Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیٹی کے لئے باپ کی شخصیت آئیڈیل ہوتی ہے ،مہ نور

 
عورت طوفانی موسم سے محفوظ رہنے کی تگ و دو میں زندگی تمام کر دیتی ہے
 پا کستان کے وہ علاقے در یا فت کرنا چاہتی ہوں جنہیں لوگ نہیں جانتے
تسنیم امجد۔ریا ض
”کلک“کیسا لفظ ہے ، یہ حیات بھی ہے ،ممات بھی ہے ،یہ خموشی بھی ہے ، بات بھی ہے ،یہ نفی بھی ہے ، ثبات بھی ہے ، یہ گرفت بھی ہے ، نجات بھی ہے ، یہ ساز بھی ہے، آواز بھی ہے کیونکہ کلک کی صدا جب کمپیوٹر کے ماوس سے برآمد ہوتی ہے تودنیابھر کواسکرین پر سمیٹ لاتی ہے اور کبھی یہی کلک کمپیوٹر بند کر کے دلی جذبات کو دفن کر دیتی ہے۔ کلک کی آوازتختہ¿ دار سے آئے توزندہ وجود کو پھندے میں جھُلا دیتی ہے اور بندوق کی لبلبی سے بلند ہو تو موت کی نیند سلادیتی ہے۔گھر میں بجلی کے بٹن سے نمودار ہو تو اندھیرے دور کر دیتی ہے اور اگر روشنی میں یہی آوازآئے تو ہر ہست کوگویا نابود کر کے ماحول کو تاریکی میں ڈبو دیتی ہے۔ ایک کلک وہ ہے جو کیمرے سے بلند ہوتی ہے اور قیمتی زندگی کے حسین لمحے کو یادوں کے کینوس پر محفوظ کر دیتی ہے اور عکاس کو ہنسا دیتی ہے ، پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب کیمرے کی کلک سے منجمد ہونے والا لمحہ¿ حیات چشمِ عکاس کو رُلا دیتا ہے ۔
آج اردو نیوز میں ”ہوا کے دوش پر“اسلام آباد سے ایک ایسی ہی ہستی سے ملاقات کا ا حوال پیش کیاجا رہا ہے جو کیمرے کی کلک سے لمحاتِ حیات کو یادگار بنانے کے فن میں کمال کی حدوں کو چھو رہی ہیں۔یہ نابغہ روزگار شخصیت آنسہ ما ہ نور حا مدہیں۔ان سے ملاقات ہوئی تو لہجے کی تمکنت اور عزائم کی بلندی و پختگی نے ہمیں بے حد متاثر کیا ۔انہوں نے کہا کہ میرے عزا ئم کو عملی شکل دینے والی وہ ہستی ہے جس کے قدموں تلے جنت قرار پا ئی ہے۔میں اپنی والدہ کے لئے یہ اشعار پیش کرنا چا ہوں گی کہ:
یہ کا میا بیا ں، عزت یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے
تمہا رے دم سے ہیں میرے لہو میں کھلتے گلاب
میرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے
کہا ں بساط جہا ں اور میں کم سن و نا دا ں
یہ میری جیت کا سب اہتمام تم سے ہے
ماما عذ را حا مد نے جس انداز فکر سے نوازا،اسے میںنے پلے باندھ لیا ۔یو ں کہ زندگی ایک کتاب کی مانند ہے جس کے چند اوراق کبھی کبھی الجھنوں سے بد رنگ ہو جاتے ہیں۔انہیں بار بار پڑ ھنے سے حو صلے پست ہو تے ہیں ۔اس لئے بہتر ہے انہیں پھا ڑ کر پھینک دیا جا ئے اور ان اوراق کو مد نظر رکھا جا ئے جو قیمتی تجر بات کا نچوڑ ہیں۔ یہی مستقبل کی راہیں متعین کر نے کا سلیقہ سکھا تے ہیں۔
ماما کو تنہا ئی تب ملی جب میں چا ر برس کی تھی۔مجھے تو کچھ یاد بھی نہیں۔نہ جا نے قدرت کو کیا منظور تھا میرے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بعد میں نے اپنی والدہ کو ہی ماما اور با بادونوں کے روپ میں دیکھا۔ذرا ہوش سنبھا لا تو اپنے گرد موجود رشتو ں کو سمجھنے کا مو قع ملا۔ میری والدہ ہمہ جہت شخصیت کی مالک ہیں۔خا مو شی سے ان کے سامنے ایک ہی لگن تھی کہ بچیو ں کی تعلیم و تر بیت کا مر حلہ وہ آسانی سے سر کر لیں۔5 بیٹیو ں کی ذمہ داری کچھ آسان نہیں تھی ۔سب رشتے ہو تے ہو ئے بھی نہ ہو نے کے برابر تھے۔کسی نے بھی بڑھ کر ہا تھ نہ بٹایا ۔ ماں کو مشین کی طرح کام کرتے دیکھ کر میں بہت محسوس کر تی تھی۔ان دنوں ہم را ولپنڈی میں تھے۔بچپن سے لیکر شعور کی منزل تک کا سفر خاصا طویل ہونے کے باوجود مجھے یو ں لگا جیسے آنکھ جھپکتے ہی گزر گیا ۔میں نے حصول تعلیم کے لئے پہلے سٹی اسکول پھرگو ر نمنٹ ڈگری کالج، پنجاب کالج اور پھر نمل یونیورسٹی کے گزرے ہوئے شب و روزاب خواب لگتے ہیںاور اُس وقت حالت یہ تھی کہ وقت گزارے نہیں گزرتا تھا۔دل چا ہتا تھاکہ جلداز جلد کسی قابل ہو کر ماما کا ہا تھ تھام لو ں۔میرے تجربات نے یہ باور کرایا کہ زندگی میں امید و یاس ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔اللہ کریم پر مکمل بھروسہ کیا جائے تو مدد یقینی ہو جاتی ہے۔میری لگن نے مجھے سبک خرامی کی ہمت عطا کی۔یوں سمجھئے کہ: 
جتنا جتنا بے ثباتی کا یقیںآتا گیا
اتنی اتنی زندگی میں دلکشی بڑ ھتی گئی
٭٭٭
بڑے تا با ں ،بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا
  اتنی کم عمری میں سوچ کی پختگی اور احساس کے با رے میں ہم سوچ ہی رہے تھے کہ محترمہ عذ را حا مد بھی آ گئیںاور فا صلو ں کے باوجود رو برو کے اس انداز پر ٹیکنا لوجی کی خوب تعریفیں کیں ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کریم کا شکر ہے کہ 3بیٹیو ں کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو چکی ہو ں۔اب مہ نور سے بڑی نیلما حامد جوپاکستان کے ایک بینک میں ریجنل کو آرڈینیٹر کی حیثیت سے کام کر رہی ہے،اس کی با ری ہے۔ گزرے وقت کی تفسیر محترمہ عذرا کے چہرے پر لکھی تھی پھر بھی ہمارے سوال کے جواب میں کہنے لگیں کہ :
جا ل کھلتا نہیں جبینو ں سے
رنج اٹھائے ہیں جن قرینو ں سے
اب کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ پیدل ہی سفر طے کیا ہے اور پا ﺅ ں میں چھالے ہی چھالے ہیں ۔رشتوں میں رویو ں کا ز ہر بہت زیادہ محسوس کیا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ رشتے ،خون کے نہیں، احساس کے ہوتے ہیں۔خونی رشتے اپنی محبت ،خیر خواہی اور ہمدردی کا یقین تو دلاتے ہیںلیکن افسوس یہ ہے کہ یہ اپنے اپنے مفا د ہی مد نظر رکھتے ہیں۔
مہ نور نے ان کی بات کو اُچکتے ہو ئے کہا کہ بس ما ں ایک ایسا رشتہ ہے جو ہر حال میںاپنا رہتا ہے اور مسلسل دعا گو رہتا ہے۔ احساس کا رشتہ صرف اور صرف یہی ہے۔اولاد خیال کرے نہ کرے،ماں ہر دم دعائیں نچھاور کرتی رہتی ہے ۔افسوس تو یہ ہے کہ آجکل ہمدردی تو دور کی بات ہے ،الفا ظ سے ز خمو ںپر نمک پا شی کا وتیرہ عام ہے۔اس طرح دکھو ں میں اضا فہ کیا جا تا ہے ۔اللہ کریم کا شکر ہے کہ ہماری مشکلات کے بادل چھٹ گئے۔میں اپنی بہن نیلما کا شکر یہ ادا کروں گی تا کہ انہیں اپنے دلی جذبات کا حقیقی احساس دلا سکوں۔ انہوںنے ما ں کی طرح میرا خیال رکھا۔میری ذرا ذرا سی خوا ہش کا احترام کیا ۔میں تا زندگی اپنی آپی کا احسان نہیں اتار سکتی۔ میری آپی، میری بہنا!میں نے ماس کمیو نیکیشن میں ماسٹر ز مکمل کیا اور پی ٹی وی ورلڈمیں ایسو سی ایٹ پروڈیوسر کے فرا ئض انجام دے رہی ہو ں۔میں اپنے اس کریئر سے مطمئن ہو ں۔مجھے فو ٹو گرافی کا شوق ہے جس کی تکمیل یہا ں بآسانی ہو جا تی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ سیا حت کا بھی شوق ہے ۔میں پا کستان کے ان تمام علاقو ں کو در یا فت کرنا چاہتی ہوں جن کی معلو مات ابھی تک عام لو گو ں کے پاس نہیں۔کیمرے کی آنکھ سے ان مقامات کو محفوظ کر کے ان کی تفصیلی معلومات قلم کے ذریعے آگے پہنچا تی ہو ں۔مجھے لکھنے کا بھی شو ق ہے اس طرح میرے مشاغل کی مثلث عا لمی سیا حو ں تک پہنچ کر انہیں ان حسین مقامات کی جا نب متوجہ کرنے کا ذریعہ بنتی ہے ۔جس پر میں فخر کر تی ہو ں۔
شاہراہ قرا قرم،پا کستان اور چین کے درمیان دوستی ،محبت اور یگا نگت کا ایک خو بصورت رشتہ ہے۔نا قا بل فرا موش منا ظر سے مزین اس شا ہراہ کے گرد پہا ڑی علاقوںسے گز ر تے ہوئے بہت ہی بھلا لگتا ہے ۔ چین کے انتہا ئی مغربی صو بے کے شہر ،کا شغر تک کا سفر قدرت کی حیران کن تخلیقات سے آراستہ ہے۔مجھے خو ش قسمتی سے کوہساروں ،وادیو ںاور گھاٹیوں کے امتزاج سے جنم لینے والے منا ظرکی فو ٹو گرافی اور تحریر کا مو قع ملا ۔میری تصاویر ،کیمرہ برادر سیا حو ں کے لئے انمول ثا بت ہو ئیں۔اگر چہ ان کے پاس پہلے سے ذخیرہ موجود تھا۔چین کے وہ جوان جو اس شا ہراہ کے بننے کے دوران جان گنوا بیٹھے، ان کی قبریں ایک مقام ”نو مل“ پر موجود ہیں جو دین پورکے نزدیک اس شا ہراہ کے ساتھ واقع ہے۔ ان قبروں کی شکل میں مرنے والوں کی قربانیو ں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ یہ دونوں ملکوں کی دوستی کو پائندہ رکھے ہوئے ہے ۔
مئی تا اکتو برکا عرصہ اس شا ہراہ پر سفر کے لئے مو زو ںہے ۔گلگت تک تو فلا ئٹ پر جا یا جا سکتا ہے اور پھر جیپ یا بس کے ذریعے جانا پڑتا ہے ۔بہت سی ٹور آ پریٹر کمپنیاںسیا حو ں کی مدد کے لئے اجا زت نا مے اور گا ڑ یاں مہیا کرنے کے لئے مو جو د ہو تی ہیں ۔ مہ نور اپنے شوق کی تفصیل میں اس طرح محو تھیں کہ انہیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہو رہا تھاچنانچہ ہم نے گفتگو کا رخ ایک اور سوال سے بدل ڈالا۔ انہوں نے ہمارے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ :
جی ہا ں ،لڑکی ہو نے کے ناتے میرے راستے میں رکا وٹیں ہیں۔ہمارے معا شرے میں عورت کو ہمیشہ ہی طوفانی مو سم سے واسطہ رہتا ہے وہ اس سے محفوظ رہنے کی تگ و دو میںزندگی تمام کر دیتی ہے ۔وہ ایک محفو ظ چھت کی متلاشی ہوتی ہے۔ وہ با بل کی چھت کے بعد سے ہی اس کے لئے سرگرداںنظر آتی ہیں۔با بل کے آنگن میںوہ مہمان ہوتی ہے ۔یہ احساس اسے شمع کی مانند قطرہ قطرہ پگھلا تا ہے اور وہ بستر میں منہ چھپا کر اور کبھی گھر کے کو نو ں میںچھپ کر سسکیا ں لیتی ہے اور کہیں دور سے اس کی سماعتوں سے یہ صدا متصادم ہوتی محسوس ہوتی ہے کہ:
ساڈا چڑیا ں دا چنبہ اے، با بل اساں اُڈ جا ونا
ساڈی لمی اُڈاری اے، اساں وی مڑ نئیں آونا
اس گیت کے بول بڑ ھا پے تک اسے رُلاتے ہیںلیکن جس بیٹی کا بابل ہی نہ ہو ،و ہ کس کرب سے گزرتی ہے شاید اس کے اظہار کے لئے اردو لغت میں الفا ظ نہیں، صرف چہرہ ہی اس کے کرب کی گواہی دیتا ہے ۔بیٹی کے لئے باپ کی شخصیت کسی آئیڈیل سے کم نہیں ہو تی ۔ماں کی تر بیت اور باپ کی سر پرستی کا ملا جلا امتزاج بیٹی کی شخصیت کو تکمیل کی منزل تک لے جاتا ہے۔یہ سب کہتے ہو ئے مہ نور کی آواز کپکپا گئی۔انہوں نے کہا کہ اللہ کریم میری والدہ کو سلامت رکھے اور صحت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے ۔انہوں نے حتی ا لامکان اس کمی کو پورا کیا ہے لیکن حقا ئق سے منہ نہیں مو ڑا جا سکتا۔ماں کو تو خود سہارے کی ضرورت تھی۔کاش ! اس معاشرے کی سوچ اور رویو ں میں تبدیلی آ جا ئے ۔عو رت کو تنہا نہ سمجھا جائے اور اسے بھی مرد کے برابر مضبوط تصور کیا جائے ۔بلا شبہ عورت کمزور نہیں، اسے معاشرے کے رویے کمزور کر تے ہیں۔بقول شاعر:
پا بند راہ و رسم مجھے کرتے ہیں کچھ لو گ
ٹوٹے گی رواجوں کی یہ زنجیر کہ میں ہو ں
تم میرے ہنر کی نفی کرتے ہو تو کیا ہے
گو یا ہے مرے حرف کی تو قیر کہ میں ہو ں
فردا کا ہر اک خواب مری آنکھوں میں ہر شب
اک روز اسے ہو نا ہے تعبیر کہ میں ہو ں
میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ 21ویں صدی کی عورت آج بھی انہی حقوق کے لئے جدو جہد کر رہی ہے جن کے حصول کے لئے وہ صدیوں پہلے کوشاں تھی ۔حقوق نسواں کے علمبردار در حقیقت یہ نعرہ لگا کراپنی ذمہ داریو ں سے کنا رہ کشی اختیار کر نا چا ہتے ہیںکہ عورت حقوق یافتہ ہے اور اسے آزادی میسر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عو رت مرد کے پیچھے چلنے کو اپنے حقوق سمجھ بیٹھی ہے جو کہ مغرب کی تقلید ہے، جہاں یہ نعرہ ایک فریب ہے۔معا شرہ اس فریب کے پس پردہ فطری قوا نین کو مسخ کیا جا رہا ہے ۔آج وہ احتجاج کرتی ہے تو حقوق کے نام پر اسے چپ کرا دیا جاتا ہے۔اس کی حالت ایسی ہے کہ:
کو ئی سنتا ہی نہیں بو ل رہی ہو ں کب سے
تیز آ ندھی میں کھڑی ڈول رہی ہو ں کب سے
ہم، الحمدللہ، مسلمان ہیں اور اس دین کے پیروکار ہیںجس نے عورت کو عزت عطا فرمائی ۔اسے پستیو ں کے اندھیروں سے نکال کر بلند یو ں سے نوازا۔ہم کسی ایسے معاشرے کا تصور بھی نہیں کر سکتے جو تنہا مردوں پر مشتمل ہو اور پھل پھول رہا ہو ۔اجتماعی زندگی کی خوشحالی میں عورت کو بھی برابر کا حصہ ملنا ضروری ہے۔ اسے زبانی کلامی تسلی نہیں چاہئے۔عورت کی صلا حیتو ں کو تسلیم کر کے معاشرہ مزید ترقی سے ہمکنار ہو گا ۔تنہا عورت کو حو صلہ دینا اس معا شرے کی اولین ذمہ داری ہے۔
آخر میں مہ نور نے بتایا کی وہ ادب سے دلچسپی رکھتی ہے۔انگلش ناول جو بھی اچھا لگے ضرور پڑھتی ہو ں ۔ولیم ورڈز ور تھ کی شا عری جو فطرت کے بارے میں ہے ،پسند ہے۔فو ٹو گرافی کر تے ہو ئے اکثر اسے سننا اچھا لگتا ہے۔
 
 
 
 
 
پاکستان
 

شیئر: