گھر کی بیٹھک سے آغاز، کراچی کی چار سہیلیوں نے 140 سکول کیسے قائم کیے؟
گھر کی بیٹھک سے آغاز، کراچی کی چار سہیلیوں نے 140 سکول کیسے قائم کیے؟
پیر 15 دسمبر 2025 9:39
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز
دہائیاں قبل کراچی میں کالج کی تعلیم مکمل کرنے والی چند سہیلیاں اپنی زندگیوں میں مصروف تھیں جب 1995 میں ایک ملاقات میں ماضی کی یادیں کھنگالتے ہوئے انہوں نے خود سے یہ سوال پوچھا کہ ’اگر ہماری تعلیم کسی اور کے کام نہ آئے تو اس کی افادیت کیا ہے؟‘
اس سوال کے جواب نے آگے چل کر بیٹھک سکول نیٹ ورک کی بنیاد رکھی۔ لیکن اس وقت کسی کے ذہن میں نہیں تھا کہ یہ کام ایک دن پورے پاکستان تک پھیل جائے گا۔
تقریباً 30 سال قبل ان سہیلیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے اردگرد موجود کچی آبادیوں کے بچوں کو پڑھا کر انہیں اپنا مستقبل سنوارنے کے قابل بنائیں گی۔ اس وقت وسائل نہ ہونے کے برابر تھے اور جگہ محدود تھی لیکن ان سہیلیوں کے ارادے مضبوط تھے۔ جب کچی آبادیوں کے بچوں کو پڑھانے کا ارادہ کر لیا گیا تو 1996 میں کسی نے اپنے ڈرائنگ روم میں بچوں کو بٹھایا تو کسی نے بیٹھک میں اور ایک سہیلی نے تو جگہ نہ ہونے کے باعث گاڑیوں کے گیراج میں ہی سکول قائم کر دیا۔ یہیں سے چھوٹے چھوٹے سکول قائم ہونا شروع ہوئے جنہیں بعد میں ’بیٹھک سکول‘ کا نام دیا گیا۔ سات سال بعد یعنی سنہ 2003 میں بیٹھک سکول نیٹ ورک کی موجودہ مینجمنٹ کمیٹی کی رکن معینہ گرامی بھی اس مشن میں شامل ہوئیں۔
ابتدائی دنوں سے متعلق اردو نیوز سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ ’اس وقت جب گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں اپنے حالات بتاتیں تو دل بوجھل ہو جاتا اور یہی احساس ہم سب کو ان کے بچوں کی تعلیم کی طرف لے آیا۔‘
معینہ گرامی کے بقول ’آغاز ہی سے ایک بات واضح تھی کہ اس پورے نظام کو خواتین کی قیادت میں چلایا جائے گا اور آج بھی یہی اصول قائم ہے۔ پاکستان بھر میں پھیلے اس نیٹ ورک میں تدریس، انتظام اور فیصلہ سازی تقریباً مکمل طور پر خواتین کے ہاتھ میں ہے جبکہ ہیڈ آفس میں چند مرد صرف ضروری کاموں کے لیے ہیں۔‘
بیٹھک سکولز کی بنیاد 30 برس قبل رکھی گئی۔ فوٹو: اردو نیوز
ابتدائی دنوں کے چیلنجز سے متعلق معینہ گرامی بتاتی ہیں ’جب میں آئی تو جذبہ تو بہت تھا لیکن سکول چلانے اور قائم رکھنے کی ٹریننگ نہیں تھی۔ ہم سب نے مل کر مشاورت کی۔ دوسرے سکولوں سے رابطے کیے اور پھر آہستہ آہستہ چیزیں درست ہونا شروع ہوئیں۔ آج ہم جس مقام پر ہیں وہ اسی مسلسل سیکھنے کا نتیجہ ہے۔‘
بیٹھک سکول نیٹ ورک کی موجودہ صدر عائشہ سلمان 2023 میں اس عہدے پر فائز ہوئیں۔ اس سے قبل نیٹ ورک کے مالی معاملات ان کی والدہ دیکھتی تھیں جو ان سہیلیوں میں شامل تھیں جنہوں نے اپنے اپنے گھروں میں کم وسائل کے ساتھ درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔
عائشہ سلمان کہتی ہیں کہ انہوں نے بچپن سے اپنی والدہ اور ان کی سہیلیوں کی جدوجہد کی کہانیاں سنی ہیں۔ ’امی اور ان کی دوستوں نے یہ سب اپنے ڈرائنگ روم اور بیٹھک سے شروع کیا۔ ابتدا میں بچے سکول نہیں آتے تھے کیونکہ مائیں اجازت نہیں دیتی تھیں۔ سب سے بڑا چیلنج ماؤں کو قائل کرنا تھا کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ اگر بچہ سکول گیا تو وہ گھر کے لیے کچھ نہ کچھ کمانے سے محروم ہو جائے گا۔‘
پہلا باقاعدہ پراجیکٹ محض 15 بچوں سے شروع ہوا۔ عائشہ سلمان بتاتی ہیں ’آج بیٹھک سکول نیٹ ورک کے تحت پورے پاکستان میں 140 سکول کام کر رہے ہیں جہاں تقریباً 20 ہزار بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان سکولوں میں 1200 خواتین اساتذہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ فیس 200 روپے رکھی گئی ہے لیکن بعض اوقات یہ لازمی نہیں۔ فیس صرف ایک احساس ذمہ داری کے تحت لی جاتی ہے۔ بعض بچے روزانہ دس روپے بھی قسطوں میں ادا کرتے ہیں۔ اس نیٹ ورک سے اب تک تقریباً 50 ہزار طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہو چکے ہیں جن میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس شامل ہیں۔‘
اس وقت 140 بیٹھک سکول کام کر رہے ہیں جہاں تقریباً 20 ہزار بچے زیرِتعلیم ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز
بیٹھک سکول نیٹ ورک میں درس و تدریس کا روایتی تصور نہیں۔ یہاں بچوں کو کے جی ون میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ ابتدائی طور پر ان بچوں کو کتابوں کی بجائے زندگی کے بنیادی آداب سکھائے جاتے ہیں۔
معینہ گرامی بتاتی ہیں ' ہمارے ہاں باقاعدہ تدریس کا آغاز نسبتاً دیر سے ہوتا ہے۔ اردو اور انگریزی زبانوں پر خاص توجہ دی جاتی ہے لیکن طریقہ کار منفرد ہے۔ کاپی اور پنسل تک پہنچنے میں خاصا وقت لگتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بچہ پہلے سیکھنے سے محبت کرے۔‘
عائشہ سلمان نے بتایا کہ ’اس وقت 18 سکولوں میں سیکنڈری کلاسز جاری ہیں جبکہ باقی سکولوں میں پرائمری تعلیم کے ساتھ ہنر، عملی تربیت اور جدید رجحانات بھی سکھائے جا رہے ہیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ جلد ہی سیکنڈری تعلیم کو میٹرک تک بڑھایا جائے اور زیادہ سے زیادہ بچوں کو اس دائرے میں لایا جائے۔‘