Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دعائیں

مملکت سے مستقلاً الوداع ہونے کے خواہشمند سفارتخانے کے دونوں افسران کو اپنی عجیب کہانیاں سناتے تھے
جاوید اقبال
آہنی اعصاب درکار تھے اور چاروں یقینا آہنی اعصاب کے مالک ہی تھے۔ بحران سے نمٹنا آسان نہیں تھا۔ اگر کام مقررہ وقت میں پایہ تکمیل کو نہ پہنچتا تو ان کے ہزاروں ہموطن مصیبت میں گرفتار ہوجاتے۔
سفارتخانے کی دوسری منزل پر بیٹھے ڈپٹی ہیڈ آف مشن محمد حسن وزیر، ہیڈ آف چانسری سردار خان خٹک اور زمینی فلور پر اپنے اپنے دفاتر میں ہر لحظہ مصروف کمیونٹی ویلفیئر اتاشیز عبدالشکور شیخ اور محمود لطیف ہر روز ایک دریا پار کرتے تو اگلی صبح انہیں ایک اور دریا کا سامنا ہوتا۔ آڈیٹوریم میں لگ بھگ ا یک ہزار افراد ہجوم کر آتے، یہ وہ لوگ ہوتے تھے جو برسوں قبل ریاض پہنچے تھے اور اب وطن عزیز کو واپسی چاہتے تھے۔ دونوں کمیونٹی ویلفیئر اتاشی شہد کی مکھیوں کی طرح مصروف کبھی اس گوشے میں اپنے ہموطنوں کی داستانیں سنتے، انہیں تسلی دیتے اور کبھی کسی صف میں منتظر کسی ضعیف کی روداد غم جاننے کے بعد اس کی افسردگی کامداوا کرتے۔ بے پناہ کام اچانک سامنے آن پڑا تھا۔ سعودی حکومت کی دی گئی ا یک معینہ مدت میں ہر غیر قانونی تاریک وطن کی روانگی یقینی بنانا تھی۔ مملکت سے مستقلاً الوداع ہونے کے خواہشمند سفارتخانے کے دونوں افسران کو اپنی عجیب کہانیاں سناتے تھے۔ کوئی برسوں قبل عمرے کی غرض سے مکہ مکرمہ پہنچا تھا۔ سعی کے بعد اچانک اس کا پاسپورٹ گم ہوگیا اور اگلی صبح اس نے اپنے آپ کو ریاض میں پایا۔ پھر سنگ و خشت پر لکھی اپنی روزی باہم کرتا رہا ۔مقامی پولیس کی گاڑی نظر پڑتی تو راستہ بدل لیتا۔ نہ صبح اپنی تھیں نہ شامیں اور اب میزبان حکومت کی دی جانے والی مہلت کا فائدہ اٹھاکر اپنے سفارتخانے سے آﺅٹ پاس کا طلبگار تھا۔ کوئی اپنا قصہ سناکر دونوں افسران کو حیران کرتا۔ برسوں پہلے حج کیلئے آیا تھا، پاسپورٹ معلم کے قبضے میں تھا۔ طواف وداع کے بعد ایک مقامی ٹیکسی والے سے معاملہ طے پاگیا۔ کچھ اور بھی ہمراہ ہوگئے۔ کبھی سڑک پر اور کبھی غبار میں سفر کیا۔ دیدہ زیب عمارتیں اٹھانے میں برسوں بیت گئے۔ اس دوران ریاض میں ہی دوستوں نے حجلہ عروسی سجا دیا اور اب اہلیہ اور 4 بچوں کے ہمراہ سفارتخانے میں تھا۔ شادی اور بچوں کی پیدائش کا کوئی حکومتی دستاویزی ثبوت نہ تھا۔ صرف اپنا شناختی کارڈ ہاتھوں میں تھا اور گڑگڑاتا تھا کہ سفارتخانہ اسے اور اس کے خاندان کو پاکستان پہنچا دے۔ زندگی نے اندھیروں میں مزید بسر ہونے سے انکا ر کردیا تھا۔ سعودی حکومت کی دی گئی مہلت نے آنکھوں میں سنہری خوابوں کی فصل بو دی تھی۔
پھر چند اپنی داستان غم یوں کہتے تھے کہ ریاض کے منطقہ صناعیہ میں بڑی شرافت اور قانونی طریقے سے ویزا خرید کر آئے تھے۔ منزل مقصود پہنچے تو عقدہ کھلا کہ ایک ہموطن کی زیر نگرانی کام کرنا پڑے گا۔ ابتدائی 2 ماہ تو خیریت سے گزرے، مشاہرہ بھی وقت پر ملا۔ تیسرے مہینے کے آغاز پر ہموطن نگران نے سب کا رکنوں کے سامنے سادہ صفحات رکھے اور انہیں ان پر دستخط کرنے کو کہا۔ کچھ نے قلم چلا دیا۔ انکار کرنےوالوں کی زندگی عذاب کردی گئی چنانچہ وہ فرار ہوئے اور بغیر کسی دستاویز کے " ہوائی روزی" کماتے رہے۔ کفیل نے ان کے نام ہروب کی فہرست میں ڈلوا دیئے تھے اور اب سورج کی کرنوں سے بھی چھپ چھپا کر سفارتخانے پہنچے تھے۔ پاسپورٹ اپنے ہموطن نگران کے قبضے میں تھے۔ شناختی کارڈ دکھاتے تھے اور اپنے گاﺅں کے کھیتوں سے اٹھتی گندم کی بالیوں کا ذکر کرتے تھے۔ خوشیوں کو یاد کرتے تھے۔ سفارتخانے کے افسران نڈھال کردینے والی کثرت کار کو بھی خندہ پیشانی سے اپنے شانوں پر سنبھالے ہوئے تھے۔ 
ہر روز تقریباً ایک ہزار طلبگار آڈیٹوریم سے آﺅٹ پاس کے لئے دستاویز لئے نکلتے۔ اس دی گئی مہلت اور پھر اس کی توسیع کے دوران تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب دستاویزات کا اجراءہوا۔ نئے پاسپورٹ بنائے گئے۔ شاہد گجر کے زیر نگرانی بھی دن رات کام ہوا۔ وطن عزیز کے ہوائی اڈوں پر ایسے ایسے قدم اترے جو برسوں سے اجنبی ہوئے بیٹھے تھے۔ میر ے علم میں نہیں کہ عبدالشکور شیخ اور محمود لطیف نے اس بحران کے آغاز میں وطن عزیز کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے سائلین کی گفتگو کو سمجھا ہوگا یا نہیں لیکن میں یہ بات بلاشک کہہ سکتا ہوں کہ آج دونوں اردو کے علاوہ پنجابی، پشتو، سندھی ، بلوچی وغیرہ کے بھی ماہر مقررین بن چکے ہوں گے۔
میرے سامنے اس وقت ایک پاکستانی روزنامہ کھلا پڑا ہے۔ شہ سرخیوں میں میاں محمد نواز شریف کے زیر صدارت ہونے و الے اجلاس کی داستان ہے ۔ نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے تقرر کا ذکر ہے اور پھر میری نظر کا سفر شروع ہوتا ہے۔ بیانات ، مزید بیانات، تنقید ، نعرے، ہم یہ کردیں گے، فلاں بددیانت ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر میری نظر ایک چھوٹی سی خبر پر رک جاتی ہے۔ آپ بھی شریک مطالعہ ہوں۔
دنیا بھر کے 25 ممالک میں سے گزشتہ 5 سال کے دوران 2 لاکھ 66 ہزار پاکستانیوں کو ملک بدر کیاگیا ہے۔ صرف جرمنی میں 14 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے پناہ حاصل کرنے کی درخواستیں دے رکھی ہیں جبکہ ان میں سے صرف 57 کو جرمنی میں مستقل قیام کی اجازت ملی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی نے بڑی تعداد میں ہونےو الی ہلاکتوں کی بناءپر ہر ایسے غیر ملکی کو وہاں شہریت دینے کا فیصلہ کیا تھا جو کسی مقامی خاتون سے رشتہ ازدواج میں بندھ جائے۔ اسے روزگار بھی مہیا کیا جاتا تھا۔ یوں بڑی تعداد میں لوگوں نے وہاں کا رخ کیا لیکن معاشی، سائنسی اور صنعتی ترقی کے بغیر جرمن حکومت نے یہ پالیسی تبدیل کردی۔ آج بھی ہزاروں پاکستانی ملک بدری کے خطرے سے دوچار ہیں۔اندیشے سر اٹھاتے ہیں، ہمارے خسارے میں جانے والی معیشت کیسے ان واپس آنے والے بیروزگار لاکھوں کا بوجھ اٹھائے گی؟
ایک تجویز ہے۔ ہمارے دریاﺅں کا پانی روکا جاچکا ہے۔ ہماری زراعت دم توڑ رہی ہے۔ ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ ہماری صنعتی ترقی رُک چکی ہے۔ ہماری 20 کروڑ کی آبادی کی برآمدات صرف 23 ارب ڈالر سالانہ ہیں جبکہ مالیاتی خسارہ 32.5ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جبکہ ایک ننھے سے جزیرہ نما ملک سنگاپور کی آبادی صر ف 50لاکھ ہے اور ا سکی برآمدات 183 ارب ڈالر مالیت تک ہیں تو پھر آئیں ہم سنگاپور والوں سے دست بستہ درخواست کریں کہ وہ ہمیں سال، 6 ماہ کیلئے اپنے رہنما عاریتاً دے دیں۔ ہم ان کیلئے گڑگڑا کر دعائیں کریں گے۔ 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: