Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاک، امریکہ کشیدگی اور اعتماد کافقدان

پاکستان کو امریکہ میں لابنگ کیلئے اپنی حکمت عملی کو ازسر نو مرتب کرنا ہوگا
* * *ارشادمحمود* * *
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کوئی نئی بات نہیں لیکن اس مرتبہ معاملہ غیر معمولی سنجیدگی اختیار کرچکا ہے۔ امریکی مطالبات کے پیش نظر پاکستان نے کچھ اقدامات کئے۔ ان میں سے ایک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کا دورہ کابل بھی ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک برف پگھلی نہیں کیونکہ اعتماد کا بحران بہت گہرا ہوچکا ہے۔ غالباً70 برس میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ امریکی صدر نے پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات سے معذرت کرلی۔اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو اپنی تقریر میں دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے اور وعدہ خلافیوں کا مرتکب قراردیا۔ا ن کا لب ولہجہ دھمکی آمیز ہی نہیں بلکہ توہین آمیز بھی تھا۔
یہ جاننے کے باوجود امریکی انتظامیہ نے ایک خطرناک اور جارہانہ پالیسی اختیار کی جس کی ناکامی کے امکانات روشن ہیں۔ امریکیوں کا نقطہ نظر ہے کہ وہ گزشتہ 17 برس سے پاکستان کی خوشامد کرتے آئے ہیں۔ اسے مالی امداد اور ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ جواب میں انہیں نہ صرف تعاون نہیں ملتا بلکہ امریکہ کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے خلاف بے لچک اور سخت گیر رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔اب ہروہ حربہ اختیار کیا جائے گا جس سے پاکستان کی مشقیں کسی جاسکیں۔افغانستان میں ہند کا کردار بڑھاکر پاکستان کو خوفزدہ کیا جارہاہے۔ لشکر طیبہ اور جیش محمد کو ہوّا بنا کر عالمی فورمز پر پیش کرکے پاکستان کو شرمندہ کیاجاتاہے۔ افغانستان میں دہشت گردوں بالخصوص حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی مدد کا الزام تو معمول کی بات ہے۔
پاک، چین اقتصادی راہداری کے خلاف جاری پروپیگنڈا مہم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔بلوچستان میں سیاسی استحکام سی پیک کی کامیابی اور تکمیل کی ضمانت فراہم کرتاہے۔بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے والے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹی تو سیاسی اور سفارتی مہم جوئی شروع کردی گئی۔ جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے اجلاسوں میں دنیا بھر سے لوگوں کو جمع کرکے سی پیک کے خلاف اعتراضات کرنے کا سلسلہ گزشتہ ایک برس سے جاری ہے۔ اب بلوچستان کی علیحدگی کی تحریک کو بھی اس مہم کا مستقل حصہ بنادیاگیاہے ۔جنیوا کے درودِیوار آزاد بلوچستان کے نعروں سے بھر دیئے گئے جن پر کرڑوںڈالر کا خرچہ اٹھا ہے جو آخر کسی نے ادا تو کیاہوگا۔ جاپان نے بھی کھل کر اپنا وزن ہندکے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔جاپانی وزیراعظم شینز و ایبے نے مودی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک لشکر طیبہ ، جیش محمد اور القاعدہ کے خلاف باہمی تعاون مضبوط کریں گے۔دونوں رہنماؤں نے مشترکہ طور پر پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوںمیں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔
تکلیف دہ امر یہ ہے کہ جاپانی وزیراعظم نے پاک، چین اقتصادی راہداری کے خلاف بھی ہندوستا نی نقطہ نظر کی تائید کی۔ واشنگٹن میں ہونے والی ملاقاتوں سے اندازہ ہوتاہے کہ پاکستانی نقطہ نظر کو سننے اور سمجھنے والے بہت کم ہیں۔اگرچہ امریکیوں کو یہ بھی احساس ہے کہ پاکستان کو دباؤ کا شکار نہیں کیاجاسکتا لیکن اس کے باوجود وہ یہ حربہ آزمانے پر مضر ہیں۔کئی ایک ماہرین کی رائے ہے کہ پاکستان محض لفاظی اور دھمکیوں سے مرغوب نہیں ہونے والا لہٰذا اسے دہشت گرد ممالک کی فہر ست میں ڈال دیا جائے۔ بعض کا موقف ہے کہ ایسا نہ کیا جائے ‘اس طرح پاکستان افغانستان میں مزید عدم استحکام پیدا کردے گا،نیٹو سپلائی روک کر امریکہ کیلئے مسائل پیدا کرسکتاہے۔
جوہری ہتھیاروں کے حامل ملک کو عدم استحکام کا شکارکرنے کے خطرناک نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ پاکستان ہند کی طرف سے کسی بھی امکانی مہم جوئی میں چھوٹے جوہری ہتھیار استعمال کرسکتاہے جو عالمی امن کے لئے سخت خطرناک ہے۔امریکہ میں نجی گفتگوؤں میں کہاجاتاہے کہ پاکستان کے ساتھ ترکِ تعلق نہیں کیاجاناچاہیے لیکن عوامی پلیٹ فارمز پر ہر کوئی شاکی اور ناراض دکھائی دیتاہے۔ پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے حکام کو نہ صرف سسٹم میں غیر موثر کردیاگیا بلکہ کئی ایک کے خلاف تحقیقات بھی کی گئیں کہ کہیں وہ پاکستان کے ایجنٹ تو نہیں۔ اس طرزعمل نے پاکستان کے حق میں بات کرنے والوں کو خوف زدہ کردیا۔ افغانستان میں امریکی فورسز کی کمانڈ کرنے والے جنرلوں اور ان کے پاکستانی ہم منصبوں کے درمیان نہ صرف یہ کہ اعتماد کا فقدان پایاجاتا ہے بلکہ وہ اکثر نجی محفلوں میں ایک دوسرے کی کارکردگی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ چین کی طرف سے پاکستان کو ملنے والی اخلاقی،سفارتی اور اقتصادی حمایت نے واشنگٹن کے دباؤ کو بڑی حد تک تحلیل کیا لیکن اس کے باوجود امریکہ ایک ایسی طاقت سے جس سے ٹکراؤکا نتیجہ خطرناک ہوسکتاہے۔اس خطے میں بالادستی کا ایک زبردست کھیل جاری ہے ۔ اب جاپان بھی کھل کر امریکہ اور ہند کے ساتھ کھڑا ہوچکا ہے۔
یہ ممالک مل جل کر ہند کی پیٹھ ٹھوکتے ہیں تاکہ وہ پاکستان کو خاک چاٹنے پر مجبور کرسکے۔علاوہ ازیں اسکی بھرپور اقتصادی مدد بھی کی جاتی ہے تاکہ وہ ایک بڑی مارکیٹ اور سرمایہ کاروں کی منظور نظر منزل بن جائے۔ امریکہ میں لوگ بتاتے ہیں کہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں ہندوستانی اپنا سکہ کب کا جماچکے ہیں۔ اب وہ سیاسی اور سفارتی میدان میں بھی اپنا لوہا منوارہے ہیں۔ ہندوستانی سرما یہ کاروں نے دل کھول کر لابنگ کیلئے روپیہ فراہم کیا۔ انہیں یہودی لابی کی حمایت بھی دستیاب ہے جو کانگریس، انتظامیہ اور میڈیا کو کنٹرول کرتا ہے۔ امریکہ اور ہند کے درمیان نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے تبادلے کے سمجھوتے کے بعد ہند کیلئے امریکی انتظامیہ اورکانگریس کے دروازے چوپٹ کھل گئے۔
ہندوستانی نژاد پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والی شخصیات کے علاوہ یوایس انڈیا بزنس کونسل، انڈو امریکن چیمبر آف کامرس ، کانگریس میں قایم انڈیا کاکس اور ہندوستانی سفارت خانے کی طرف سے مقرر کی گئی لابنگ فرموں نے نئی دہلی کا مثبت امیج اور پاکستان کا منفی کردار ابھا رنے میں اہم کردار ادا کیا۔ افغانیوں کی بھی جو لابی یا شخصیات امریکہ میں سرگرم ہیں وہ بھی ہندکے ہم رکاب ہیں۔ پاکستان امریکہ کو افغانستان میں اپنے مفادات کی اہمیت پر قائل نہیں کرسکا۔ ہماری لیڈرشپ واشنگٹن کو یہ باور کرانے میں ناکام رہی کہ افغانستان کو ہند پاکستان کے خلاف استعمال کرتاہے اور وہ پاکستان کے گرد محاصرہ قائم کرنے کے لئے بھی افغانستان کی سرزمین استعمال کررہاہے۔
خاص طور پر گزشتہ چند سالوں میں افغان اور ہندوستانی حکومتوں کے مابین پاکستان مخالف اشتراک اپنی انتہاؤں کو چھو رہاہے۔ پاکستان کو امریکہ میں لابنگ کے لئے اپنی حکمت عملی کو ازسر نو مرتب کرنا ہوگا۔ پیش نظررہے کہ پاکستان نژاد امریکی بھی کافی طاقتور اور موثر سیاسی، سماجی اور معاشی حیثیت کے حامل ہیں ۔ وہ امریکہ میں آباد غیر ملکیوں میں ساتویں نمبر پر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کو داخلی سطح پر بقول وزیرخارجہ خواجہ آصف کے گھر کی صفائی بھی کرنا ہوگی۔ کالعدم تنظیموں کو کسی بھی صورت سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ نے اسی تناظر میں افغانستان کا بھی پہلی مرتبہ دورہ کیا۔ ٹرمپ کے جانب سے افغانستان سے متعلق نئی امریکی پالیسی کے اعلان کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ کا دورہ اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان اور افغانستان نے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مشترکہ کوششوں پر بھی اتفاق کیا گیا۔ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے پر دہشت گرد گروہوں کو پناہ دینے کا الزام بھی عائد کرتے رہے ہیں۔ پاکستان نے افغان حکام کو ایک مرتبہ پھر ان عناصر کی فہرست دی ہے جو مبینہ طور پر پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔توقع کی جانی چاہئیے کہ جنرل باجوہ کے دورہ کابل کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ پاکستان نے ٹرمپ کی پالیسی سے نمٹنے کے لئے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اس میں افغان تنازع کے حل میں خطے کی ممالک کی شمولیت ہے۔ اس سلسلے میں ایران اور چین کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے ۔دوست ملکوں کو اعتماد میں لینے کے بعد ہی خواجہ آصف امریکہ کے دورے پر روانہ ہوئے ہیں ۔
(نوٹ:2ہفتے تک امریکہ میں مختلف بااثر لوگوں کے ساتھ ہونے والے تبادلۂ خیال کے ماحاصل کو اس کالم میں سمودیاگیا ہے)۔

شیئر: