Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نابغہ روزگار پاکستانی گلوکارہ، پاپ موسیقی کی ملکہ”نازیہ حسَن“

 
15سال کی عمر میں فن کی دنیا میں قدم رکھا، 35برس کی عمر میں پیوندِ خاک ہوگئیں
شہزاد اعظم
ہم نے بچپن کی چادر سے جونہی پاوں باہر نکالے ، سمعی و بصری بے راہ رویوںنے ہم پر یلغار کر دی۔چال میں اٹکھیلیاں در آئیں، جملوں میں پہیلیاں بھر آئیں، ہمارے دوست اور نانی کی سہیلیاںگھر آئیں،الفاظ نغموں کی طرح سنائی دینے لگے، ماہتاب اندھیروں میں دکھائی دینے لگے، پردہ نشیں بھی سجھائی دینے لگے۔ ہم نے ان اپنی ”خاندانی معالجہ“ سے ان تبدیلیوں کی شکایت کی تو انہوں نے تشخیصاً فرمایا کہ یہ تو وتیرہ¿ حیات ہے ، آپ بچپن کے آپے سے باہر ہو چکے ہیں اور نوخیز پن میں قدم رنجہ فرما چکے ہیں ۔ یہ کہہ کر انہوں نے مترنم انداز میںکہا ”یہ تو ہونا ہی تھا“۔
ہم نے اپنی تمام کیفیات نانی جان کو بتائیں تو انہوں نے تمام ”نواسیت“بالائے طاق رکھتے ہوئے سرزنش کے انداز میں ہمیں بعض احکامات دیئے جن میں کہا گیا تھا کہ اپنے کانوں کو نامحرم سماعت سے، آنکھوں کو نامحرم بصارت سے محفوظ رکھنا۔ گانے سننے یا گانے کا جنون سوار ہونے لگے تو مجھے بتانا، میں تمہارا وہ حشر کروں گی کہ آئندہ نغمہ یا نغمگی کا شوق تم سے ہزاروں میل دور رہے گا۔
اس ”ننھیالی نصیحت “ کے چند روز بعد ہی ایسا ہوا کہ ہمیں شہر لاہور کے معروف خریداری مرکز”انارکلی“ جانا پڑ گیا۔ہمارا ایک ہم جماعت جس کا نام عباس تھا، ہمارے ساتھ تھا۔ہم نیلے گنبد کی جانب سے انارکلی میں داخل ہوئے اور ”دریچہ خریداری“ یعنی ”ونڈوشاپنگ“ کرتے ہوئے لوہاری کی طرف پیدل چلنے لگے۔ بانو بازار کے داخلی راستے سے قبل ایک دکان کے باہر گھڑی فروش بیٹھا تھا۔ اس نے ریکارڈڈ کیسٹس بھی فروخت کے لئے رکھی ہوئی تھیںجنکی تشہیر کے لئے اس نے ٹیپ ریکارڈرمیں ایک کیسٹ لگا رکھی تھی ، جس کے جدید اسپیکروں سے عجیب و غریب قسم کی آوازیں نمودار ہو رہی تھیں جو اس سے قبل ہم نے نہیں سنی تھیں۔ ہم نے اُس روز سے قبل اپنی زندگی میں جو ”نغمے“ سنے وہ کچھ یوں تھے:
جگنی جا وڑی کلکتے
جتھے ایکو ایہہ روٹی پکے
بڈھا کھاوے تے بڈھی تکے
ہو سائیں میریا جگنی کہندی آ
مگر آج اُس ٹیپ ریکارڈر سے جو آواز برآمد ہو رہی تھی اس نے ہمیں سمعی چیرہ دستوں کا ایسا شکار بنایا کہ نانی جان کی ساری نصیحتیں بھلا دیں،ہمارے قدم یوں رُکے جیسے ہم چلنا ہی بھول گئے ہوں۔ہمیں ان سنی موسیقی کے دوش پر ہوش اُڑانے والے جو الفاظ سنائی دے رہے تھے وہ یوں تھے:
”آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے
تو بات بن جائے،ہاں بات بن جائے “
اپنے حواس مجتمع کر کے ہم نے اُس کیسٹ فروش سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے، کون ہے ، کیوں ہے؟ اس نے کہا یہ گانا ہے، گلوکارہ نازیہ حسن ہے، یہ کیسٹ سننے کے لئے ہے ۔ ہم نے کہا کتنے کی ہے، اس نے کہا کیسٹ 15روپے کی اور ٹیپ ریکارڈر2200روپے کا۔ ہم نے پھر استفسار کیا کہ یہ نازیہ حسن کون ہے؟ اس نے کہا کہ یہ لندن میں مقیم پاکستانی شخصیت ہے جس نے ہندوستانی فلم ”قربانی“ کے لئے گانا گایا اور موسیقی کی دنیا میں اچھوتا انقلاب بپا کر دیا ۔ اسے دنیائے فن میں ”پاپ موسیقی کی ملکہ“قرار دیا جارہا ہے۔
ہم نے گھر آکر نانی جان کو تمام تر صورتحال سے آگاہ کیا تو انہوں نے پہلے تو اپنی چھڑی سے ہماری خوب دھنائی کی اور اس کے بعد کہا کہ جب تک میں زندہ ہوں، تجھے نازیہ کا گانا نہیں سننے دوں گی۔پھر یوں ہوا کہ نازیہ انتقال کر گئیں البتہ نانی جان اس کے بعد بھی کئی برس بقیدِ حیات رہیں۔
نازیہ حسن انتہائی خوبصورت اور پراسرار آواز کی مالکہ تھیں۔ ان کے مداح اور ناقدین یہی فیصلہ نہیں کر پائے کہ وہ خود زیادہ حَسین تھیں یا ان کی آواز زیادہ خوبصورت تھی۔ ان کی شخصیت میں پراسراریت زیادہ تھی یا آواز میں؟
برصغیر میں پاپ میوزک کی بنیاد رکھنے والی پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن 3اپریل 1965ءکو کراچی میں پےدا ہوئےںاور 20اگست 2000ءکو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔ انہیں مداحوں سے بچھڑے 17برس بیت گئے وےں برسی 13اگست بروز اتوار کو منائی جائے گی ۔نازیہ حسن 3اپریل 1965ءکو کراچی میں پےدا ہوئےں ۔نازیہ نے 15 سال کی عمر میں بالی وڈ فلم ”قربانی “کےلئے گانا گایا تھا جس کے بعد وہ یکے بعد دیگرے کامیابی کی سیڑھیاں طے کرتی گئیں۔قابل ذکر امر ہے کہ نازیہ حسن کو یقین ہی نہیں تھا کہ ان کے کام کو دنیا بھر میں اتنی پذیرائی ملے گی۔ انجام کار وہ 1980ءمیںمحض15سال کی عمر میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔
نازیہ نے اپنے فنی کریئر کا آغاز پاکستان ٹیلی وژن کے مشہور پروگرام ”سنگ سنگ چلیں“سے کیاتھا جس میں ان کے بھائی زوہیب حسن بھی ان کے ساتھ شرکت کرتے تھے۔دونوں نے گلوکاری کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی۔عالمی سطح پر نازیہ حسن کو اس وقت شہرت ملی جب انہوں نے ہندوستانی موسیقار بدو کی موسیقی میں فلم قربانی کا نغمہ ”آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے“ ریکارڈ کروایا۔ اس نغمے نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے ۔ اس پرنازیہ حسن کو ہندوستان کا مشہور فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا۔ وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی شخصیت تھیں۔”قربانی“ کے اس نغمے کی مقبولیت کے بعد نازیہ اور زوہیب حسن کا مشہور البم ”ڈسکودیوانے“ ریلیز ہوا۔ اس کیسٹ نے بھی فروخت اور مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ ان کے دیگر مقبول البمز میں ”بوم بوم اور ینگ ترنگ“ شامل ہیں جبکہ اس دوران ان کے گانے ویسٹ انڈیز، لاطینی امریکہ، برطانیہ اور روس کے میوزک چارٹس میں بھی سرفہرست رہے۔
1997ءمیں نازیہ حسن کی شادی مرزا اشتیاق بیگ سے ہوئی جو بعد ازاں طلا ق پر منتج ہوئی ۔نازیہ حسن نے ”پاپ موسیقی“ کے ذریعے گلوکاری کی دنیا میں جیسی شہرت حاصل کی ،ان کے بعد کسی گلوکارہ کو ویسی شہرت نہ مل سکی ۔شہرت کی ان ناقابلِ یقین بلندیوں کو چھونے وا لی نابغہ روزگار گلوکارہ نازیہ حسن سرطان جےسے موذی مرض مےں مبتلا ہوئےں اوربالآخر 35سال کی عمر میں ایک بیٹے اور لاکھوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کرپیوندِ خاک ہوگئیں۔
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: