Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نِسیان

نِسیان تاریخی ستم ظریفی ہے کہ آ ج لندن ، پیرس اور نیو یارک میں اتحادی قوتوں کے لئے جان دینے والے مسلمان فوجیوں کا ذکر تک نہیں ہوتا
**جاوید اقبال**
انتہائی دلآویز تصویر ہے ماضی کے سرمئی غبار سے اپنے نقش و نگار واضح کرتی ۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران کسی محاذ پر نصب خیمے کے پہلو میں تقریباً 50سپاہیوں کی ایک صف ادائیگی نماز کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ہے۔ تصویر کے نیچے کی عبارت واضح کرتی ہے کہ برطانوی ہندی فوج کے یہ مسلمان سپاہی ہٹلر کے خلاف صف آراء ہیں۔ شلوارقمیض میں ملبوس سروں پر بھاری پگڑیاں رکھے دست بہ دعا یہ اہل ایمان برطانوی فوج کا حصہ ہیں۔ 1915ء کی کسی شام کا منظر ہے۔ جرمنی، اٹلی اور جاپان کرہ ارض کو تاخت و تاراج کرنے پر تلے ہیں اور برطانیہ سمیت اتحادی طاقتوں نے اپنا آپ بچانے کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا رکھا ہے۔ اسی محاذ پر یا کسی دوسرے محاذ پر نصب خیموں میں سے کسی ایک کے غروب آفتاب کے سائے میں خداداد خان نے بھی نماز ادا کی ہوگی۔ خداداد خان جو تاج برطانیہ کی دہشت اور احترام قائم رکھنے کے لئے اتنی بے جگری سے لڑا کہ برصغیر میں وکٹوریا کراس حاصل کرنے والا پہلا ہندوستانی فوجی ٹھہر گیا۔ محاذ پر جرمن فوج کے بڑھتے قدم اس نے روک دیئے۔
اس کے باقی ساتھی ایک ایک کر کے موت کو گلے لگا گئے۔ خداداد خان اکیلا 3دن تک مورچے پر کھڑا رہا۔ تب ایک جرمن توپ کا گولا اس کے قریب ہی اس کے ساتھیوں کی لاشوں کے درمیان پھٹا اور خداداد خان کا بدن بھی ڈھے گیا۔ محاذ پر سکوت چھا گیا۔ جرمن فوج کی پیشقدمی رک گئی۔ برطانوی کیمپ میں خبر پہنچی۔ خداداد خان کی ثابت قدمی اور حوصلے کی اطلاعات ملیں تو خبر پر لگا کر محاذ جنگ پر زبان زد عام ہوئی۔ افسروں کی خصوصی میٹنگ میں مرحوم خداداد خان کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور اسے ایک مثالی جنگجو قرار دیا گیا۔ 4دن لاشوں کے نیچے دبے رہنے والے خداداد خان کے ساکن بدن میں حرکت بیدار ہوئی۔ وہ بسعی بسیار خون اور بے جان بدنوں میں سے رستہ بناتا نکلا او ررینگتا تقریباً 2میل دور اپنے کیمپ میں جا گرا۔ زندہ باد کے نعرے لگ گئے مجروح بدن کو ایمبولینس میں ڈال دیا گیا۔
وکٹوریا کراس!! پہلی جنگ عظیم میں کسی بھی ہندوستانی فوجی کو ملنے والا یہ پہلا اعزاز تھا۔ دھوم مچ گئی۔ خداداد خان روبصحت تو ہوا لیکن زخموں کی ہلاکت خیزی نے اس کے بدن سے اپنا خراج وصول کر لیاتھا۔ اسے نوجوانی میں ہی مستقلاً گھر بھیج دیا گیا اور پھر اس کانام تاریخ کے نسیان میں کہیں کھو گیا۔ تاج برطانیہ کی درخشندگی کو دوام عطا کرنے والا خداداد خان جب 1971ء میں اپنے آبائی قصبے منڈی بہاؤالدین میں اللہ کو پیارا ہوا تو ایک بے کس فراموش شدہ داستان تھا۔ اس کے بعد 7دوسرے ہندوستانی فوجیوں کو بھی وکٹوریا کراس دیئے گئے۔ کچھ کو دوسری جنگ عظیم میں اس اعزاز کا حقدار سمجھا گیا لیکن المیہ یہ ہے کہ جب اس برس 17یورپی ممالک کے سربراہ دوسری عالمی جنگ کے ڈی ڈے کی یاد میں اکٹھے ہوئے تو ان میں سے کسی نے بھی برصغیر کے ان مسلمان فوجیوں کا تذکرہ نہ کیا جنہوں نے دونوں جنگوں میں اپنی جانوں کے نذرانے دے کر مملکت عظمیٰ برطانیہ اور ا س کے اتحادیوں کی جرمنی پر فتح میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ تاریخ بھی کتنی ستمگر ہے۔ ہر فاتح کے گھر کی باندی ہوجاتی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پہلی جنگ عظیم میں 13لاکھ ہندوستانی فوجی برطانیہ کی طرف سے لڑے جن میں 4لاکھ ہندوستانی مسلمان تھے۔ 62ہزار کے قریب نے اپنی جانیں دیں۔ ہندوستان کے یہ جنگجو مملکت عظمیٰ برطانیہ کے دفاع میں کرہ ارض کے تقریباً ہر گوشے میں اپنی جانیں قربان کرتے رہے۔ گیلی پولی کے معرکے میں ایک ہزار سے زیادہ جان سے گئے۔ عراق میں تقریباً 7لاکھ کی نفری تھی جس میں ایک بڑی تعداد ہندوستانی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے والے ہندوستانی فوجیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گیا۔جب دسمبر 1941ء میں جنوب مشرقی ایشیا پر جاپانیوں نے حملہ کیا تو برطانوی ہندی فوج کے اعلان پر برصغیر میں دھڑا دھڑ بھرتی شروع ہوئی۔ 25لاکھ تک تعداد پہنچ گئی۔ یہ ہندوستانی جنگجو افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میںلڑتے رہے۔
ہزاروں کی جانیں گئیں۔ ہزاروں زخمی ہوئے اور کئی ہزار وں قیدی بنا لئے گئے۔ مصر میں جنرل ویول اور بعد میں جنرل آکنک کی زیر کمان 20ہزار ہندوستانی فوجیوں نے داد شجاعت دکھائی۔ دسمبر 1941ء میں جاپان نے ملایا پر حملہ کر دیا وہاں ہندوستانی فوجی دستے بھیجے گئے۔15فروری 1942ء کو جب جاپانیوں نے سنگا پور فتح کیا تو 90ہزار اتحادی فوجی ان کے قیدی بنے۔ ان میں 60ہزار ہندوستانی تھے لیکن تاریخی ستم ظریفی ہے کہ آ ج لندن ، پیرس اور نیو یارک میں جب دونوں جنگوں کا ذکر ہوتا ہے تو اتحادی قوتوں کے لئے جان دینے والے مسلمان فوجیوں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ فتح کا سہرا صرف برطانوی فوج کے سرباندھا جاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران برما کے جنگلوں میں جاپانیوں کی تباہ کن قوت کا مقابلہ کرنے والے برصغیر کے مسلمان فوجیوں کو تاریخ کے نسیان میں جھونک دیا گیا ہے۔
برما! ہاں برما! 652ء میں پہلے مسلمان عرب تاج وہاں کی تھاٹون او رمرتابان بندرگاہوں پر اترے۔ وہ مڈغاسکر سے چین جا رہے تھے۔ 1055ء میں پہلے بدھ بادشاہ اناواراہتا کی مملکت کے قیام سے 4صدیاں پہلے مسلمان وہاں پہنچ چکے تھے۔ ان لوگوں نے مقامی آبادی میں شادیاں کیں اور پھر ہر بادشاہ کی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ مسلمان وہاں شاہی مشیر، اطباء، بحری افسران اور درباری امور کے ماہرین کے طور پر برما کی پیشرفت میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ ہر دور میں شاہی دربار میں محافظوں کے فرائض سنبھالتے رہے۔ آزاد خیال برمی بادشاہوں نے مسلمانوں کو ہر طرح کی آسائشیں مہیا کیں ۔1868ء میں بدھ حاکم منڈون نے دارالخلافہ مانڈالے میں ایک مسجد کی تعمیر کرائی۔ 1430ء تا1531ء اراکان پر مسلمان حاکم رہے۔ شہزادہ شاہ شجاع نے اپنے بھائی سلطان اورنگزیب عالمگیر کے غضب سے پناہ لے کر اراکان کا رخ ہی کیا تھا۔ برما میں مسلمانوں کی آبادی میں دوسری عالمی جنگ کے دوران اضافہ ہوا۔
جب برطانوی ہند سے مسلمان ہجرت کر کے وہاں پہنچے۔ ہزاروں قیدیوں کو بھی وہاں بسایا گیا او ریہ نقل مکانی مملکت عظمیٰ برطانیہ کی جنبش کے بعد ہی ہوئی تھی۔ آج اراکان سے بے گھر کئے جانے والے روہنگیا کے آبائو اجداد برطانیہ کی غلامی ہی کرتے رہے تھے لیکن تاریخ کی خود فراموشی میں ہزاروں تاریک کھوہیں حقائق کو بے وجود کئے بیٹھی ہیں۔ روہنگیا کے آباؤاجداد کا برطانوی دستاویزات میں وجود ہی نہیں ہو گا۔ آنگ سان سوچی کا ہاتھ کون روکے گا؟ کالم لکھ چکا تو خبر آئی کہ لاہور ہائیکورٹ نے جسٹس باقر نجفی کی سانحہ ماڈل ٹاؤن پر رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا حکم دے دیا ہے۔ کیا آپ بھی کسی زندان کو جناح پارک میں تبدیل ہوتا دیکھ رہے ہیں؟

شیئر: