Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اردوتحاریر کی اقسام”ہنسائیہ، رُلائیہ، پچھتائیہ، دغائیہ“

 
ہمارے سیاسی، علمی، شریف ، حریف کئی لنگوٹئے ہیں مگر میاں دانی کانہیں ثانی 
شہزاد اعظم۔جدہ
عام طور پر ہر شخص کا کوئی ایک آدھ لنگوٹیہ ہی ہوتا ہے مگر ہمارے ایک نہیں بلکہ کئی درجن لنگوٹیے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے زندگی کے مختلف شعبوں اور ان کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنے لئے لنگوٹیوں کا انتخاب کیا تھا۔ان میں سے چند ایک کے نام یوں تھے”سیاسی لنگوٹیہ، طبی لنگوٹیہ، علمی لنگوٹیہ، منظوم لنگوٹیہ، مغموم لنگوٹیہ، شریف لنگوٹیہ، حریف لنگوٹیہ، بیروزگار لنگوٹیہ اور برسرِکارلنگوٹیہ وغیرہ۔ آج ہم جس لنگوٹیے کاذکر کرنے والے ہیں اس کا نام ہے لسانی لنگوٹیہ، یہ موصوف زبان دانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اس لئے انہیں ”میاںدانی“ کہا جاتا تھا۔ان کی” طینتِ زباندانی“ کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے نہایت کم عمری میں جب بولنا شروع کیا تو بلا شبہ تتلاہٹ نے انہیں اپنے ”جلو“ میں لے رکھا تھا مگر مجال ہے جو ان کا تلفظ خراب ہو یا وہ بے ڈھنگے الفاظ ادا کرتے ہوں مثلاً 21 ماہ کی عمر میں وہ ایک روز اپنی والدہ سے توتلے لب و لہجے میں فرما رہے تھے کہ ”میری پیاری امی! پتا ہے، میری دلی تھواہش ہے تے آپ تے ممتا بھرے آنچل تا تھایہ ہمیشہ میرے تھر پر تائم رہے۔“تتلاہٹ سے ناآشنا قارئین کے لئے ہم اس جملے سے توتلے پن کو منہا کر کے ”غیرمتلوت“انداز میں تحریر کریں تو یہ جملہ یوں ہوگا”میری پیاری امی! پتا ہے ،میری دلی خواہش ہے کہ آپ کے ممتا بھرے آنچل کا سایہ ہمیشہ میرے سر پر قائم رہے۔“
کہنے کا مقصدیہ ہے کہ ہم زبان کے حوالے سے اپنے لسانی لنگوٹئے ”میاںدانی“ سے بے حد مرعوب تھے اور آج بھی ہیں۔ گزشتہ دنوں ہمیں ایک ایسی تحریر موصول ہوئی جسے اردونیوز میں اشاعت کے لئے بھیجا گیا تھا،اس پر جلی حروف میں لکھا تھا ”اردونیوز کے صفحہ ”فکاہیہ“ کے لئے ایک تحریر، اشاعت کا منتظر”الف بے جیم۔“
ہم نے اس تحریر کا ایک ایک لفظ پڑھا مگر وہ تو ایک سیاسی رہنما، اس کی جماعت اور اس جیسے دوسرے آدمیوں کے سیاسی اعمال کی روداد تھی، اس کے سوا اس تحریر میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اسی دوران اتفاقاً ”میاںدانی“ ادھر آنکلے۔انہوں نے ہمیں لیپ ٹاپ کی اسکرین پر دکھائی دینے والی اردوتحریر کی خواندگی کے دوران اپنے سر کے ”رہے سہے“ بال نوچتے دیکھا تو سبب دریافت کیا۔ ہم نے اپنا ”دکھڑا“ان کے آگے رویا تو انہوں نے زبان دانی کی بنیادوں پر ہمیں بہت کچھ سمجھایا جو ہمارے علم میں اضافہ کر گیا۔ہماری دلی خواہش ہے کہ یہ اضافہ ہر قاری کے علم میں ہو اور کوئی بھی اس سے محروم نہ رہے۔ ”میاںدانی“ نے فرمایا:
”دامنِ ریختہ بہت وسیع و عریض ہے۔اس میں شامل الفاظ، مرکبات، محاورے، ضرب الامثال اور تراکیبِ لفظی، سب کے سب چاشنی، شیرینی، نرمی ، خوبصورتی اور نزاکت جیسی خوبیوں کا مرقع ہیں۔اگرآپ لفظ”یہ“ پر ہی توجہ مرکوز کر یں توششدر رہ جائیں گے کہ اس میں کتنی لچک ہے، معنویت ہے، وسعت ہے، مثال کے طور پر جب کسی شخصیت کو کسی شعبے یا محکمے سے مدتِ ملازمت پوری ہونے کے بعد ”نکالا“ جاتا ہے یعنی ”الوداع“ کہاجاتا ہے تو اس کے لئے جو تقریب منعقد کی جاتی ہے اس کے لئے ”یہ“ کا لفظ الوداع کے آخر میں جوڑ دیاجاتاہے جو ”الواداعیہ“ بن جاتا ہے۔اسی طرح عشاءکے بعد جو کھانا کھایاجاتا ہے اسے بھی عشاءکے آخر میں ”یہ“ جوڑ کر ”عشائیہ“ کہا جاتا ہے۔اسی طرح وہ تحریر جس میں فکاہ موجود ہو، جسے پڑھنے والا مسکرادے یا اسے تحریر کی خواندگی کے دوران گدگداہٹ کا احساس ہو”یہ“کے اضافے کے ساتھ ”فکاہیہ“ قرار پاتی ہے۔ہم نے جھنجلا کر کہا کہ ”میاںدانی“ ہمیں یہ سب پتا ہے .....انہوں نے ہماری بولتی بند کرتے ہوئے کہا کہ ”محترم لنگوٹئے! ذرا ہماری گفتگو مکمل ہونے دیجئے۔یہ کوئی سیاسی ٹاک شو نہیںجو آپ نے ہمیں اَدھر میں ہی روکنا شروع کر دیا۔ ”میاںدانی“ نے کہا کہ ہماری زبان کا دامن بہت وسیع ہے مگرآپ اس جانب توجہ نہیں دیتے۔میں نے اس پر غور و خوض کیا ہے، آپ بھی سنئے، اگر میں غلط ہوںتو دلیل کے ساتھ ذلیل کردیجئے گا۔ جب فکاہ پر مبنی تحریر ”فکاہیہ“ کہلاتی ہے تو ہر وہ تحریر جو انسان کو رونے پر مجبور کر دے”رُلائیہ“ کہلائے گی، جو ہنسنے پر مجبور کر دے”ہنسائیہ“ کہلائے گی، جو قہقہہ لگانے پر مجبور کر دے”قہقہائیہ“ کہلائے گی، کوئی بھی ایسی تحریر جس میں کسی شخصیت کو لچھے دار گفتگو کے ذریعے اپنے ”جال“ میں پھنسانے کی کوشش کی جائے ”پھنسائیہ“ کہلائے گی۔ ایسی تحریر جس میں بیوی سے جان چھڑانے کے لئے طلاق وغیرہ کی دھمکی ، طلاق کی وجوہ یا پھر سیدھی سیدھی طلاق دی گئی ہو اسے ”طلاقیہ“ اور وہ تحریر جس میں کسی صنف مخالف کو گھر بسانے کے لئے سفرِ حیات میں شریک کرنے کی دعوت دینے کی کوشش کی گئی ہو”نکاحیہ“ کہلاتی ہے۔ بعض تحاریر ایسی ہوتی ہیں جنہیں پڑھ کر انسان کچھ دیر کے لئے ہی سہی، تمام تفکرات بھول جاتا ہے۔ ایسی تحریروں کو”بھُلائیہ“ کہاجاتا ہے۔اسی طرح اگر کسی تحریر میںمخاطب کو اپنے گھر آنے کی دعوت دینے کی کوشش کی جائے یا اسے ایسے ”سبز باغ“ دکھائے جائیں کہ وہ آپ کے گھر آنے پر مجبور ہوجائے، ایسی تحریر کو ”بُلائیہ“ کہیں گے۔اس کے برخلاف اگر کوئی مہمان آپ کے گھر2یا3روز تک قیام کے لئے آئے اور مہینا گزر جانے کے باوجود جانے کا نام نہ لے، آپ اخلاقیات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے گھر سے جانے کےلئے اپنی زبان سے نہ کہہ سکیں تو ایسے میں آپ کے سامنے ایک راستہ یہ ہوگا کہ آپ ایسی تحریر لکھ کر اس کے تکئے پر رکھ دیں جسے پڑھ کراس کی غیرت میں”سونامی بپا“ہوجائے، وہ انتہائی شرمندہ ہو، ایک پَل بھی آپ کے گھر میں ٹھہرنا گوارہ نہ کرے اور آپ کے سامنے کسی بھی قسم کا تحریری یا تقریری ردِ عمل ظاہر کرنے سے قبل اپنے گھر واپس جانے کا مصمم عزم کرلے، ایسی تحریر کو ”بھگائیہ“ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی ایسی تحریرجس میں کسی فرد، افراد ، مجمعے، جمگھٹے، ریوڑ یا قوم کو مخاطب کر کے ان کے رہنماوں کو برابھلا کہا گیا ہو تواسے پڑھ کر وہ فرد، جمگھٹا، ریوڑ یا قوم چیخنے چِلانے لگے گی۔ ایسی تحریر کو ”چلائیہ“ یا ”چیخائیہ“ کہا جائے گا۔اسی طرح ”آئیہ“ بھی ایک قسمِ تحریر ہے جو کسی بھی نئے آنے والے کے لئے لکھی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی دفتر وغیرہ میں جب کوئی نیا افسر آتا ہے یا ”آقا“ یعنی ”باس“تبدیل ہوجاتا ہے تو اس کے آنے پر ”بادلِ خواستہ“ یا ”بادلِ ناخواستہ“قلم کے ذریعے قرطاس پر جو سیاہی بکھیری جاتی ہے وہ ”آئیہ“ کے زمرے میں آتی ہے۔اس حوالے سے ہم بعض ایسی مثالیں بھی پیش کر سکتے ہیں جو معروف ہونے کے باعث آپ کے ذہن و دل میں یوں اُتر جائیں گی کہ آپ چاہنے کے باوجود انہیںفراموش نہیں کر سکیں گے مثلاًاحمد رشدی کا گایا اور وحید مراد پر عکسبند کیاگیا نغمہ:
”بھٹکی ہوئی موجوں نے آخر پایا اپنا ساحل
مل گئی مل گئی مل گئی ہم کو پیار کی یہ منزل“
یہ شعری بندش ”ملائیہ“ کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ اس میں کسی ہستی کے مل جانے پر خوشی و مسرتِ قلبی کا ”ساختہ اظہار“ کیاگیا ہے۔ اسی طرح لتا نے ایک فلم میں مدھوبالا کی زبانی دلی جذبات کا اظہار یوں کیا تھا :
”ہمیں کاش تم سے محبت نہ ہوتی
کہانی ہماری حقیقت نہ ہوتی“ 
یہ اشعار ”پچھتائیہ“ کہلائیں گے کیونکہ صنف نازک رو رو کرجو کیفیات سامع اور ناظر تک پہنچانا چاہتی ہے ان کے مطابق اس کے منگیتر نے شادی کے ضمن میں لیت و لعل سے کام لینا اپنا شعار بنا لیا ہے ، دوسری جانب صنف نازک کی عمر گزری جا رہی ہے ۔ اس نے منگیتر سے بار ہا کہا کہ شادی جلد کر لو مگر وہ اپنے ہی چکروں میں رہا اورایک روز اس نے کہہ ہی دیا کہ ”مغروںلہہ جا“،منگیتر کی اس بے اعتنائی سے دل برداشتہ ہو کر ہی صنف نازک نے رو رو کر یہ ”پچھتائیہ“ گایا۔ وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ اگر منگیتر مجھے کئی برس قبل ہی چھوڑ دیتا تو اچھے سے اچھا رشتہ مل جاتا مگر اب عمر اتنی ہو چکی ہے کہ یا توکسی متوفیہ کا شوہرمجھے بیاہ کر لے جا سکتا ہے یا پھر کوئی اپنی بدزبان بیوی کی سوکن بنا کر مجھے لے جا سکتا ہے۔
اسی طرح پاکستان کی ایک مقبول اور کامیاب فلم میں مہدی حسن نے وحیدمراد کے روپ میں یوں دکھڑا سنایا تھاکہ:
”تیرے وعدے پہ میں نے زندگی اپنی سجائی تھی
دھواں دے کر بجھی ہے شمع جو تونے جلائی تھی“
یہ شعری اظہاریہ درحقیقت ”دغائیہ“ صنف میں شمار ہوگا کیونکہ اس میں فریقِ ثانی کی دھوکہ دہی، دونمبریت، جفا کاری، بے وفائی، دغا بازی اور ایسی ہی منفی سرگرمیوں کا شکوہ کیاگیا ہے۔
”میاںدانی“ کی یہ باتیں سننے کے بعد ہمارے ذہن و دل میں کسی قسم کا سوال باقی نہیں رہا بلکہ سوچوں کے اُفق پر ایک نئی صبح طلوع ہوئی، ہم اُردوزبان کے دامن کی وسعت کے قائل ہوگئے اور مختلف اظہاریوں اور بیانیوں کے بارے میں سوچنے لگے کہ یہ کس زمرے میں آتے ہیں؟
 
 
 
 

شیئر: