Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ہمسائی کا توتلا‘‘

* * *شہزاد اعظم* * * ’’
ماہرینِ حُب‘‘کا کہنا ہے کہ دنیا میں 3قسم کی محبتیں پائی جاتی ہیں۔ پہلی محبت جھوٹی، دوسری مطلبی اور تیسری حقیقی۔ جھوٹی محبت کرنے والا منہ پر تعریفیں کرتا ہے اور پیٹھ پیچھے برائیاں۔ کو ئی مشکل درپیش ہو تو آنوں بہانوں کنی کتراتا ہے یعنی وقت پڑنے پر منہ موڑ لیتا ہے۔جھوٹی محبت کرنے والے کو محبوب کی کسی پالتو یا فالتو اشیاء سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ وہ محض دنیا دکھاوے کی محبت کرتا ہے۔ دوسری قسم مطلبی محبت کی ہے جو اُس وقت تک کی جاتی ہے جب تک مطلب پورا نہ ہوجائے۔ گویا یہ محبت صرف اُلو سیدھا کرنے کیلئے ہوتی ہے۔ جیسے ہی مطلبی شخص کا اُلو سیدھا ہوتا ہے، وہ منہ پھیر لیتا ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ کہا جا سکتا ہے مطلبی محبت انہی کا خاصّہ ہوتی ہے جن کے اُلو ٹیڑھے ہوں۔ایسے لوگوں کو محبوب کی زیر استعمال اشیاء سے لگاؤ ہوتا ہے جو نہ صرف عارضی بلکہ کم شدت کا ہوتا ہے ۔ اُلو سیدھا ہونے کے ساتھ ہی یہ لگاؤ یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ تیسری قسم کی محبت حقیقی ہوتی ہے۔ حقیقی یا سچی محبت کرنیوالا اپنے محبوب کے سامنے بھی اس کی تعریفیں کرتا ہے اور پیٹھ پیچھے بھی اُسی کے گُن گاتا ہے۔اس کی ہر ہر بات کو اسکے زیراستعمال جمادات کو،اُسکے لگائے ہوئے نباتات کو ، اسکے پالتوحیوانات کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہے ۔ کبھی وہ اُن جمادات ، نباتات و حیوانات کی قسمت پر رشک کرتا ہے اور کہہ اٹھتا ہے کہ ’’کاش میں تیرے ہاتھ کا کنگن ہوتا۔‘‘ ماہرینِ حُب نے حقیقی محبت کیلئے محترمہ لیلیٰ اور محترم مجنوں کے باہمی روابط، مؤدت، محبت ،قلبی قربت کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسٹر مجنوں اینڈ مس لیلیٰ کے درمیان غیر مرئی رشتہ سچی محبت کے معیار پر پورا اترنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ قرائن یہی بتاتے ہیں کہ محترم مجنوںنہ صرف مس لیلیٰ کو اپنی شریک سفر بنانے کے لئے نیتاً انتہائی مخلص تھے بلکہ وہ لیلیٰ کے زیر استعمال جمادات، اس کے آنگن میں لہلہاتے نباتات اور اس کے پالتو حیوانات سے بھی مثالی محبت کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنی ممکنہ منگیتر لیلیٰ کا کُتا بھی بہت ہی قیمتی لگتا تھا۔ وہ اس کُتے سے بھی لیلیٰ جیسی ہی محبت کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جس سے محبت کی جاتی ہے اس کے زیر استعمال تمام اشیاء، اس کے مشمولات اور معمولات سب سے اسی شدت کے ساتھ محبت کرنی چاہئے جس شدت سے ان اشیاء کی مالکن کو چاہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محترم مجنوں ، لیلیٰ کے کتے کو اپنے آپ سے زیادہ قیمتی اور خوش قسمت سمجھتے تھے۔ اس تمام توضیح کا مقصد آپ کو یہ باور کرانا تھا کہ ہمیں اپنی نانی سے بے انتہاء محبت تھی۔
یوں تو ہر نواسے کو اپنی نانی سے محبت ہوتی ہی ہے مگر ہمیں بے انتہاء محبت تھی۔ وہ ہمیں بے تحاشا پیار کرتی تھیں۔ ہم سے مذاق بھی کیا کرتی تھیں۔وہ ہمیں مسٹر نواسہ کہا کرتی تھیں اور ہم انہیں کبھی ’’ڈبل امی‘‘یعنی امی کی امی اور کبھی ’’مسز نانا‘‘کہا کرتے تھے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ وہ ہماری انتہائی بااعتماد، باوقار اور محرم سہیلی تھیں تو یہ بات کسی طور غلط نہیں ہوگی۔ہم اپنی ’’ڈبل امی‘‘ سے چونکہ بالکل سچی محبت کرتے تھے اس لئے ہمیں ان کی ہیل والی جوتیوں سے ، بغیر ہیل کی چپلوں سے ،ان کی کھڑاؤں سے،، ان کی گھڑیوں سے ، ان کی چوڑیوں سے، ان کے کنگنوں سے، ان کے تمام بندھنوں سے، ان کی انگشتریوں سے، ا نکی طشتریوں سے،ان کے ملبوسات سے ، ان کی ہر ہر بات سے حتیٰ کہ ان کے پاندان سے، ان کے مکان سے اور یہاں تک کہ ان کی گائے سے، ان کے ہمسائے سے بھی محبت تھی،اس کی ہم عزت فقط اس لئے کیا کرتے تھے کہ وہ ہماری نانی کا ہمسایہ تھا۔
ان کے ہمسائے میں ایک ہمارا ہم عمر رہا کرتا تھا۔ اس وقت وہ بھی 5سال کا تھا اور ہم بھی 4سال 11ماہ کے تھے ۔وہ ہمسایہ توتلا بولتا تھا چنانچہ ہماری نانی اسے ’’ہمسائی کا توتلا‘‘ کہا کرتی تھیں اور وہ شرارتی اتنا منہ پھٹ تھا کہ ہماری نانی جب بھی اسے ’’ہمسائی کا توتلا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتیں تو وہ فٹ جواباً کہتا کہ جی جی فرمائیے ’’توتلے کی ہمسائی‘‘ کیا کہنا چاہتی ہیں۔ ہماری نانی بہر حال تجربہ کار خاتون تھیں ،انہوں نے کہا تھا کہ میری بات یاد رکھنا، یہ ’’ہمسائی کا توتلا‘‘ بڑاہوکردیکھنا کیا کرتا ہے۔ ہم پوچھتے کہ نانی !آپ کیسے کہہ سکتی ہیں؟ وہ جواب دیتیں کہ ’’پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں‘‘۔ ’’ہمسائی کا توتلا‘‘ جوں جوں بڑا ہو رہا تھا، اس کی تتلاہٹ دور ہوتی جا رہی تھی مگراس نے اب چالاکیاں شروع کر دی تھیں۔ وہ جب چاہتا نہایت نستعلیق قسم کی اردو بولتا اور جب دل چاہتا تتلانے لگتا۔وہ 7برس کا ہوا تو اس نے ہماری نانی کی بقچی میں سے قیمتی اشیاء چُرانی شروع کر دیں۔اس نے ہماری ڈبل امی کی انگشتری بقچی میں سے نکال کر فروخت کر دی اور بازار سے جا کر رنگین ٹیلی وژن خرید کر لے آیا۔ ہم نے پوچھا کہ ’’بھیا ،ہمسائی کے توتلے ‘‘یہ ٹی وی کہاں سے لائے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ بھیا! ہر کوئی تمہارے جیسا تو ہے نہیں کہ جسے دنیا میں کوئی اپنا سمجھنے والا ہی نہ مل سکا ہو۔ یہ میرے دوست نے تحفہ دیا ہے۔جب ہماری نانی نے ڈانٹ کر کہا کہ سچ سچ بتا یہ ٹی وی کہاں سے لایا تو وہ تتلاکر جواب دیتا۔ارے ہمسائی تی نانی ، میں نے تیا تیا ہے جو آپ میلے اوپل دُشّے ہو لئی ہو۔آتھر میں نے تیا تیا ہے ؟‘‘
یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔کئی برس کے بعد جب’’ہمسائی کا توتلا‘‘ 22سال کا ہوگیاتو ایک روز وہ شام کو نئی گاڑی میں گھر لوٹا۔ سارے محلے نے اسے دیکھ کر چیخیں مارتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ہمیں تحقیق کے ذریعے تمام حقائق معلوم ہو گئے ۔ ہم نے نانی کو بتایا کہ اس نے دوسرے علاقے میں جا کر وہاں کھڑی گاڑی چوری کی اور بعد ازاں اسے بیچ کر نئی گاڑی خرید کر لے آیا۔ہماری نانی نے ’’ہمسائی کے توتلے‘‘ سے دریافت کیا کہ یہ نئی گاڑی کہاں سے آئی؟ اس نے جواب دیا کہ دوست نے تحفتاً دی ہے ۔نانی نے کہا کہ ایسا دوست کون ہے ؟ اس نے کہا کہ ہر کوئی آپ کے’’ مسٹر نواسے‘‘ جیسا تھوڑی ہے کہ جسے کوئی پسند ہی نہ کرتا ہو۔ دوسری بات یہ کہ ’’آپ تے شاتھ تیا مشلہ ہے، آپ تو تیاہے، میں جانوں اور میرا تام جانے ۔آتھر میں نے تیا تیا ہے؟‘‘اسی دوران ’’ہمسائی کے توتلے ‘‘ نے بھاڑ جھونکنا شروع کر دیا۔چوری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔جب ہم 25سال کے ہوگئے تو پتہ چلا کہ ہماری نانی کی بقچی سے قیمتی اشیاء چُرانے والے ہاتھ آج ’’قومی بقچے‘‘تک جا پہنچے ہیں۔’’ہمسائی کا توتلا‘‘آج ’’تانبے کی فیکٹری ‘‘کا مالک ہے۔ پچھلے دنوں ہم اپنے وطن میں تھے۔
شہر کراچی کے ایک ’’قیمتی ‘‘علاقے میں سڑک کے کنارے بچھائی گئی میز کرسی پر بیٹھے دہی بڑے کھا رہے تھے ۔ قریب ہی خاص نمبر پلیٹ والی ایک کارکھڑی تھی۔ایک شخص نے اس کا پچھلا دروازہ کھولااور 2افراد ایک اور شخص کوہتھکڑیوں میں ’’جکڑے‘‘ ہوئے وہاں نمودار ہوئے جو اسے گھسیٹ کر گاڑی کی جانب لے جا رہے تھے ۔ وہ ان گاڑی والوں سے سوال کر رہا تھاکہ’’یال ! مجھے یہ تو بتاؤ میں نے تیا تیا ہے، مجھے ہتھ تلیاں تیوں پہنائی ہیں، تہاں لے تل جا لئے ہو، میں نے تیا تیا ہے؟‘‘مجھے اپنی نانی کا وہ جملہ یاد آیا کہ ’’میں نے پوت کے پاؤں پالنے میں ہی دیکھ لئے ہیں۔ دیکھنا یہ’’ہمسائی کا توتلا‘‘ کیا گُل کھلائے گا۔‘‘

شیئر: