں اوریہی علامہ کی شاعری کا اہم عنصر ہے ۔
 
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: