Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’زندگی بھر خواب‘‘

اسکول وہ مقام تھا جہاں پہلے ہی روز ہمیں خواب دکھا دیا گیاکہ آپ جب بڑے ہوں گے تو وطن کی باگ ڈور سنبھالیں گے
* * * شہزاد اعظم* * *
جب بھی کوئی بات عام ڈگر سے ہٹ کر ہوتی ہے تو ایک تاریخ رقم ہو جاتی ہے، ذہن کے پردوں پر نقش ہو جاتی ہے ،یادگار بن جاتی ہے۔ ایسی’’ ایک بات ، کل رات، ہمارے سات‘‘ ہوئی وہ کیا تھی، آپ بھی غور فرمائیے:
* ہم ارضِ پاکستان کے عام جھام شہری ہیں۔ ہم وہ خوش قسمت ہیں جس نے پاکستان کے ایک خطے میں آنکھ کھولی۔ہوا یوں کہ جب ہم دنیا میں آنے کے بعد گھٹی شُٹی چاٹ چٹا کر فارغ ہوئے توہمارے چھوٹے چھوٹے صدا ناآشنا کانوں سے ایک نامحرم کی مترنم آواز متصادم ہوئی جس نے ہماری سماعتوں کو مسرت و حیرت سے سرشار کر دیا۔ اس آواز کو ہمارے ذہن نے مبنی بر حقیقت ملی نغمے کے طور پر یوں سماعتوںکے حوالے کیاکہ:
 یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم، ترا احسان ہے احسان
 اسی منظوم داستانِ حمیت کا ایک شعر یوں بھی ہے کہ:
 دیکھا تھا جو اقبال نے اک خواب سہانا
اس خواب کو اک روز حقیقت ہے بنانا
ہم نے یہ نغمۂ اعتراف مہد ِمادر میں دورانِ استراحت سناتھا ۔ اسی وقت ہم نے عزم مصمم کر لیا تھا کہ والدہ ماجدہ کی گود سے باہر قدم رکھتے ہی قائد اعظم کا شکریہ ادا کرنے کے لئے وطن عزیز کی خدمت کریں گے، اس سے محبت کریں گے اور اس کے لئے دل و جان نچھاور کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ اسی شوق میں ہم نے والدین سے ضد کی اور ’’اعظم‘‘ کو اپنے نام کا حصہ بنوایا۔ہم نے ابتدائی چند برس والدہ کے زیر سایہ تربیت حاصل کی، اس کے بعدمس شکیلہ جیسی استانیوں کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لئے اسکول پہنچ گئے۔ اسکول وہ مقام تھا جہاں پہلے ہی روز ہمیں خواب دکھا دیا گیا۔ہمیں بتایا گیا کہ آپ جب بڑے ہوں گے تو وطن کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔
آپ پڑھ لکھ لیں گے تو کسی قابل ہوجائیں گے۔ جب کسی قابل ہوں گے تو نوکری بھی اچھی ملے گی، تنخواہ بھی اتنی ہو گی کہ کسی کو بتاتے ہوئے فخر ہوگا، شرمندگی نہیں۔پھر آپ کوئی بنگلہ شنگلہ لینے کے قابل ہوجائیں گے ۔ کچھ عرصہ گزرے گا تو گاڑی بھی لے لیں گے۔اب آپ معاشرے میں گاڑی بنگلے والے کھاتے پیتے اعلیٰ عہدے پر فائز کنوارے مرد کی حیثیت سے جانے جائیں گے۔ ان صفات، خصوصیات و کیفیات کا حامل کوئی بھی مرد کسی مونث اور خاص طور پر غیر شادی شدہ صنف نازک کو ایک آنکھ نہیں بھاتاچنانچہ وہ آپ کی تنہائی کی اس حد تک دشمن ہو جائے گی کہ آپ کے مکان کو گھر بنا کر ہی دم لے گی۔اس کے لئے خواہ اسے ’’نتھا سنگھ‘‘ کا کردار اپنانا پڑے یا ’’پریم سنگھ‘‘ کا، وہ اپنا ہدف حاصل کر کے ہی رہے گی۔
* یوں ہم نے مس شکیلہ کی باتیں سن کر اسکولی زندگی کے روز اول سے ہی خواب دیکھنا شروع کر دیئے تھے۔ہم روزانہ ہی خواب دیکھتے تھے جیسے ہم نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی ہے ۔ہم پڑھ لکھ کر کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو چکے ہیں۔ ہم بنگلے کے رہائشی ہیں اور گاڑی کے سوار ہیں اور سرو قامت پیکرِ حُسن و جمال ہماری راہوں میںمحوِ انتظار ہیں۔ان میں سے ہر کوئی ہمارے اوپر فریفتہ ہے مگر ہم ہیں کہ ان سے بالکل ہی بیزار ہیں۔یوں ہم روز خواب دیکھتے رہے اور روز ہی ہماری آنکھ کھلتی رہی۔ایک روز وہ بھی آیاکہ ہمارے اسکول کی استانیوں نے ہمیں باورکرا دیا کہ ہم نے آپ کو جتنی تعلیم دینے تھی، دے دی۔ اس سے زیادہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔ اگر آپ نے مزید تعلیم حاصل کرنی ہے تو کالج کا رُخ کریں۔یہ کہہ کر مس شکیلہ و دیگر نے ہمیں الوداعی دعوت دی اور ہم ڈبڈبائی آنکھوں نیز بوجھل قدموں کے ساتھ اسکول کو خیر باد کہہ کر کالج جا پہنچے۔کالج میںبھی وہی ہوا ، مس راحیلہ ، مس انیلہ، مس خلیلہ نے بھی ہمیں خواب دکھانے شروع کر دیئے۔
* ہم کالجی تدریس کے مراحل طے کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک روز جب ہم ربڑ کی چپل پہنے کالج سے گھر کی جانب گامزن تھے ، ایک چوک میں لوگوں کا جم غفیر دکھائی دیا۔ وہاں ایک شخص انتخابات ، جمہوریت اورآزادیٔ اظہار کے خواب دکھا رہا تھااور لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ مجھے ووٹ دینا،میں بدلے میں تمہیںروٹی دوں گا، ہمارے دل نے کہا ’’واہ! کیابات ہے، آدمی کھانے پینے کے لئے ہی تو کماتاہے۔ ایک فکر تو دور ہوئی۔ اس نے کہا کہ میں کپڑے بھی دوں گا۔ یہ سن کر ہمیں پھر خیال آیا کہ ’’واہ ! کمال ہوگیا۔کپڑے پہن کر روٹی کھائیں گے۔یہ تو موج ہوگئی۔ اب ا س نے کہا کہ میں آپ سب کو مکان بھی دوں گا۔ یہ سن کر تو ہم سے رہا نہیں گیا۔ ہم نے سوچا کہ یہ کتناعظیم شخص ہے جو ہمیں مکان دے کر کپڑے بھی پہنائے گا اور پھر روٹی لا کر دے گا۔بس پھر ہمارا صرف بیوی کی تلاش کاکام رہ جائے گا، وہ ہم خود کر لیں گے، اب ساری ذمہ داریاں اس بے چارے کے کاندھوں پر کیوں ڈالیں۔
یہ سوچ کر ہم نے سوال کیا کہ ’’سر جی! ان احسانات کے بدلے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ انہوں نے جواب دیا ، کچھ نہیں، بس مجھے ووٹ دینا ہوگا۔ ہم اپنے خواب کو حقیقت بنانے کے لئے بے چین ہو گئے اور وہاں موجود اہلکاران، ذمہ داران اور بندوق برداران کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگے تو ہمیں ’’انسان نما‘‘کئی لوگوں نے نہایت بھونڈے انداز میں روک کر کہا کہ ’’ابے اوئے ، کہاں جا رہا ہے؟‘‘ ہم نے کہا کہ ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں تاکہ ان مقرر صاحب سے کہہ سکیں کہ ہم نے ووٹ دے کر اپنا فرض پورا کر دیا، اب روٹی، کپڑا اور مکان دے کر آپ اپنی ذمہ داری پوری کریں۔پھر یوں ہوا کہ انہیں انتخابات میں فتح ہوئی، اُن کے دلدر دور ہوئے اور ہمارے خواب چکنا چور ہوئے۔
پھر یوں ہوا کہ ہم نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھا تاکہ اعلیٰ عہدے پر فائز ہو سکیں مگر وہ خواب بھی ادھورا ہی رہا اور ہم پڑھ لکھ کر ادنیٰ درجے کی خدمات انجام دینے پر مجبور ہوگئے تاکہ چھت کے نیچے کپڑے پہن کر بیٹھ کر روٹی کھانے کے قابل ہو سکیں۔ وہاں ہمارے باس نے ہمیںخواب دکھائے کہ محنت کرو گے تو آگے بڑھو گے، تنخواہ بڑھے گی تو شادی کرو گے۔ پھر یوں ہوا کہ ہم نے تنخواہ میں اضافے کے خواب دیکھے ، جب جب باس سے مطالبہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ فی الحال تو ممکن نہیں،ہر ماہ تنخواہ مل رہی ہے ، کیا یہ کافی نہیں؟ ان حالات میں ہوا یوں کہ جو صنف مخالف ملی ، اس نے ہماری ہر بات کی مخالفت ہی کی چنانچہ ہم نے یہ ذمہ داری بھی اپنے والدین اور خاندان کی خواتین پر چھوڑ دی۔ یوں وقت گزرتا رہا اور ہم آج ایسے ’’خواب زدگان‘‘میں شامل ہو چکے ہیں جنہیں ’’زندگی بھر خواب‘‘ دیکھنے کا ’’مکرب اعزاز‘‘ حاصل ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ قیام پاکستان کو 70سال بیت گئے مگر خواب دکھانیوالے آج بھی اسی ڈھٹائی سے خواب دکھا رہے ہیں۔

شیئر: