Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ میں بھوک کا بحران مزید سنگین، جنگ بندی کے لیے مذاکرات کس موڑ پر ہیں؟

غزہ میں غذائی قلت سے ہونے والی اموات کی تعداد بڑھ رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
غزہ میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے ثالث اسرائیل اور حماس کے درمیان 6 جولائی سے مذاکرات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جہاں بڑے پیمانے پر فاقہ کشی کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مہینوں کی لڑائی کے دوران دونوں فریق طویل عرصے تک برقرار رہنے والی پوزیشنوں پر برقرار ہیں جس کی وجہ سے دیرپا جنگ بندی میں رکاوٹ ہے۔
اسرائیل کی جانب سے مزید امداد کی اجازت دینے سے انکار کے باعث غزہ میں غذائی قلت سے ہونے والی اموات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
واشنگٹن نے کہا کہ اعلیٰ ترین ایلچی سٹیو وِٹکوف اس ہفتے غزہ جنگ بندی اور امدادی راہداری پر بات چیت کے لیے یورپ کا دورہ کریں گے۔ امریکی حکام نے کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ بھی جا سکتے ہیں۔
چونکہ غزہ میں انسانی صورتحال انتہائی ابتر ہو رہی ہے تو کیا دونوں فریق کسی معاہدے تک پہنچنے کے قریب ہیں؟
دو ہفتوں سے زیادہ عرصے سے ثالثی کرنے والے قطر، مصر اور امریکہ کی کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔ تجویز میں 60 دن کی جنگ بندی اور سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے بدلے 10 زندہ یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے۔
حماس کا اصرار ہے کہ کسی بھی معاہدے میں جنگ کے دیرپا خاتمے کی ضمانتیں شامل ہونی چاہییں۔
اسرائیل ایسی کسی بھی ضمانت کو مسترد کرتا ہے اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ حماس کو امن کی شرط کے طور پر لڑنے یا حکومت کرنے کی اپنی صلاحیت کو ترک کرنا چاہیے۔
پیرس کی سائنسز پو یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ امور کے ماہر کریم بطار نے کہا کہ ’سچائی یہ ہے کہ سیاسی مفادات کے لیے نہ تو (اسرائیلی وزیر اعظم) بنیامین نیتن یاہو اور نہ ہی غزہ میں حماس کے رہنماؤں کو فوری نتیجہ اور ایک جامع جنگ بندی دیکھنے میں دلچسپی ہے۔ دونوں کو سنجیدہ سوالات کے جوابات دینے ہوں گے۔‘
بطار نے کہا کہ ’تکنیکی پہلو ہیں جن پر قابو پانا کافی مشکل ہے کیونکہ غزہ میں حماس کی قیادت اور دوحہ میں مذاکرات کاروں کے درمیان رابطہ منقطع ہو رہا ہے۔‘

حماس کا اصرار ہے کہ کسی بھی معاہدے میں جنگ کے دیرپا خاتمے کی ضمانتیں شامل ہونی چاہییں (فوٹو: اے ایف پی)

کنگز کالج لندن کے مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار آندریاس کریگ کے نزدیک ’مذاکرات تکنیکی طور پر آگے بڑھ رہے ہیں، لیکن عملی لحاظ سے وہ تعطل کے قریب پہنچ رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب جو کچھ میز پر ہے وہ مؤثر طریقے سے قیدیوں کے تبادلے کا ایک اور معاہدہ ہے، نہ کہ حقیقی جنگ بندی کا معاہدہ۔‘
حماس کو ایک مخمصے کا سامنا ہے۔ اس پر کچھ اسرائیلی مراعات حاصل کرنے کے لیے دباؤ ہے لیکن ’دوسری طرف اسے تیزی سے مایوس کن انسانی صورتحال کا سامنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’قیادت اس بات پر بحث کر رہی ہے کہ وہ سیاسی طور پر ہتھیار ڈالے بغیر کس حد تک سمجھوتہ کر سکتی ہے۔‘
بطار نے کہا کہ ’جب تک امریکہ اور قطر اسرائیل پر اپنا دباؤ نمایاں طور پر نہیں بڑھاتے مجھے ڈر ہے کہ مذاکرات کا یہ دور بھی پچھلے دور کی طرح ناکام ہو جائے گا۔‘

 

شیئر: