Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امر بالمعروف و نہی عن المنکر،اصلاحِ معاشرہ کی اساس

اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول کی تعلیمات آپ کے پاس محفوظ ہیں، ان کے ذریعے بندگانِ الٰہی پر حجت قائم کرنا آپ کا فرض ہے
***اللہ بخش فریدی۔ فیصل آباد***
صحیح اور سچا مسلمان بننے کیلئے ضروری ہے کہ دین حق کوصرف نظری اور اعتقادی حد تک ہی نہیں بلکہ اسے اپنے نظام حیات اور طرز زندگی کے طور پر اختیار کیا جائے۔ اسلام کاصرف زبانی اقرار جس کی تائید اعمال و افعال سے نہ ہو ، اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں۔ اللہ رب العزت نے تو پوری انسانیت کو اِن دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا ہے : ’’اللہ تعالیٰ اس بات کو ہرگز پسند نہیں فرمائے گا کہ کسی دوسرے کو کسی بھی حیثیت سے اس کا شریک ٹھہرایا جائے ، اس گناہ کے مرتکب کے سوا وہ جسے چاہے گا معاف فرما دے گا، اور جس نے کسی دوسرے کو کسی بھی حیثیت سے اس کا شریک ٹھہرایا تو وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔‘‘(النساء 116 )۔ اس سے اگلی آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں: ’’یہ شرک کرنے والے اللہ کے سوا نہیں پوجتے مگر کچھ عورتوں کو ،اور نہیں پوجتے مگر سرکش شیطان کو۔‘‘ (النساء 117 )۔
اس آیت مبارکہ میں شرک کرنے والوں کی خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ شرک کرنے والے اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ عورتوں اور سرکش شیطانوں کی پوجا کرتے ہیں ۔ ہم میں بھی ، ہمارے معاشرہ میں بھی یہی خصوصیت پائی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں عورت کی پوجا نہ کی جا رہی ہو۔ ہمارے ہاں کوئی گھر ، کوئی مکان ، کوئی دکان ایسی نہیں جہاں ایک فحاش عورت کی برہنہ تصویر نہ لگی ہواور اس کی چاٹ پوس نہ کی جا رہی ہو۔
ہمارا کوئی کاروبار ، ذریعہ معاش ایسا نہیں جس میں عورت کو روزی کا وسیلہ نہ بنایا گیا ہو، سیل گرل، ماڈل گرل۔ تقریبا ًہر کاروبار ، ہر کارخانہ ، ہر فیکٹری، ہر انڈسٹری اپنی مصنوعات کے ساتھ ایک فحاش عورت کی برہنہ تصویر شائع کرتی ہے تاکہ لوگ ان کے حسن و جمال کی طرف مائل ہو کر ہماری مصنوعات کو دیکھیں اور ان کے وسیلہ سے ہماری سیل میں اضافہ ہو، تو کیا یہ شرک نہیں ؟ اسی عورت کے نظریۂ شرک کو دوسری رو سے دیکھیں کہ ہم ہر نماز کی ہرہر رکعت میں اللہ عزوجل سے اقرار کرتے ہیں:الحمد للہ رب العٰلمین یعنی’’ تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘
گویا ہم نے اس بات کا اقرار کر لیا کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی شئے، کوئی ہستی ایسی نہیں جو کسی قسم کی تعریف کے لائق ہولیکن اس اقرار کے باوجود ہم عورت کی شان میںنظمیں ، گیت، غزلیں اور اشعار وغیرہ لکھ کر خوبصورت دھنوں ، سازوںمیں سجاکر بیان کرتے ہیں کہ اتنے خوبصورت انداز میں اللہ تعالیٰ کی شان میں لکھی گئی نظموں کو بیان نہیں کیا جاتا، جتنے خوبصورت انداز میں عورت کی تعریف، روپ، حسن و سنگھار کو بیان کیا جاتا ہے۔
پھر میڈیا پر ان کے نشر کیے جانے کے حوالے سے دیکھیں کہ دن میں کم از کم صرف ایک حمد( اللہ کی تعریف) نشر کی جاتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت نہیں کہ ایسا ہر روز ہوتا ہو۔ ہمارے اخبارات، رسائل، جرائدوغیرہ میں روزانہ کے کئی صفحات شوبز(فحاش عورتوں) کی نمائش کیلئے مخصوص ہوتے ہیں۔ہمارے قومی اخبارات میں علماء و محدثین اور ثناء خواں حضرات کیلئے جگہ ہی نہیں۔ اگر کبھی کوئی نیک دن ، نیک مہینہ آ جائے تو ہمیں یاد آتا ہے کہ ہمارا کوئی اللہ بھی ہے، ہمارا کوئی رسول() بھی ہے مگر عورت سال بھر یاد رہتی ہے،24 گھنٹے اس کی تعریف میں نظمیں ، غزلیں اور گیت وغیرہ نشر کیے جاتے ہیں۔ تو کیا یہ بھی شرک نہیں ؟ اس گنا ہ کا ارتکاب کرکے ہم بیک وقت 2 کبیرہ گناہوں کا بوجھ اپنے سر اٹھاتے ہیں: ایک تو شرک کا اور دوسرا ایفائے عہد کا ۔ یعنی وعدہ خلافی کا، کہ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرنے کے باوجود کہ ’’ سب تعریفیں تیرے لئے ہیں ، تیرے سو ا کوئی کسی قسم کی تعریف کے لائق نہیں‘‘عورت کی تعریف کرتے ہیں۔
اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کیلئے خواب غفلت سے بیدار ہو کر اپنے اعمال و کردار پر نظر ڈالو، اپنے نفع و نقصان کا حساب لگائو، جس جنس زندگی کوہم خالق کائنات سے امانتاً لے کر اس دنیا کے بازار میں کچھ کمانے کیلئے آئے تھے اس کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا؟اس کا کتنا حصہ نفع بخش کاموں میں لگایا اور کتنا نادانی سے بے کار گنوا دیا اور کس قدر دانستہ ونا دانستہ اس صاحب امانت کی منشاء بلکہ اس کے صریح احکام و ہدایات کیخلاف دوسرے کاموں میں خرچ کر ڈالا۔ ہاں ! ابھی وقت ہے۔ اگر صبح کا بھولا شام کو واپس آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے،ابھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم سوچیں ، اپنا محاسبہ کریں کہ ہماری جسمانی و دماغی قوتیں اور صلاحیتیں ،ہماری انفرادی و اجتماعی جدو جہد اور کاوش،ہمارے کاروبار اور تجارتیں ،ہماری محبتیں اور عداوتیں ، ہمارے زیر تربیت آئندہ آنے والی نسلیں ، ہمارے مال ودولت اور جائیدادیں ، مختصر یہ کہ روزمرہ زندگی کے وہ تمام ذرائع اور وسائل جو اللہ رب العزت نے ہمیں صرف اپنی اطاعت و بندگی اور فریضۂ نبوت و خلافت کی ادائیگی کیلئے عطا فرمائے تھے وہ اب تک کن کاموں اور کن مقاصد کیلئے استعمال کیے؟ کیا وہ تمام تر یا بیشتر نظام باطل کے قیام ، اللہ تعالیٰ سے بے نیا ز و سرکش اقتدار کے استحکام اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر فتنہ و فسادات پھیلانے کیلئے استعمال ہوتے رہے یا ان کا کچھ حصہ ربِ ذوالجلال اوراس کے دین کیلئے بھی صرف ہوا۔اگر ہمیں آخرت کی ذرا بھی فکر ہے تو ہمیں سنجیدگی سے اپنا حساب لگا کر دیکھناہو گا کہ ہماری جملہ مادی ، جسمانی ودماغی قوتیں ، قابلیتیں اللہ تعالیٰ سے بے نیازی و بغاوت پر مبنی نظامِ زندگی کو چلانے اور اسے مستحکم کرنے میںکتنا حصہ لے رہی ہیں ؟ اور کس قدر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اس کے متعین کروہ نظام ِحیات کے قیام کیلئے صرف ہو رہی ہیں ؟ ہمارے کاروبار، تجارتیں ، صنعتیں کہاں تک اللہ عزوجل کی مقرر کردہ حدود ( حلال و حرام ، جائز و ناجائز) کے مطابق چل رہی ہیں اور کہاں تک ان (حدود اللہ ) سے آزاد اور بے بہرہ ہیں؟ ہماری ساری دوڑ دھوپ ، کاوشیں قرب طاغوت کیلئے ہیں یا رضائے الٰہی کے حصول کیلئے ؟ کیا ہم آئندہ آنے والی نسلوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی پسندیدہ راہ پر چلنے اور اس کی خوشنودی کی خاطر جینے اور مرنے کیلئے تیار کررہے ہیں یا اپنی اس عزیز متاعِ قلیل کو مغضوب اور ضالین کے قدم بقدم چلنے کے قابل بنانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ؟ ہمارے مال ودولت اور دوسرے وسائلِ زندگی کا کتنا حصہ طاغوت کیلئے ہے، کتنا خود اپنے نفس کیلئے اور کتنا دین حق کی اقامت کی جدو جہد کو پروان چڑھانے کیلئے ہے؟اور پھر ہم اپنا حساب لگائیں اور دیکھیں کہ ہم نے کتنے بے گناہ، مظلوم مسلمانوں کا خون، جس کی حرمت،عزت و احترام اللہ عزوجل کے نزدیک بیت اللہ کی حرمت ، عزت و احترام سے زیادہ ہے، طاغوت ، شیطان کبیر، فرعون زمانہ، ظلم و فسادات کی جڑ امریکہ اور اس کے گماشتوں ، صہیونی و سامراجی قوتوں کی وفاداری میں بہایا اور اب بھی بے دریغ بہائے جا رہے ہیں اور کتنے کامل مومنین ، مجاہدین ، اللہ کے بندوں کو نام نہاد دہشتگردی کے الزام میں پکڑ کر شیطان کے بندوں کے حوالے کیا اور کر رہے ہیں ؟ « لوگوںمیں سے بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ عزوجل اورآخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں مگر ان کی عملی زندگی بتاتی ہے کہ( وہ جھوٹے ہیں اس دعوے میں ) وہ ہر گز مسلمان نہیں (البقرہ8)۔
« یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی مگر یہ سودا ان کے کچھ کام نہیں آئے گا (البقرہ16)۔ اے لوگو! ذرا ٹھنڈے دل سے ، آخرت کے نقطہ نظر سے سوچ کر بتائو کہ مغضوب اورضالین لوگوں کی راہ پر چلتے ہوئے ہمیں وہ عزت ، سربلندی اوروقار کیسے حاصل ہوگا جس کا اللہ رب العزت نے ایک سچی مومن ومسلم امت سے وعدہ فرمایا ہے ؟ اے لوگو! اللہ کیلئے اپنی ذمہ داری کا احساس کیجئے۔ لوگوں کی جو امانت اللہ عزوجل کے پیارے رسول نے تمہارے سپرد کی تھی اسے لوگوں تک پہنچائو اور اس میں خیانت نہ کرواَپنی ذات تک محدود رکھ کر۔ فریضۂ نبوت و خلافت کی ادائیگی اب قیامت تک آپ ( امتیوں ) ہی کی ذمہ داری ہے، اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے پیارے رسول کی تعلیمات آپ کے پاس محفوظ ہیںاور ان کے ذریعے بندگانِ الٰہی پر حجت قائم کرنا آپ کا فرض ہے اور قیامت کے دن آپ سے (ایک ایک مسلمان سے) یہ پوچھا جائے گا کہ : ہم نے لوگوں کی جو امانت (دین حق ، حقیقی اسلامی فلاحی نظام ِحیات ) تمہیں دی تھی کیاتم نے اسے لوگوں تک پہنچا یا، یا اس میں خیانت کر کے اپنی ذات تک محدود رکھا۔ ’’ ہم نے اسی طرح تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجائو اور رسول () تم پر گواہ ہوجائیں۔‘‘(البقرۃ 143)۔ قرآن مجید میں ایک اور جگہ بھی نہایت وضاحت سے اس ذمہ داری کا احساس دلایا گیا ہے : ’’ اور اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں پسند فرمایا اور تم پر دین میں کوئی تنگی نہ رکھی، دین اپنے باپ ابراہیم(علیہ السلام) کا قائم رکھو، اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا اگلی کتابوں اور اس کتاب (قرآن عظیم ) میں ، تاکہ ہمارے رسول تم پر گواہی دیں اور تم دوسرے لوگوں پر گواہی دو(کہ جس محنت اور دیانتداری سے رسول اللہ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچایا وہ تم نے اسی محنت اور دیانتداری سے اپنے دور کے دوسرے لوگوں تک پہنچایا)۔‘‘ (الحج78 )۔
اب یہ بات اچھی طرح لوگوں کی سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ اللہ کے دین کو صرف اپنی ذات کی حد تک مان لینا کافی نہیں بلکہ جو لوگ اس کے حق اور انسانیت کیلئے واحد سیدھا راستہ ( ضابطۂ حیات ہونے کو تسلیم کر لیں تو یہ بات بھی ان کے فرائض میں شامل ہو جاتی ہے کہ وہ اسے اپنے علاوہ اپنے گردو پیش کی دنیا میں بھی ، نافذ کرنے کی انتہائی سعی و حرکت اور جدو جہد کریں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اس راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں سے جہاد کریں۔ اللہ تعالیٰ کے دین کے سلسلہ میں جتنی ذمہ داری رسول اللہ پر تھی اتنی ہی ذمہ داری اب قیامت تک کیلئے ہم پر (حضور نبی کریم کی امت پر ) ہے ۔ جس طرح قیامت کے روز عدالت ِ عظمیٰ میں رسول اللہ کو اس بات کا ثبوت پیش کرنا ہو گا کہ آپ نے نہ صرف قولاً دین حق کی تعلیمات کو پوری طرح امت تک پہنچایا بلکہ اس پر پوری طرح عمل کرکے بھی لوگوں کو دکھایاکہ اسلام کے یہ عقائد ہیں ، یہ اس کی تہذیب ، تمدن، اخلاق اور اطوار ہیں ۔ اس کی معاشرت ، معیشت ، سیاست اور عدالت کے یہ طریقے ہیں ، اس کے بین الاقوامی روابط و تعلقات کی یہ صورتیں ہیں ، اس میں دوستی اور دشمنی کے حدود اور طریقے یہ ہیں ، اس کا نظامِ مملکت یہ ہے۔ اسی طرح امت کو بھی اللہ تعالیٰ کے حضور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انہوں نے نہ صرف ان تعلیمات ، احکام و ہدایات پر پوری طرح عمل کیا بلکہ اپنے اپنے زمانہ میں اپنی ہم عصر دنیا کے سامنے بھی اسے پوری طرح پیش کیا۔ یاد رکھو ! اس کے بغیر چھٹکارہ ہرگز ممکن نہیں ہو سکے گا۔

شیئر: