Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

والدین کی خدمت ، جہاد سے مقدم

 والدین کافر و مشرک ہوں اور کفر و شرک پر جمے رہیں تب بھی ان کی اولاد دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی پابند ہے

* * * *مولانامحمد عابد ندوی۔ جدہ* * *

    بندوں میں سب سے مقدم حق، والدین کا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کتاب و سنت میں بہت زیادہ تاکید آئی ہے۔ ان کی خدمت کو جہاد سے مقدم رکھا گیا ہے۔اولاد کیلئے والدین کی خدمت و فرمانبرداری کو حصولِ جنت کا زینہ بلکہ خود والدین کو " جنت کا دروازہ"  قرار دیا گیا اور اس شخص کو محروم و بدنصیب کہا گیا جو والدین جیسی مقدس ہستیوں کو پاکر انکی خدمت کرکے جنت کا مستحق نہ بن سکے بلکہ اس معاملے میں غفلت و کوتاہی اور والدین کی نافرمانی کے سبب جہنم اس کا مقدر بن جائے۔ والدین کی خدمت اور انکے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان اور نبی کریم کے چند ارشادات اس سے قبل ذکر کئے گئے تھے۔ اس موضوع کی اہمیت نیز والدین کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت و کوتاہی عام ہونے کے سبب مزید چند احادیث ہم بیان کرنے کی کوشش کرینگے جس سے اندازہ ہوگا کہ والدین کیساتھ حسن سلوک کا اللہ تعالیٰ  کے ہاں کیا مقام ہے؟۔    اللہ تعالیٰ کے نزدیک والدین  کا مقام و مرتبہ اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کا اندازہ  اس بات سے لگایئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشی و رضامندی کو والدین کی رضا مندی و خوشنودی میں اور اپنی ناراضی کو والدین کی ناراضی میں مضمر قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:     " پروردگار کی رضا والد کی رضا میں ہے اور پروردگار کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔" (ترمذی، ابن حبان، الادب المفرد)  
    حدیث مبارکہ میں  اگرچہ " والد"  کا لفظ آیا ہے جبکہ معنیٰ و مفہوم  میں والدہ بھی بدرجہ اولیٰ شامل ہے۔ اس سے قبل یہ حدیث ذکر کی جاچکی ہے کہ والدہ کا حق والد سے یوں بھی 3 گنا زیادہ ہے۔ الغرض والدین کی خدمت و فرمانبرداری کرکے انہیں خوش رکھا جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ  بھی راضی رہے گا جبکہ والدین کو تکلیف و اذیت پہنچاکر انہیں ناراض کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا بھی سبب ہوگا ۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی ناراضی زیادہ بھیانک اور لرزہ دینے والی بات ہے۔ سعادت مند اور خوش نصیب ہے وہ اولاد جو والدین کو خوش رکھنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔
    ایک روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک  حج  و عمرہ اور جہاد میں شرکت سے کم نہیں۔ والدین کی خدمت و فرمانبرداری کا ثواب گویا حج و عمرہ اور جہاد کے برابر ہے۔ حضرت  انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ ایک شخص رسول اللہ  کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں لیکن اس کی قدرت نہیں ۔  رسول اللہ نے دریافت فرمایا:
      " کیا تمہارے والدین میں  سے کوئی زندہ ہے۔؟"  
    اس شخص نے کہا ہاں میری والدہ زندہ ہے۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا  :
    " ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرکے اللہ تعالیٰ سے ملو، اگر تم نے  ایسا کیا تو تم حج کرنے والے، عمرہ کرنے والے اور جہاد کرنے  والے (کی طرح) ہو۔" (الترغیب و الترہیب)۔
    والدین کے ساتھ حسن سلوک گناہوں کی بخشش کا باعث ہے۔ اس سے نہ صرف چھوٹے گناہ معاف ہوتے ہیں بلکہ یہ نیکی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑے بڑے گناہوں کا بھی کفارہ بن جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓروایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ  کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ () !مجھ سے ایک بڑا گناہ سرزد ہوگیا کیا میرے لئے توبہ کی گنجائش ہے؟  رسول اللہ نے ان سے دریافت  فرمایا:
      "  کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟"
    اس نے کہا نہیں۔ آپنے پوچھا:
     " کیا تمہاری خالہ زندہ ہے؟" اس نے جواب دیا ہاں، آپ نے فرمایا  :    " پس تم ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہو۔"(مسند احمد، ابن حبان، ترمذی) ۔
    احسان  کابدلہ  احسان ہی کی صورت میں ہونا چاہیئے۔ والدین کے اولاد پر جو عظیم احسانات ہوتے ہیں، وہ اپنی راحت و آرام کو قربان کرکے، مصائب و آلام کو برداشت کرکے، جس پیار و محبت اور بے پناہ شفقت کے ساتھ اولاد کی پرورش کرتے ہیں، ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید دراصل ان کے عظیم احسانات کا معمولی سا صلہ اور بدلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے عظیم احسانات کا بدلہ کوئی اولاد نہیں دے سکتی  اسی لئے اپنی طرف سے امکان بھر کوشش کیساتھ ساتھ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کی بھی تلقین کی گئی کہ تم یوں کہو:
      " اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے (رحمت و شفقت کے ساتھ) بچپن میں میری پرورش کی۔" (الاسراء۔ 24 ) ۔    
    حضرت  ابوہریرہ ؓ ،رسول اللہ  کا ایک ارشاد گرامی یو ں نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
     " کوئی لڑکا اپنے والد کے احسانات کا بدلہ چکا ہی نہیں سکتا ہاں سوائے اس کے کہ وہ اپنے والد کو  غلام پائے اور خرید کر آزاد کردے۔" (صحیح مسلم) ۔
    حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک یمنی شخص کو دیکھا کہ وہ اپنی والدہ کو پیٹھ پر اٹھائے طواف کروا رہا ہے اور ساتھ یہ شعر پڑھتا جارہا ہے (ترجمہ:  سوار کو ڈراتا ہے لیکن میں  ان کو خوف زدہ نہیں کرتا) پھر طواف کے بعد  اس نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے دریافت کیا ، آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میں  نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا؟ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا، نہیں  ہرگز نہیں(عورت ولادت کے وقت جس تکلیف و مصیبت سے دوچار ہوتی ہے اس وقت کی) ایک آہ کا بھی یہ بدلہ نہیں۔ " (الادب المفرد وبیہقی)۔
    والدین کی خدمت  اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی بے پناہ تاکید کے  پس منظر میں ضرور یہ سوال پیدا ہوگا کہ والدین اگر کافر و مشرک ہوں، یا وہ کفر و  شرک اورخلافِ شریعت امور کا حکم کریں، ایسی صورت میں وہ راضی و خوش رہیں تو ایسی صورت میں اولاد کا کیا رویہ ہونا چاہیئے؟ اس حوالے سے بھی کتا ب و سنت میں واضح رہنمائی موجود ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق والدین سے بڑھ کر ہے لہذا کفر وشرکت ، خلاف شریعت کام اور اللہ کی ناراضی والے امور میں والدین کی یا کسی کی بھی اطاعت جائز نہیں۔ اسی  طرح والدین کے کفر و شرکت کے باوجود دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک، ان کا ادب و احترام اور ان کی خدمت و فرمانبرداری ضروری ہے۔  اسلام اس سے منع نہیں کرتا بلکہ اس کی ترغیب دیتا اور تاکید کرتا ہے۔ قرآن پاک میں ایک جگہ والدین کیساتھ حسن سلوک کی تاکید کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " اور اگر دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تُومیرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تُو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو، تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے، تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کردوں گا۔"(لقمان  15  نیز دیکھئے، العنکبوت 8 )
    کفرو شرک کے علاوہ دیگر معاصی کا بھی یہی حکم  ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ کا یہ واضح ارشاد  گرامی ہے کہ " اللہ کی نافرمانی میںکسی کی اطاعت نہیں۔" (مسند احمد)۔
    آیات ِ بالا کے شان نزول کے بارے میں روایت ہے کہ یہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں نازل ہوئیں۔ وہ جب مسلم ہوئے تو  والدہ نے ناراض ہوکر کہا کہ یہ  نیا دین تم نے  اختیار کرلیا؟ تم اس کو جب تک نہیں چھوڑو گے میں نہ کھاؤں گی نہ کچھ پیوں گی۔ حضرت سعد ؓوالدہ کے بڑے فرمانبردار تھے،لوگ انہیں  عار دلانے لگے۔ والدہ ضد پر قائم رہیں،3 دن گزر گئے۔ یہ سمجھاتے رہے بالآخر دوٹوک انداز میں کہہ دیا کہ میری ماں! اللہ کی  قسم اگر آپ کے جسم میں سو جان ہوں اور وہ ایک  ایک  کرکے نکلے تب بھی  میںاپنا دین نہیں چھوڑوں گا (ملاحظہ ہو، تفسیر ابن کثیر ، تفسیر سورہ لقمان نیز صحیح مسلم کتاب فضائل الاصحابہ)۔
    اسی طرح حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ روایت کرتی ہیں کہ صلحِ حدیبہ کے زمانہ میں (جبکہ رسول اللہ  اور مشرکین مکہ کے درمیان  جنگ بندی کا معاہدہ ہوچکاتھا) میری والدہ میرے پاس آئیں اس وقت تک وہ مشرکہ تھیں اور مجھ سے مالی تعاون چاہتی تھیں۔ میں نے رسول اللہ سے دریافت کیا کہ کیا اپنی والدہ کے ساتھ (ان کے شرک کے باوجود)     صلۂ رحمی کا برتاؤ کروں؟ آپنے فرمایا’’ ہاں تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔‘‘(متفق علیہ) اسی طرح رئیس المنافقین  عبداللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے مسلمان ہوچکے تھے۔ وہ رسول اللہ کے مخلص صحابی اور اپنے  والد کے فرمانبردار بھی تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہاکہ یا رسول اللہ()! اس ذات کی قسم جس نے آپ()پر کتاب اتاری  اگر آپ()چاہیں تو میں ان کا (یعنی اپنے والد کا) سر آپ()کی خدمت میں پیش کردوں؟ رسول اللہ نے فرمایا’’نہیں ایسا نہیں کرو بلکہ  والد کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ (مسند بزارو صحیح ابن حبان)۔
    الغرض کتاب و سنت کی یہ واضح تعلیمات  ہیں کہ والدین کافر و مشرک ہوں اور کفر و شرک پر جمے رہیں تب بھی دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا  البتہ کفر و شرک اور معصیت ِ الہٰی میں ان کی اطاعت جائز نہ ہوگی۔

شیئر: