Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسٹیٹس مین

تاریخ آپ کو ہمیشہ صرف تاجر حکمران کے نام سے یاد رکھے گی جبکہ آپ کو ایک مدبر(اسٹیٹس مین)بننے کے مواقع بھی ملے
* * * محمد مبشر انوار * * * *
تحریک پاکستان میں شامل وہ نسل جس نے ایک الگ وطن کی خاطر قربانیاں دی تھیں تا کہ محمد مصطفی کے نام لیواؤں کی آنے والی نسل آزادی سے احکامات الٰہی کی پیروی کر سکے،وہ نسل تقریباً اٹھ چکی اور اب یہ صورتحال ہے کہ ملک میں ایسے حکمران قابض ہیں جن کے نزدیک پاکستان صرف حلوائی کی دکان ہے جہاں وہ اپنے نانا کی فاتحہ کروانے کیلئے ہر وقت تیار ہیں۔ سرکاری وسائل پر صرف ان کا تصرف،ریاستی مشینری ان کے اور اہل خانہ کے لئے متعین جبکہ غریب عوام در بدرٹھوکریں کھاتی رہے،کسمپرسی کے عالم میں جئے یا مرے، اشرافیہ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ کیڑے مکوڑے ان کے سامانِ تعیش کیلئے پیدا ہوئے ہیں جن کے کوئی حقوق نہیں ہوتے ۔ آج اس وقت ملک میں کوئی ایسا قد آور سیاستدان نظر نہیں آتا جو ملک کو در پیش مسائل حل کرنے کی استطاعت رکھتا ہوبلکہ میرے نزدیک استطاعت رکھنا تو دور کی بات،مسائل کے حل میں سنجیدہ اور مخلص بھی کوئی نظر نہیں آتا۔
مانا کہ سیاست کا مقصد بالآخر اقتدار کا حصول ہے لیکن سیاستدان کی نظر فقط حصول اقتدار نہیں بلکہ ملک و قوم کی رہنمائی اور وسائل میں اضافہ ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے اس ملک میں ایسے حکمرانوں کا گروہ پیدا ہو چکا ہے جو سیاست کو تجارت بنا کر اس سے صرف منافع کشید کر رہا ہے جبکہ اسکے حقیقی ثمرات سے اس ملک اور قوم کو محروم رکھے ہوئے ہے۔اس میں ایک طرف جہاں ماضی کے طالع آزما قصور وار ہیں تو دوسری طرف اس ملک کی عدلیہ بھی شریکِ جرم رہی ہے جس نے ہر اہم موقع پر مصلحت کوش کی چادر اوڑھے رکھی تو تیسر ی طرف افسر شاہی تھی ،جس نے اپنے حقیقی فرائض سے پہلو تہی کرتے ہوئے فوجی یا سیاسی فرد واحد کی آمریت کے سامنے سپردگی کا اظہار کر کے بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے۔ ریاستوں کے معاملات چیک اور بیلنس، مضبوط اداروں کے بغیر چل نہیں سکتے اور حکمرانوں(فوجی و سویلین فرد واحد کی آمریتوں )نے سب سے پہلے انہی اداروں کو کمزور کیا تا کہ ان کے راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ختم ہو سکے اور یہی افسر شاہی اور اس کے کرتا دھرتا،چاپلوسیوں میں شریک ہو کر بالواسطہ طور پر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ کسی بھی جونیئر افسر کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ اپنے سینیئر کیخلاف کسی حکومت کا آلہ کار نہ بنے بلکہ معاملات یہاں تک آ پہنچے کہ جو نیئر افسروں نے باقاعدہ لابی اور اپنی خدمات کے عوضانے میں اپنے ہی سینیئرز اور اساتذہ(کہ انسان اپنے بڑوں سے سیکھتا ہے )کو بائی پاس کرکے اعلیٰ عہدے حاصل کئے اور اپنے ہی سینیئرز کو احکامات دینے لگے ،جو کسی بھی سینیئر کیلئے پسندیدہ نہیں ہو سکتی کہ آپ ہی کے سکھائے ہوئے آپ کو حکم دے رہے ہوں۔
پاکستان وہ ملک ہے جو اپنی آزادی کے بعد سے اب تک مسلسل بحرانوں کا شکار رہا ہے اور اب تو یہ لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کہ ہم ابھی تک بحرانوں کا شکار ہیں جس میں من حیث القوم ہم سب ،حصہ بقدر جثہ ،ملوث ہیںکہ ہم وہ قوم بن چکے ہیں جس نے تاریخ سے کچھ نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہو۔ہم ہر بار ایک جیسی غلطیاں دہراتے ہیں مگر خواہش یہ رکھتے ہیں کہ نتائج مختلف نکلیں۔ماضی میں ذرائع ابلاغ کے محدود کردار کی وجہ سے ایسا ہوتا رہا ہے کہ چرب زبانی ، گوئبلز یا چانکیائی سیاست مروج رہی اور عوام کے اذہان کو پراگندہ کیا جاتا رہا۔عدلیہ اورافسر شاہی کو اپنے حق میں استعمال کیا جاتا رہا،عوامی مینڈیٹ کو اچکنا ایک مسلمہ وطیرہ رہا،مخالف سیاسی قیادت کیخلاف غیر اخلاقی حرکات ایک تواتر کے ساتھ کی جاتی رہیں،عوام الناس میں جھوٹ بول کر حقائق کو مسخ کیا گیا،صرف اور صرف اقتدار کی خاطر ،سرکاری وسائل کے بے محابہ استعمال کی خاطر اور ذاتی تجوریوں اور لاتعداد آف شور کمپنیاں بنانے کی خاطر تمام تر اصول و ضوابط کو تہس نہس کیا جاتا رہا۔ تاریخ کے حوالے سے سبق نہ سیکھنے کی روش ماسوائے پڑھنے سے دوری کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں لیکن وہ سارے سبق ازبر ،جو ذاتی کاروبار کو ترقی و ترویج دے سکیں،ایسا کون سا طریقہ ہے جو موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ،اسحق ڈار ،خواجہ سعد رفیق یا دیگر مسلم لیگی اکابرین نہیں جانتے؟یا پیپلز پارٹی،اے این پی،ایم کیو ایم والے نہیں جانتے؟ محاذ آرائی کے چمپئنز آج بھی 90 کی دہائی میں زندہ ہیں جہاں وہ محاذ آرائی کے باعث عوام کو بیوقوف بنا لیتے تھے،جھوٹ بولنے کے معاملے میں گوئبلز بھی جن کے سامنے بچہ نظر آ تا ہے اور آج بھی وہی پرانی روش اپنائے ہوئے ہیں کہ ہم ان فیصلوں کو نہیں مانتے جو انہیں اقتدار سے الگ کردے۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جب پیپلز پارٹی کیخلاف جسٹس قیوم جیسے ججز سے بینظیر بھٹو کیخلاف فیصلے لئے جاتے تھے،آج اپنا ہی تھوکا چاٹنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور ببانگ دہل ارشاد فرما رہے ہیںکہ بینظیر کے خلاف فیصلے غلط ہوئے ۔
حد تو یہ ہے کہ چند سال قبل یہی حرکت سید یوسف رضا گیلانی کیخلاف کی،تب اصول و ضوابط یاد تھے اور عدلیہ بھی آزادجبکہ آج اپنے خلاف فیصلہ آیا تو نہ دن کو سکون ہے نہ رات کو چین آ رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو،بیگم نصرت بھٹو،بینظیر بھٹو اور سید یوسف رضا گیلانی کی اداروں کی تعظیم کو سلام کہ ہر غلط فیصلے کے باوجود سر تسلیم خم کیا مگر اداروں کو بے توقیر نہیں کیااور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ سید یوسف رضا گیلانی خاندانی آدمی ہیں کہ انہوں نے فیصلے کیخلاف کوئی لفظ نہیں کہا۔ 28 جولائی کو ہونے والے فیصلے کے بعد اور دورانِ سماعت مسلم لیگ ن نے اپنی بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح سے بھی انہیں ’’سیاسی شہادت‘‘ مل سکے لیکن وہ ہو نہ سکا اور اب اس سیاسی شہادت کی تلاش میں ریلی کے شرکاء عام انسانوں کو گاڑیوں کے نیچے کچلنے لگے ہیں۔ بعینہ وہی طریقۂ کار جو کسی زمانے میں ایم کیوایم اختیار کیا کرتی تھی کہ اپنے کارکنوں کو خود ہی قتل کرنے کے بعد کوئی نہ کوئی رعایت حکمرانوں اور مقتدر ہستیوں سے مانگا کرتی تھی۔
محاذ آرائی کی سیاست کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کو ایک حقیقت کی سمجھ نہیں لگ رہی کہ 90 کی دہائی میں کی جانے والی محاذ آرائی 2 سیاسی جماعتوں یا شخصیات کے درمیان رہی ،جس میں مسلم لیگ ن کو ہمیشہ ریاستی اداروں کی سر پرستی حاصل رہی اور مسلم لیگ ن کامیابی کے جھنڈے گاڑتی رہی لیکن! اب محاذ آرائی سمجھ سے باہر ہے کہ ادارے کلیتاً قوانین کے مطابق چلنے پر زور دے رہے ہیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہنے کو ترجیح دے رہے جبکہ میاں صاحب کھلے عام نہ صرف اداروں پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ اپنی نااہلی کو20 کروڑ عوام کی نا اہلی قرار دے رہے ہیں۔کیا میاں صاحب عدالت عظمیٰ کی روشنی میں یہ ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ ان کو (مسلم لیگ ن)ووٹ دینے والے بھی نا اہل ہیں؟ ووٹ کی حرمت اور تقدس کی بات کرتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ2013 کے انتخابات میں سب جماعتوں نے دھاندلی کا الزام لگایا تھا مگر آپ نے اپنے دور حکومت میں انتخابی نظام کو درست کرنے کیلئے کوئی اقدامات اٹھانے کی بجائے اسی نظام کے تحت اہم ترین ضمنی انتخابات جیتے اور مخالفین کو چڑاتے رہے۔آج آپ کس منہ سے ووٹ کی حرمت اور تقدس کی بات کر رہے ہیں؟آپ کی محاذ آرائی کی بنیاد بھی بنت حوا کی تضحیک سے ہوئی اور آج انتہا بھی بنت حوا کے استعمال پر ہے؟اس دوران آپ نے کیا سیکھا؟تاریخ آپ کو ہمیشہ صرف تاجر حکمران کے نام سے یاد رکھے گی جبکہ آپ کو ایک مدبر(اسٹیٹس مین)بننے کے مواقع بھی ملے۔

شیئر: