Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہاں کو ئی”اہم ہستی “نہیں رہتی ہوگی

 گا ڑ یو ں کے ہارن ،دیواروں پر پو سٹر ،رنگ برنگی تحریر یں بھی آ لودگی کا باعث ہیں 
تسنیم امجد ۔ریا ض
آج صبح آ پا سے بات کرنے کے لئے فو ن ملا یا تو ان سے بات نہیں ہو پا رہی تھی ۔کھا نسی سے برا حال تھا ۔کہنے لگیں کہ بچو ںکا بھی یہی حال ہے۔ کا لو نی کے نکڑ پراتنی گندگی پڑی تھی کہ اب سڑک بھی بند ہو نے کو تھی ۔میئر کو درخوا ستیں دے دے کر کا لو نی وا لے تھک گئے پھر ٹیم کی صورت میں خود ملے تو اتنی بات بنی کہ آج صفائی کے بعض ذمہ داران اس گندگی کو آ گ لگا گئے۔اس کا دھوا ں پورے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔یو ں لگتا ہے کہ کمرو ں کے اندر بھی آ رہا ہے ۔پلا سٹک جلنے کی بو سے تو ابکا ئیا ں آ رہی ہیں ۔کو ڑے کے اس ڈھیر میں پلا سٹک کی اشیاءاور تھیلیاں ہی زیادہ ہو ں گی۔
ان لو گو ں کو کیا معلوم نہیں کہ یہ دھوا ں کس قدر زہر یلا ہے۔اس سے فضا آ لو دہ ہو رہی ہے ۔آ پا بغیر رکے بو لے جا رہیں تھیں۔ کہنے لگیں کہ تمہارے بھائی بھی منہ پر ماسک چڑ ھا کر گئے ہیں۔مئیر کہہ رہے تھے کہ اس منو ں کے حساب سے گندگی ا ٹھانے کے لئے بہت بھاری بجٹ تھاجو منظور ہونا نا ممکن ہو رہا تھا ۔اس کا صرف یہی حل تھا کہ یہ ڈھیر جل کر راکھ بن کر بیٹھ جا ئے لیکن اس میں سے دھوا ں اور بدبو کا فی دن تک نکلتی رہے گی ۔وسا ئل محدود ہیں اور آ بادی میں تیز ی سے ا ضا فہ ہو رہا ہے ۔عوام بھی پو را تکیہ حکومت پر ہی کرتے ہیں ۔ما حول کو صاف رکھنے کی کچھ نہ کچھ ذ مہ داری آ خر ان کی بھی ہے لیکن ان کے گھر صاف رہیں ،بس یہی کافی ہے ۔
کاش ہم مسلمان ہوتے ہو ئے یہ ا حساس کریں کہ ہمارا دین ایک آ ئینِ زندگی ہے جو ہمارے ہر شعبے پر محیط ہے ۔خواہ وہ سیاسی ہو یا معا شرتی۔یہ خو بصورت دین ہے اور مو من کی زندگی کا ہر پہلو خو بصو رت دیکھنا چا ہتا ہے ۔آ لودہ ما حول میں پرورش پانے وا لو ں کے ذہنو ں پر بھی آ لودگی کی تہہ چڑ ھ جا تی ہے ۔قر آن میں بار ہا نعمتو ں پر غور و تد بر کا حکم آ یا ہے۔سو رة الر حمن میں بار بار آیا ہے کہ تم میری کون کون سی نعمتوں کو جھٹلا ﺅ گے ۔
تر قی یا فتہ ممالک ما حول کو صاف رکھنے کے لئے عوام کو ہی ٹا ر گٹ کی صورت میں ذمہ داریا ں سو نپ دیتے ہیں ۔تنظیمیں بنا ئی جا تی ہیں۔بد قسمتی سے ہمارے ہا ں سیا سی تنظیمو ں کی بھر مار ہے جنہیں ہم نے رو ح کی غذا سمجھ رکھا ہے ۔ہمارے کرتا دھرتا ﺅ ں کو شہر کی تنگ و تاریک گلیا ں نظر نہیں آ تیں جن میں نا لیا ں گٹر کے گندے پانی سے ابلتی رہتی ہیں۔تعفن اتنا ہوتا ہے کہ انسان وہاں کھڑا ہی نہیں ہو سکتا۔ بچے ننگے پا ﺅ ں ان میں چلتے گھروں میں گھس جا تے ہیں لیکن وہا ںپو لیوکے قطر ے پلانے وا لی ٹیمیں پہنچ کر تصویر یں بنوا رہی ہو تی ہیں تاکہ میڈ یا میں چھپ جا ئیں۔
پا نی ایک ایسا محلل ہے جس میں کثا فتیں بآ سانی حل ہو جاتی ہیں۔اگر گندے پانی کو قریبی جو ہڑوں،ندی نالو ں یا دریاﺅ ں میں بہا دیا جائے تو آ بی جا نورو ں کی زند گیو ں کو بھی خطرہ لاحق ہوجا تے ہیں ۔اس سے آبپا شی بھی خطر ناک ہے ۔سبز یا ں یا پھل آ لودہ ہو جاتے ہیں جو مضرِ صحت ہیں ۔حا لیہ رپو رٹ کے مطا بق اسی گندگی کی وجہ سے کا لے یر قان کا مر ض عام ہو رہا ہے جس کا تعلق جگر سے ہے ۔پا کستانی عوام اپنی قا بلیت کا لو ہا منوا چکے ہیںلیکن ان کے لئے یہ کہنا بجا ہو گا کہ :
ڈھو نڈ نے والا ستا رو ں کی گز ر گا ہوں کا 
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آ ج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سو رج کی شعا ﺅ ں کو گر فتار کیا
زندگی کی شبِ تا ریک سحر کر نہ سکا 
یہ حقیقت ہے کہ فکری و حدت ہی کسی قوم کی تر قی کی ضا من ہے۔یہ ختم ہو جائے تو قوم خز ا ں رسیدہ پتو ں کی طر ح اڑ تی ،گرتی اور بکھر تی نظر آئے گی۔ہمارے پاس اتحاد کا اتنا کا مل ذریعہ ہے جو کسی قوم کے پاس نہیںلیکن افسوس کہ ہم اس سے مستفید نہیں ہو پا رہے ۔یو ں کہئے کہ ہم نے کو شش ہی نہیں کی۔اسے خو بصورت غلاف میں لپیٹ کر اس کا حق ادا کر دیا ہے ۔ہم نے آزادی کو صرف زمین کے ٹکڑے کا حصول جانا،اس کی قدر نہیں کی ۔ہم وطنو ں کی ہمارے سامنے کو ئی قدر ہی نہیں ۔ادب آداب اپنے اپنے گھروں تک سمٹ گئے ہیں ۔باہر کیا ہو رہا ہے یہ جا ننے کی بھلا کیا ضرورت ہے ۔افسرانِ بالا کبھی جھا ڑو تھا مے اور کبھی پو دے لگاتے میڈیا کی زینت بنتے ہیں تاکہ خود کو قوم کا خادم ثابت کیا جا سکے ۔ان سے در خوا ست ہے کہ ذرا ان علا قوں کی بھی خبر لیں جو جا نوروں کے باڑوں سے بھی بد تر ہیں ۔میو نسپل کمیٹی کی لا پروائی ہمیں انگریز قوم سے ورثے میں ملی ہے ۔مک مکا جسے بھتہ کہا جائے تو بجا ہو گا ،اس نے سا را معا ملہ ڈبو یا ہے ۔کا م پر آنے والے وقفوں سے ڈیو ٹی پر آئیں تو بھلا کون پو چھے گا ؟با رشو ں کے بعد مہینو ںکھڑا رہنے والاپانی مچھروں کی آما جگا ہ بن جاتا ہے ۔ایسے میںبیماریوں اور نقلی دوا ﺅ ں نے گھر گھر ڈیرے ڈال دیئے تو کیا ہوا ۔انسانی جان کی اگر کوئی قدر و قیمت ہو تب ہی تو کسی کو دکھ بھی ہو ۔
افسوس کی بات ہے کہ جہاں بھی خالی پلا ٹ نظر آ تا ہے وہا ں لو ڈرکسی بھی علاقے سے اٹھایا ہوا کچرا ڈال جاتے ہیں ۔بارشو ں کے مو سم میں شہر کی کو ئی جگہ بھی گندگی سے محفوظ نہیں رہتی ۔بلدیاتی ادارو ں کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے ہی یہ سب مسائل ہیں ۔ایک طرف تو سننے میں آتا ہے کہ لا ہور شہر نے بہت تر قی کر لی ہے اور دوسری جا نب دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر ہے۔شا ید اس علاقے میںکو ئی اہم ہستی نہیں رہتی ہوگی کیو نکہ اچھا اور صاف ستھرا، خوش گوار ما حول تو اسی کا حق ہے ۔
اصو لی طور پر جمہو ریت عوام دوست ہو تی ہے لیکن افسوس ہمارے ہا ں اشرافیہ ہی عوام ہےں ۔ان کی زند گی کو سہو لتیں میسر آ جا ئیں ،یہی کا فی ہے ۔غریب عوام کو رو ٹی کپڑا اور مکان میں اسطرح الجھا دیا گیا ہے کہ انہیں ما حول کی فکر ہی نہیں ۔نسلِ نو کو ٹیکنا لو جی کا حسن ہی بھانے لگا ہے ۔انہیں رات بھر جاگ کر دن میں گھر سے باہر جھا نکنے کی فر صت ہی نہیںملتی ۔
ایک ما ں کا کہنا تھا کہ اس کا اکلوتا بیٹا رات بھرانٹرنیٹ پر بیٹھا رہتا ہے،اسے کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں۔کل کمرے سے نکلا تو مجھ سے چائے ما نگی۔میںنے بتا یا کہ دودھ ختم ہو گیا ہے لا دو ۔وہ گیا اور تھو ڑی دیر میں خالی ہاتھ لو ٹا۔کیچڑ میں لت پت تھا ۔بو لا دروا زے کے آگے اتنا پا نی کھڑا ہے۔ آپ نے اسے نکلوا یا کیو ں نہیں ۔اس پر میں حیرا نی سے اس کا منہ تکنے لگی۔اسے ذرا بھی خیال نہیں آیا کہ میں ماں سے کیا کہہ رہا ہو ں۔بڑ بڑاتا ہوا پھر کمرے میں جا گھسا ۔بہن نے بتا یا کہ انٹر نیٹ نہیں آ رہا اس لئے موڈ آف ہو رہا ہے ۔
آ ج اکثر گھرو ں میں یہی حا لات ہیں ۔اپنی ذمہ دار یو ں سے فرار کا وتیرہ اپنا کرنئی نسل کے نمائندوں نے ما حول مکدر کر رکھا ہے۔ جدید تحقیق نے ثا بت کیا ہے کہ سڑ کو ں پر گا ڑ یو ں کے ہارن کا شور بھی آ لودگی کا حصہ ہے ۔دیواروں پر لگے پو سٹر ،عبارتیں،رنگ برنگی تحریر یں بھی آ لودگی کا باعث ہیں جنہیں وژنری پالوشن کا نام دیاجاتا ہے ۔ یہ آلودگی ہماری نگا ہو ں کو مضطرب کرتی ہے ۔اب آپ اندا زہ لگا ئیے کہ آج کا انسان کن کن حالات سے دو چار ہے ۔ان حالات میں شکایت کس سے کریں ؟ ما ضی میں پلٹیں توسمجھ میں آتا ہے کہ بچو ں کی اچھی صحت کے لئے گا ﺅ ں کی کھلی فضا میں بھیجنے کا رواج کیو ں تھا ۔وہ دور گو کہ آ ج کی طرح جدید یت سے آ را ستہ نہ تھا لیکن شعور ،انسانی زندگی کی قدر اور یکجہتی اپنی مثال آپ تھی ۔کاش ہم اپنے اشر ف ا لمخلو قات ہو نے کا بھرم قائم رکھتے ہو ئے ہر شے کا معیار اپنے مطا بق رکھیں ۔ما حول کو مل جل کر صاف رکھنے کی تدا بیر اپنے ہی ہاتھ میں ہیں ۔ما حولیاتی شعور کی اشد ضرورت ہے ۔کھڑا پانی یا کیچڑ آ لودگی کی سب سے بڑی قسم ہے ۔ہر طرح کے جرا ثیم بے دریغ انداز میں اس میںشامل ہو کر نمو پاتے ہیں۔          
 
 
 
 
 
 

شیئر: