Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

786، حقیقت یا فسانہ؟

محمد منیر قمر۔ الخبر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کی جگہ786کے عدد لکھنے کا رواج برصغیر میں ایک عرصے سے چلا آ رہا ہے  اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بعض دینی و علمی مضامین اور کتابوں میں بھی  بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  کی بجائے786 لکھنا شروع کر دیا گیا ہے۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کے اعداد کو اس کا بدل یا قائم مقام سمجھ کر لکھنا‘ قرآن و سنت کی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ اس کی بنیاد عبرانی صحائف کے22حروفِ تہجی اور ان کے مترادف اعداد پر ہے۔ ان کے ذریعہ سے یہود کے صحائف کے رموز و معانی دریافت ہوتے ہیں جس کی عملی صورت یہ ہے کہ الفاظ کو اعداد میں تحویل کیا جائے۔ یہ بڑی سہل ترکیب ہے کیونکہ الفاظ جن حروف پر مشتمل ہیں اُن کی عددی قیمتوں کو جمع کر لیا جائے اِس طرح ہمیں ان مقدس عبارتوں کا عددی بدل حاصل ہو جاتا ہے جو اس علم کے حامیوں کے نزدیک ویسے ہی تقدس کا حامل  ہے۔
یہ علم مسلمان نُدرت پسندوں نے حاصل کیا‘ جسے عرف عام میں ابجد کہتے ہیں۔ ایک مغربی محقق تھامسن پیٹرک ہیولز اپنی تالیف ’’ڈکشنری آف اسلام‘‘ میں ابجد کی توضیح ان الفاظ میں کرتا ہے’’یہ حروف تہجی کی ریاضیاتی طور پر ترتیب کا نام ہے جس میں حروف کی عددی قیمت متعین ہوتی ہے جو  1سے  لے کر 1000 تک مقرر ہے۔ ‘‘
حروف ابجد کا خاکہ درج ہے:
*حروف:ا ب ج د،عددی قیمت:4,3,2,1،عربی الفاظ:ابجد۔
*حروف:ھ  و  ز،عددی قیمت:7,6,5،عربی الفاظ:ھوّز۔
*حروف:ح ط ی، عددی قیمت:10,9,8،عربی الفاظ:حُطّی۔
*حروف:ک ل م ن،عددی قیمت:50,40,30,20، عربی الفاظ:کلمن۔
*حروف:س ع ف ص،عددی قیمت:90,80,70,60،عربی الفاظ:سعفص۔
*حروف :ق ر ش ت،عددی قیمت:400,300,200,100،عربی الفاظ:قرشت۔
*حروف:ث خ ذ، عددی قیمت:700,600,500،عربی الفاظ:ثخذ۔
*حروف: ض ظ غ،عددی قیمت:1000,900,800، عربی الفاظ:ضظغ۔
  جب مسلمانوں نے یہود کے علمِ کبالا سے استفادہ کر کے جی میٹریا کا علم حاصل کیا تو پھر اس کا قرآنِ مجید کی آیاتِ مبارکہ بلکہ سورتوں پر اطلاق بھی  ایک ایسا عمل تھا جو ہمارے جسارت کوش نُدرت پسندوں کیلئے مشکل نہ تھا  چنانچہ انہوں نے اس کا مصحف پاک پر بے دھڑک استعمال کیا۔ اس میں سب سے عام جس سے ہرکس و ناکس واقف ہے بِسْمِ اللّٰہِ… شریف  کیلئے 786 کا استعمال ہے جو خطوط اور ہر قسم کی تحریروں مثلاً کتابوں‘ مجلّوں اور مقالوں میں بہ شدتِ تمام نظر آتا ہے  اور یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ786 واقعی  بِسْمِ اللّٰہِ… شریف کا بدل ہے۔ درحقیقت یہ ہر گز بِسْمِ اللّٰہِ… شریف کا بدل یا مترادف نہیں۔ یہ کسی طرح بھی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم   کا ہم مضمون و ہم معنی نہیںبلکہ محض عدد ہے کیونکہ786کا اطلاق تو کسی چیز پر بھی کیا جا سکتا ہے، مثلاً786ظرفِ شراب‘ جڑی بوٹیاں وغیرہ وغیرہ‘ وہ اچھی ہوں یا بری‘ حرام ہوں یا حلال‘ یہ کسی صورت میںبھیبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کا بدل ہر گز نہیں بن سکتا۔
  اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کو عربی زبان میں نازل کیا ہے تا کہ لوگ اس کو سمجھ سکیں اور ہدایت یاب ہوں۔ اگر اعداد ہی سے مقصد حاصل ہو سکتا تو یہ آسان طریقہ کیوں اختیار نہیں کیا گیا؟ کیا نعوذ باللہ ذاتِ باری تعالیٰ سے غلطی سرزد ہوئی  ہے جسے ہمارے علماء درست کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں؟ اگر اعداد کی شکل میں وحی نازل کی جاتی تو اس سے بنی نوعِ انسان کو کیا حاصل ہوتا؟ ہمیں اوّل تا آخر اعداد ہی کا لا متناہی سلسلہ دکھائی دیتا۔ ہمیں تو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہم قرآنِ مجید کی تلاوت کریں’’اور یہ قرآنِ مجید ہے جس کو ہم نے (پاروں اور رکوعوں) میں تقسیم کیا ہے تا کہ تم وقفوں وقفوں سے اس کی تلاوت کرو  اور ہم نے اسے (یکے بعد دیگرے) تنزیلات میں نازل کیا ہے۔‘‘ 
اگر قرآنِ مجید اعداد میں منتقل کر دیا جائے تو سورۃ فاتحہ کو قارئین کی سہولت کیلئے اعداد میں رقم کیا جاتا ہے۔
سورئہ فاتحہ کا عددی کالم:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 787
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ 632
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 618
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ 242
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ ِایَّاکَ نَسْتَعِیْنُ      836
اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ 1073
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ    1807
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ  4194۔ 
کل عدد 10189
کیا اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ فقط 10189ہی کو زبان پر لانے سے سورۃ فاتحہ کا مقصد پورا ہو جائے گا اور ہم ساری کی ساری سورت پڑھ لیں گے؟ اس مبارک سورت کو10 بار پڑھنے کیلئے10189x10=101890اس طرح تمام قرآن مجید کو اعداد میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ کیا یہ اعداد واقعی با معنیٰ ہوں گے اور ان سے وہی نتیجہ حاصل ہوگا جو بالذات آیاتِ قرآنی سے حاصل ہوتا ہے؟ کیا ان میں ہدایت یا پیغامِ ربانی کا اقل قلیل بھی ہے ؟ سچ پوچھا جائے تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جن اصحاب نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے انہوں نے ہر گز دین کی خدمت نہیں کی بلکہ وہ ایک بدعت کو رواج دینے کے مجرم ہیں  لہٰذا میں قارئین کرام اور پیروانِ اسلام سے پُر زور التماس کروں گا کہ وہ اس روش کو ترک کر دیں۔ یہ کوئی مستحسن کام نہیں بلکہ غلط الزام ہے  بلکہ میں تو یہ کہوں گے کہ یہ قرآن مجید کے خلاف سازش ہے۔‘‘ ( ماہنامہ صراط مستقیم‘ برمنگھم‘ برطانیہ) 
  حقیقی بات تو یہ ہے کہ اسے فرقہ ’’باطنیہ‘‘ نے رواج دیا تھا اور ان کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ اس علم سے ’’راز‘ راز‘‘ میں اپنا کام لیا جائے۔ شعبۂ جاسوسی میں ہر خفیہ تنظیم کے اپنے اپنے کوڈ وَرڈز یعنی خفیہ اشارات یا خفیہ زبان ہوتی ہے تا کہ کوئی غیر اس سے آگاہ نہ ہو اور معاملات کی ادائیگی میں آسانی ہو چنانچہ شیعہ کے فرقہ باطنیہ نے علم الاعداد کو رواج دیا اور اپنے تمام تر مکتوب اور پیغام کا ذریعہ بنایا۔
باطنیہ فرقہ وہی ہے جس کا ایک رہنما حسن بن صباح تھا جس نے ’’قلعۃ الموت‘‘بنایا تھا  اور عالم اسلام میں جس کے ارکان جنہیں ’’فدائی‘‘ کہا جاتا تھا تخریب کاری میں سرگرم تھے۔ آج بھی ملنگ اور خود ساختہ پیر اپنے تعویذات علم الاعداد میں لکھتے ہیں اور گفتگو میں رمزیہ کلمات کہتے ہیں۔ ملنگوں اور پیروں کا سلسلہ ایک ہی ہے اور برائے نام تصوف کی جڑیں بھی اسی باطنیہ سے جا ملتی ہیں۔
 
 
 

شیئر: