Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عجیب طرز کا تکنیکی گند کرتے ہو

 
 آج اقرار جدید، انکار جدید،حُب جدید، محبوب جدید تو اشعار جدید کیوںنہیں؟
شہزاد اعظم۔ جدہ
بعض لوگوں کی باتوں میں ”وزن“ ہوتا ہے کیونکہ وہ با وزن کلام کرنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں انہیں اصطلاحاًشاعر کہا جاتا ہے۔اکثر شاعروں کی زندگی کے تمام اعمال و افعال ”وزن، اوزان، توازن، متوازن“ سے ہی معنون ہوتے ہیں اس لئے عموماً ایسا ہوتا ہے کہ شاعر حضرات کم از کم دوسروں کے حق میں درست فیصلے کرتے ہیں مگر کہتے ہیں ناں کہ انسان خطا کا پتلا ہے، اس لئے شعرائے کرام بھی انسان ہو ہی ہوتے ہیں اس لئے بعض اوقات ایک غلطی کر لیتے ہیں اور وہ یہ کہ اپنے بارے میں انصاف سے کام نہیں لے پاتے۔جب کبھی شعراءکا باہم تقابل کیا جانے لگے تو وہ اپنے آپ کو نابغہ¿ روزگارثابت کرنے کی تگ و دو میں جت جاتے ہیں۔ اوروں کی تمام باتیں وہ سر آنکھوں پر رکھ لیتے ہیں ، دوسروں کی تمام برتریاں اور بڑائیاں تسلیم کر لیتے ہیں،اسی لئے وہ دوسروں کے حسن کی تعریف میں غزلیں اور نظمیں کہنے سے پیچھے نہیں ہٹتے مگر جب بات آجائے شاعری کی تو وہ کہتے ہیں کہ سب سے حَسین شعرمیرا ہے اور دیگر شعراءکا کلام تو باولے کی بڑ لگتا ہے۔
ہمارے ایک دوست ہیں، دم پخت۔ وہ پہلے تو مراد آباد میں تھے، پھر قیام پاکستان کے بعد پیدل ہجرت کر کے لاہور پہنچے اور وہیں آبادہوگئے۔مراد آباد میں تھے تو ”دمپخت مرادآبادی“ نام تھا، لاہور پہنچے تو ”دمپخت لاہوری“ ہوگئے۔ نام کچھ بھی ہو، آدمی بڑے کھرے ہیں۔ کہتے ہیں کہ شاعری وہی ہے جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔آج کل غالب و میر کی شاعری لوگوں کے کام آنے والی نہیں۔ان اساتذہ کے متعدد اشعار ایسے ہیں جو اردو زبان دانی کا حصہ بن چکے ہیں، ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں یا مختلف مواقع کی مناسبت سے داغے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ کافی عرصے سے چلا آ رہا ہے مگر اب جو نئی نسل جوان ہو رہی ہے، ان کی نظر میں غالب و میر کی شاعری کی وہ اہمیت بالکل نہیں جو ہمارے ذہنوں میں ہے۔ 
دمپخت نے کہا کہ میں شاعر ہونے کے ناتے انصاف پسندی اور میانہ روی سے کام لینے کا عادی ہوں۔ میں بھی میر و غالب کی شاعری کو مثال بنا کر پیش کرتا رہا ہوں،آج بھی ان کا احترام و ادب دل میں ہے مگر کل ایک نوجوان سے ہماری تمحیص ہوئی اور ہم نے اس کے دلائل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اس کا کہنا تھا کہ غالب و میر بہت فہیم و فطین قسم کے سخن گو تھے۔ انہوں نے عصری تقاضوں، اپنے دور کی روایات اور رسوم کو سامنے رکھ کر ہی شاعری کی۔ ہم اُ نکی شاعری تو پسند کرتے ہیں مگر شعر گوئی کے اُن تقاضوں کو درخور اعتناءنہیں جانتے جو انہوں نے روا رکھے تھے۔اب خود ہی انصاف کیجئے کہ کیا یہ بات قابل قبول ہے کہ آج کے اس تیز رفتار دور میں بھی میر و غالب کے دور جیسے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر شعر کہے جائیں۔یہاں میں ایک آدھ مثال پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے آپ کے ذہن میں در آنے والے تمام سوالوں کے جوابات مل جائیں گے۔غور فرمائیے:
میر و غالب کے دور میں خواتین مستور ہوا کرتی تھیں اسی لئے انہیں” مستورات“یعنی” ڈھکی چھپی ہستیاں“کہا جاتا تھا۔ گھر سے باہر بازار میں آتے جاتے اگر اچانک تیز آندھی چل پڑتی اور ہوا سے کسی خاتون کے چہرے سے نقاب اچانک ہٹ جاتا تویہ ”مستور “ عیاں ہوجاتی اور دیکھنے والاوہیں دل ہار بیٹھتا۔پھروہ شعر کہتااور ان اشعار میں اس کے حسن و جمال کا ذکر کرتا، اسے محبوب قرار دیتا،اس خاتون کی دوسری جھلک دیکھنے کے لئے ہر روز بازار جاتا، آندھی کی تمنا کرتا ،مگر وہ تمناپہلے تو ”ارمان“ بن کر اس کے سینے میں دفن ہوتی اور پھر کچھ ہی عرصے کے بعد وہ خود زمین کے سینے میں دفن ہوجاتا۔اُس دور میں وفا اور خلوص عام تھا۔ ہر شادی شدہ عورت اپنے شوہر کی فرمابرداری کرتی، خدمت کرتی اور اس سے محبت میں کوئی کمی نہ کرتی کیونکہ اسے بھی اچھی طرح علم ہوتا تھا کہ یہاں سے ”نکالا“ ملا تو کسی کے دل میں جگہ نہیں مل پائے گی۔شوہر حضرات بھی ایک ہی پر اکتفا کرتے کہ وہ تواتفاق تھا کہ زور دار آندھی سے نقاب ہٹ گیا تھاچنانچہ شادی ہوگئی۔ ضروری تو نہیں کہ زندگی میں پھر ویسا ہی حسین واقعہ دوبارہ پیش آئے اور پھر وہ حسن و جمال میسر بھی آجائے۔اسی لئے اُس ددور کی شاعری میں گلاب، پھول، نسیم صبح، کہکشاں، ستارے، چاندنی، آبِ جو، موتیا، رنگ، کرن، خوشبو، صندل، سنگ مرمر اور ایسی ہی دیگر قیمتی، نازک، حسین یا نادر اشیاءکی گفتگو ہوتی تھی اور ان کا تمام تر مرکز و محور وہی ”مستور“ ہستیاں ہوتی تھیںجو زندگی میں کبھی کبھار ، اتفاقاًیا حادثتاً نظر آجاتی تھیں۔شاعر ان ”اتفاقی یا حادثاتی لمحات“ کے دوبارہ ظہور پذیر ہونے کے انتظار میں شعر کہتے تھے کیونکہ میر و غالب کے دور میں کسی آندھی واندھی کے موقع پراتفاقاً بے نقاب ہونے والے چہرہ¿ نسواں پر پڑنے والی ایک نظر ہی باعثِ شاعری ہوجاتی تھی۔ اگر پھر کوئی آندھی آجاتی تو اس شاعرکی اہلیہ کی سوکن گھر آجاتی۔
آج کے دور میں ہمارے ہاں ”مستورات“عنقا بلکہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں، جدھر دیکھو” ایک سے گھٹ کر ایک“ خواتین دکھائی دیتی ہیں۔مردوں کے ”شانہ بے شانہ“خواتین ہیں۔جا و بے جا خواتین ہیں۔ہر شعبہ¿ حیات میں خواتین ہیںآج بھی مردوں کو آندھی کا انتظار رہتا ہے مگر اس لئے کہ ایسے موسم میں خواتین ڈر کر گھروں میں دبک جاتی ہیں اور بازاروں میں دکھائی نہیں دیتیں۔ اس طرح مردانہ بصارت کو ذرا آرام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔بے وفائی بھی بے انتہاءہو چکی ہے کیونکہ عورت کو علم ہوتا ہے کہ اگر شادی کے بعد میاں نے ناز نخرے برداشت کرنے سے انکار کیا تو کئی دیگر آپشنزموجود ہیں۔ میاں سے ذرا سی کھٹ پٹ ہوجائے تو وہ سوچنے لگتی ہے کہ میکے میں سامنے والوں کا لڑکا بھی شادی کرنا چاہتا تھا، نیٹ پر بھی ایک نوجوان نے پسند کیا تھا،کالج کے ایک پروفیسر نے بھی اشارتاً شادی کی پیشکش کی تھی۔وہ محلے کے ڈاکٹر صاحب تو مجھے دوسری بیوی بنانے کے لئے تیار تھے۔ یہ سوچ کر وہ میاں کو گھاس نہیں ڈالتی۔ایسے میں بھلا شاعر کس کے حسن و جمال کی تعریف کرے؟
ماضی میں طلاق دینایا خلع لینا ایک مسئلہ ہوتا تھا۔ درخواست لکھوائی جاتی تھی پھر یہ بھی لازم ہوتا تھا کہ طلاق نامہ یا درخواستِ خلع متعلقہ فریق تک پہنچ جائے کہیں وہ موصول نہ ہونے کا بہانہ نہ کر بیٹھے۔ آج کل یہ مشکل”ایس ایم ایس جیسی سہولت“ کے باعث انتہائی آسان ہوچکی ہے۔ صرف اتنا لکھ دیا جاتا ہے کہ ”,main tumko talaq deta hoon,ok, bye Sunu “۔اس کے ساتھ یقین بھی ہوتا ہے کہ یہ پیغام متعلقہ شخص کو ہی پہنچے گا۔ان مثالوں کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہیں کہ” جدید لب و لہجے کی شاعری“ وہ ہے جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ اس کی بھی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ قطعہ عرض ہے:
لگی فلیش میں پی سی جو بند کرتے ہو
عجیب طرز کا تکنیکی گند کرتے ہو
جو ماوس ہے اسے کی پیڈ پر نہیں رکھتے
تم ایکس پی، کبھی وسٹا پسند کرتے ہو
یہ ہے جناب آپ کے اور میرے دور کی شاعری جسے میر و غالب سنیں تو ان کے سر سے گزر جائے۔اسی کو کہتے ہیں ”جدید لب و لہجہ“ یعنی جس میں دور حاضر کے موجودات، جمادات، حیوانات ، نباتات و ایجادات کا ذکر کیا جائے۔ یہ کیا ہوا کہ جدید سائنسی دور میں ”گل و بلبل “ کی باتیں کی جائیں، ان کے دکھڑے روئے جائیں۔ دنیا چاند کے بعد مریخ پر پہنچ رہی ہے، لہروں سے سونامی بپا کر رہی ہے اور ہم ہیں کہ اسی امر پر زور دیتے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں کہ :
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلاوں ہائے دل
یاد رکھئے کہ آج دورجدید ہے، ضروریات جدید، انداز جدید،اقرار جدید، انکار جدید،حُب جدید، محبوب جدید ، وفائیں جدید، جفائیں جدید،تنہائیاں جدید،رسوائیاں جدید،زیور جدید، سنگھار جدید،پھر یہ بتلائیے کہ اظہار جدید، اشعار جدید کیوں نہ ہوں؟ 
 
 
 
 
 

شیئر: