Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فاٹا اور انتخابی اصلاحات، حکومت کے دو اہم فیصلے

مصنوعی طور پر لیڈر شپ پیدا نہیں کی جاسکتی ، دیگر سیاستدانوں کو نو ا ز شریف یا بے نظیر بھٹو جیسا مقا م کیو ں حاصل نہ ہو ا
* * *سید شکیل احمد* * *
پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے2 بڑی اصلا حات کیلئے اقدام کئے گئے ہیں ۔ایک انتخابی اور دوسری فاٹا اصلاحات۔ انتخابی اصلا حات کے سلسلے میں بل حکومت سینیٹ سے منظور کر انے میں کا میا ب ہو گئی ، جہا ں حکومتی پارٹی کے مقابلے میں حزب اختلا ف کی برتری ہے۔ جو ترمیم بل منظور کر ایا گیا ہے، اس میں ایک شق سیا سی جما عتوں کی قائد ین کے بارے میں بھی ہے جسے فوجی آمر پر ویز مشرف نے پا کستان کی دو بڑی جما عتو ں کو اقتدار سے روکنے لئے شامل کیا تھا۔ انہوں نے یہ اقدام اس نیت سے کیا تھا کہ سیا ست میں بے نظیر بھٹو اور میا ں نو از شریف کا راستہ کھوٹا کیا جا ئے۔ عوامی قیا دت سے ہر آمر خوف زدہ رہتا ہے چنا نچہ پر ویز مشر ف نے جو نئے انتخابی قوانین نا فذکئے تھے، وہ اسی وجہ سے تھے ۔ایک یہ کہ جو شخص سزایا فتہ ہو گا وہ پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن پائے گا۔اس طرح میا ں نواز شریف اور بے نظیر کو سیاست ہی سے خارج کرنے کیلئے قانو ن یہ بنایا گیا کہ جو شخص پارلیمنٹ کا رکن بننے کا حقدا ر نہیں وہ کسی سیا سی جما عت کی قیا دت کے لئے بھی نا اہل ہو گا۔
اس قانو ن کی وجہ سے پر ویز مشرف کے دور میں 2002ہونے والے انتخابات میں گو کہ میا ں نو از شریف اور بے نظیر حصہ نہیں لے سکے مگر ان کی جما عتوں نے اس طرح حصہ لیا کہ راتو ں رات پیپلز پارٹی پا رلیمنٹرین کانا م دے کر پا رٹی کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کر ایا گیا اور اس کی قیادت پر خورشید شا ہ کے نا م کی پر چی چسپا ں کی گئی۔ مسلم لیگ ن کی قیادت پہلے جا وید ہا شمی کے سپر د کی گئی بعدازاں اس کی با گ دورڑ میا ں شہباز شریف کے ہا تھ میں تھما دی گئی ۔ مشرف ہی کے دور میں ایک طرفہ تماشا یہ بھی کیا گیا یہ پابندی بھی لگا دی گئی کہ 2مر تبہ سے زیادہ یعنی تیسری مر تبہ وزیر اعظم نہیں بنا جا سکتا ۔ اس طر ح نو از شریف اور بے نظیر کا راستہ روکا گیا۔
عملاًیہ دیکھنے میں آیا کہ دونو ں کو سیا ست سے ہر اچھے برے قدم کے ذریعے خارج نہیںکیاجا سکا ۔بہر حا ل نئی ترمیم کے ذریعے اب سزا یا فتہ شخص بھی پا رٹی کا سر براہ بن سکتا ہے اور اس طرح عملی اور براہ راست سیا ست میں نواز شریف کے قدم نہیں روکے جا سکیں گے ۔ پا رلیمنٹ کو یہ اختیا ر حاصل ہے کہ عمر انیا ت کے اصول پر وہ قانو ن سازی اور آئین سازی کرے، اسکے اس اختیا ر پر کوئی قدغن نہیںلگا سکتا ۔ نا قدین کا یہ کہنا کہ انتخابی بل میں پارٹی کی قیادت کے بارے میں تر میم ایک شخص کو فائد ہ پہنچانے کی غرض سے کی گئی ہے۔ یہ قطعی غلط ہے ، یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ فوری طو رپر اس سے کسی ایک کو فائد ہ پہنچ سکتا ہے مگر مستقبل میں دیگر سیا ست دان بھی مستفید ہو سکتے ہیں ۔ لیڈر شپ کا تعلق براہ راست عوام سے ہو تا ہے اور مصنوعی طور پر لیڈر شپ پیدا نہیں کی جاسکتی ۔ اگر مصنو عی راستے سے یہ ممکن ہوتا تو پر ویز الہٰی یا چوہدری شجا عت حسین کو میا ں نو ا ز شریف یا بے نظیر بھٹو جیسا مقا م کیو ں حاصل نہ ہو ا۔ لا ل حویلی والے شیخ جی کا سیاسی ستارہ اوج ثریا پر منڈلا تا ہو ا نظرآتا جبکہ ہر رات ان کو ٹی وی ٹاکز میں شیخیا ں بگھارنے کا مو قع فراہم ہے ۔نو از شریف سے کرسی کھسکانے کے بعد سے ہی ثابت ہو گیا ہے کہ ان کو اپنے مقام سے گرا ناممکن نہیں۔اس کیلئے سو جتن بھی کر لئے جا ئیں ، حاصل کچھ نہیں ہو تا۔اگر ایسا ہو تا تو آصف زرداری کو بھی ذوالفقار علی بھٹو یا بے نظیر بھٹو جیسا مقام ملتا ۔ان کی سیا سی حیثیت ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی کے چھاؤں تلے ہے ، ان کے صاحبزادے بھی اسی کے زیر سیا یہ سیا سی پنا ہ میں ہیں ۔وہ بھی بھٹو کا لا حقہ لگائے ہوئے ہیں ۔ دوسری اہم اصلاح فاٹا میں ہوئی ہے جہا ں پو لیس ایکٹ نافذ کر دیا گیا ہے۔
سنا ہے کہ اس کے ساتھ ہی عدالت نظام بھی وجو د میں آئے گا۔ پو لیس ایکٹ کے نفاذ کے ساتھ ہی پو لیس کی قیا دت کے پی کے پو لیس سر براہ کے سپر د کر دی گئی ہے جو ا س امر کی غمازی ہے کہ بتدریج اصلا حات کے ذریعے فاٹا کو صوبہ کے پی کا حصہ بنادیا جائے گا ۔ نئے اصلا حی اقدام سے پر ویز خٹک کا بھی عمل دخل فاٹا کی انتظامیہ میں بڑ ھ گیا ہے کیو نکہ پو لیس ان کے ماتحت ہے ۔ فاٹا میں اصلا حات کے بارے میں کا فی عر صہ سے زور وشور تھا ۔ ملک کی چھوٹی بڑی پارٹیا ں فاٹا کو ضم کر نے کے حق میں آواز اٹھائے ہوئے تھیں تاہم جمعیت علما ئے اسلا م ف کے سربراہ مولا نا فضل الرحمن اور پشتو ں ملی پا رٹی اس کی مخالفت کررہی تھیں مگر ان جماعتوں نے اس بارے میں کھل کر نہیں بتایا کہ وہ کیو ں مخالف ہیں۔ مولا نا فضل الرحمن کھلے بھی تو اس حد تک گئے کہ انھوں نے الزام لگایا دیا کہ یہ سب امریکہ کی خواہش پر ہو رہا ہے تاہم ان کا موقف درست تھا کیو نکہ روس نے جب افغانستان میں دراندازی کی تھی تو فاٹا کی موجودہ حیثیت سے پاکستان کو بھر پو ر استفادہ ہو ا تھا۔
اب حالا ت ویسے نہیں۔ اس امر کا اندیشہ ہے کہ دروازے کی چوکھٹ بیٹھا امریکہ کوئی گل اس آڑ میں نہ کھلا ئے ۔ جو بھی قد م ہو، سوجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔ سابقہ ریا ستو ں سوات ، دیر اور چترال کی طر ح فیصلہ گلے پڑ سکتا ہے کیو نکہ وہا ں کے رسم ورواج کو یکسر طور پر نظر انداز کر کے ان ریاستوں کو صوبے میں ضم کر دینے سے ہی ملا فضل اللہ جیسے لو گوں نے جنم لیا ۔فاٹا کے بارے میں عوا م کی رائے کا احترام لا زمی ہے جس کا واحدراستہ ریفرنڈ م ہی تھا ۔بہر حال ملک کی سیاسی قیا دت کی اکثریت اس حق میں نظر آئی کہ فاٹا کو ضم کیاجا ئے تو یہ اپنی جگہ درست ہے اور دیکھاجائے کب سے یہ مطالبہ ہورہاتھا جس سے یہ بھی محسوس کیا جا نے لگا تھا کہ حکومت اصلا حات میں مخلص نہیں ۔فاٹا کو سیا ست دانو ں کی خواہش کے مطابق صوبہ کے پی کے میں ضم کردیا گیا ۔ اس سے ان سیاسی جماعتو ں کو فائدہ پہنچنے کا امکان ہے کہ صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں صوبے کی نشستوں میں اضافہ ہو گا مگر کیا حکومت فاٹا میں انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکس کا نفاذ کرپائے گی۔ ساما ن پر محصول فاٹا کے علا قے میں وصول ہو پائے گا، ایسے بہت سارے مرحلے ہیں،ان کو طے کر نے کے دیکھ بھال کے قدم بڑھانے کی ضرورت ہو گی ۔

شیئر: