Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”میں آپکے شوہر کی اہلیہ بات کرر ہی ہوں“

آج 3سال بعد میرے سرتاج نے آپ کومیرا نمبر کیسے دیدیا؟
شہزاد اعظم
اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید سائنسی ایجادات نے انسانی رندگی میں بے انتہا تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں۔ان میں سے بعض تبدیلیاں حیران کن، بعض ششدر کر دینے والی اور بعض ”عجیب الخلقت“ قسم کی ہیں۔ان ایجادات میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جن سے ہر آدمی استفادے کی کوشش کرتا ہے جبکہ بعض ایسی ہیں جن سے ہر شخص منہ چھپانا ہی بہتر سمجھتا ہے۔
موجودہ دور میں اگر کسی بھی صاحب عقل سے سوال کریں کہ، یہ بتائیے کہ وہ کونسی سائنسی ایجاد ہے جس نے انسان کو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی طور پر بھی سب سے زیادہ متاثر کیا ہے تو اس کا جواب یہی ہو گا کہ وہ ہے”موبائل فون“۔آپ اپنے ارد گرد غور فرمائیے، جمعدار نی ہو یا پولیس والی، وین کامسافر ہو، ڈرائیور یا کنڈکٹر، کلینک میں ڈاکٹر ہو یا مریض، دفتر میں باس ہو یا کارکن، گھر میں خادم ہو یا مخدوم، مالکن ہو یا خادمہ یہاں تک کہ میاں ہو یا بیوی، ہر کسی کے پاس موبائل فون نظر آئے گا۔اس میں ذخیرہ شدہ بعض نام تو واضح اور مکمل ہونگے جبکہ بعض نام ایسے بھی ہونگے جن کا صرف مخفف ہی ملے گااس مختصر نام یا مخفف کے ذریعے عموماً”پیار“ میںپکارا جاتا ہے۔ اگر آپ اس مخفف کا پتہ لگانے کی کوشش کریں تو کسی طور کامیابی نہیں ہو سکے گی ۔اس جدید ایجاد کے استعمال اور اس کو ”بھگتنے“ کے بھی کچھ تقاضے اور قواعد ہیں جن کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔ بصورت دیگر ”ناگہانی مشکلات“کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
موبائل فون استعمال کرنے کے قواعد و ضوابط میں یہ بات شامل ہے کہ اس میں ذخیرہ شدہ ”مخفف“ کا کھوج لگانے کی کوشش ہر گز نہ کی جائے کیونکہ گاہے کھوج لگانے سے ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔اس ضمن میں دل دہلا دینے والا ایک ”سبق آموز“ واقعہ آپ کی نذر کیا جارہا ہے۔یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب یہ موبائل فون یوں ”دست زد عام“ نہیں ہوا تھا کہ ہر کس و ناکس اس پر توتڑاق کرتا نظر آئے بلکہ یہ چند ایک خواص کا ہی خاصہ شمار ہوتا تھا اور یہ خواص بھی ایسے کہ جن کے ہاتھ میں موبائل فون جچتا تھا بلکہ یوں کہئے کہ ”حسن موبائل“ کو چار چاند لگ جاتے تھے۔تو ہوا یوں کہ :۔
ہمارے ایک بہت ہی دلعزیز دوست تھے۔ انہیں ہمارے ”چھڑے پن“ پر خاصا رحم آتا تھا اسی لئے وہ اکثر و بیشتر ہمیں اپنی اہلیہ کے ہاتھ کے تیار کردہ پکوان کھلانے کے لئے بلا لیا کرتے تھے۔پکوان اتنے لذیذ ہوتے کہ ہم آئندہ ایک دو روز کے لئے خوراک کا ”ذخیرہ“ کرنے کی کوشش کرتے کیونکہ ہمیں احساس تھا کہ”قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا کھانا کھانا“۔ اسی لئے ہم روز کی بجائے ہفتہ میں تین یا چار مرتبہ ہی ان کی دعوت طعام قبول کرتے تھے۔ہمارے دوست اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے ۔پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے موبائل فون خرید لیا ۔ وہ اس مسرت میں ہمیں شریک کرنے کے لئے ہمارے ”کمرے“ پر تشریف لائے اور موبائل فون دکھا یا۔ ہم نے اس مختصر مگر جامع ایجاد کو بہت غور اور حیرت سے دیکھا۔ ابھی تک ہمیں اپنے دوست کی کسی چیز پر رشک نہیں آیا تھا مگر ان کا موبائل فون دیکھ کر ہمارا بھی دل چاہا کہ ”کاش، ہمارے ہاتھ میں بھی ایسا ہی فون ہوتا۔جب دل چاہتا بیگم سے زبانی ہی زبانی دو دو ہاتھ کر لیتے۔ہم نے ان سے موبائل کی قیمت دریافت کی تو ہمارے دل میں کسمساتی موبائل فون کی چاہت فوری صدمے کا شکار ہو کر عالم تخیلات سے نیست و نابود ہو گئی۔
ہم اکثر و بیشتر اپنے عزیز دوست کو موبائل پر فون کرتے ۔پھر کچھ ہی دنوں کے بعد ہمیں اس دوست نے ایک اور موبائل فون دکھایا اور کہا کہ میں نے پہلے والا سیٹ فروخت کر دیا ہے اور نیا لے لیا ہے۔ نیا سیٹ تو ہمیں اور بھی پسند آیا مگر ہم دل ہی دل میں سوچ کر رہ گئے۔
وقت گزرتا گیا۔ ایک روز ہمارے دوست افسردہ چہرہ لئے ہمارے پاس آئے اورگویا ہوئے کہ یار موبائل فون نے میرے ہنستے بستے گھر میں آگ لگا دی۔ ہم نے حیرت سے دریافت کیا کہ ایسا کیا ہو گیا، موبائل سے آگ لگ گئی، کیا بیٹری وغیرہ دھماکے سے پھٹ گئی؟جواب ملا نہیں دوست، ایسی آگ تو کچھ بھی نہیں۔دراصل ہماری بیگم کو موبائل فون کی شد بد ہمارے لئے سانحہ بن گئی۔ ہوا یوں کہ میں نے اپنے موبائل فون میں ایک نام کا مخفف ذخیرہ کر رکھا تھا۔ بیگم نے ہماری عدم موجودگی میں موبائل میں ذخیرہ ناموں کا مطالعہ شروع کیا۔ انہیں ایک نام انجانا اور نامکمل لگا۔ انہوں نے مکمل نام کا اندازہ کرنے کی پوری کوشش کی مگر جب وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں تو انہوں نے اس مخفف نام کے نمبر پر کال کر ڈالی۔دوسری جانب سے سوال کیا گیا کہ آپ کون بول رہی ہیں، انہوں نے اپنے شوہر کا نام لے کر کہا کہ میں ان کی بیوی بات کر رہی ہوں، اس پر دوسری جانب سے جواب آیا کہ اتفاق ہے، میں بھی آپ کے شوہر کی اہلیہ ہی بات کرر ہی ہوں۔آج 3سال بعد میرے سرتاج نے آپ کومیرا نمبر کیسے دیدیا؟
اس سوال کا میری بیگم نے کیا جواب دیا ، اس کے بارے میں تو مجھے کچھ نہیں پتہ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس ”سانحے“ کے بعد میں گھر پہنچا تو بیگم نے اپنا ضروری سامان باندھ رکھا تھا۔ میں نے استفسار کیا کہ یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اسی وقت پاکستان بھجوا دیجئے۔ رہا آپ کا سوال تو آپ کو اپنی دوسری بیوی مبارک ہو، میں کسی سوتن کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ یہی نہیں بلکہ بچے بھی ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ ”ابا، آپ؟؟
اس روز ہمیں خیال آیا کہ یہ فون بنانے والوں نے اسی لئے اس کا نام موبائل فون رکھا ہے کہ جہاں جاو، اسے ساتھ لے کر جاو۔ اکیلا چھوڑ کر کبھی نہیں جانا چاہئے ورنہ انسان خود اکیلا ہو سکتا ہے۔
آج ہم بھی موبائل فون بردار ہو چکے ہیں مگر ہم چھڑے پن کے باوجود اسے ہر پل اپنے ساتھ رکھتے ہیں تاکہ عادت پختہ ہو جائے۔آخر ہمیں چھٹی پر پاکستان تو جانا ہی ہوتا ہے، وہاں یہ عادت کام آئے گی۔
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: