معروف شاعر انور شعور کا پورا نام انورحسین خان ہے ۔یوسف زئی پٹھان ہیں۔ نعت خوانی کے شوق نے شاعر بنادیا۔ 10سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کئے۔ 15سال میںمیر انیس کا پورا کلام پڑھ ڈالا۔4مجموعے اندوختہ، مشق سخن ، می رقصم اور دل کا کیا رنگ کروں؟ منظر عام پرآچکے ہیں۔انور شعور کی شناخت غزل گو شاعر کی ہے لیکن قطعہ نگاری میں اپنی شاخت بنائی اور نئی تاریخ رقم کی۔ نثرمیں بھی اپنے نقش چھوڑے ہیں ۔ بڑے زبردست کالم لکھے جس میں فکر بھی تھی اور دانش بھی۔ انور شعور کا کہنا ہے کہ اچھی نثر لکھنا بہت مشکل ہے، بری نثر لکھنا بے کار۔ اس لئے غزل پر زیادہ توجہ دی۔ انور شعور کے کلام میں وسعت نظر آتی ہے۔ روایت سے ہٹ کر شاعری کی۔ ان کی، غزل ناقدین کی نظر میں" مکمل غزل" ,ٹہری۔ انور شعور کے بقول میں نے اپنی غزل میں محبوباؤں کے دکھڑے نہیں روئے۔ "محبوب کی باتیں کرنا "یہ غزل کی پرانی تعریف ہے۔ غزل کی نئی تعریف "صرف باتیں کرنا "ہے۔ اس میں وسعت ہے۔انور شعور کو شکایت ہے کہ ادب میں بھی راستے روکے جاتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے میرا کلام لوگوں تک نہیں پہنچا اور جو پہنچا وہ مقبول ہوا تاہم انہیں کسی سے گلہ نہیں۔ کراچی میں اردونیوز کے ساتھ طویل نشست میں انہوں نے حال دل بیان کیا جو قارئین کی نذر ہے۔
انٹرویو۔۔۔خالد خورشید ۔ جدہ
مرے سینے میں بھی اک دل چھپا بیٹھا ہےدنیا سے
عیاں کردوں اگر انصاف کا اقراردے کوئی
٭آپ کا تعلق کہاں سے ہے ،بچپن کہاں گزرا؟
٭٭ ہمارا خاندان 1947ء میں بحری جہاز کے ذریعے ممبئی سے کراچی منتقل ہوا۔ ویسے آبائی تعلق فرخ آباد (یوپی) سے ہے لیکن میری پیدائش ساگر(مدھیہ پردیش) کی ہے۔ اس زمانے میں لوگ ایک ریاست سے دوسری ریاست ملازمت کے لئے جایا کرتے تھے۔ میرے دادا کو بھوپال میں پولیس کی ملازمت ملی۔ اس سے پہلے انہیں رائل انڈین آرمی میں کمیشن ملا تھا لیکن اسے چھوڑ کر پولیس میں آگئے ۔ وہیںریٹائر ہوئے اور انکا انتقال بھی وہیںہوا البتہ والد صاحب ممبئی آگئے تھے ۔ کراچی آنے کے بعد ہمارا پہلا قیام رنچھوڑلائن بوہرہ پیر کے علاقے میں تھا۔ ابتداء میں این جے وی اسکول میں داخل کردیا گیا پھر حسینی اسکول ناظم آباد میں رہا لیکن پڑھ کر نہیں دیا۔ گھر سے کتابیں لیکر ضرور سے نکلتا تھا لیکن آوارہ گردی کے بعد گھر لوٹ آتا ۔ اسکول میں نعت خوانی کے باعث میری غیر نصابی اہمیت مسلمہ تھی اس لئے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ گلیوں میں گلی ڈنڈا ، کنچے اور کرکٹ کھیلی۔ نیٹی جیٹی پہنچ کر تیراکی کی مشق بھی کرتا رہا تاہم اس زمانے میں والدین کی ایک" بری "عادت یہ تھی کہ وہ معلومات رکھتے تھے کہ ان کا بچہ کیا کر رہا ہے۔ والد کو میری حرکتوں کا پتہ چلا تو انہوں نے خوب پٹائی کی جس پر گھر سے بھاگ گیا۔ اس وقت پانچویں کلاس میں تھا۔ اسکے بعدکبھی اسکول کی شکل دیکھی اور نہ گھر گیا۔ کراچی سے ٹرین میں سوار ہوکر حیدرآباد جاپہنچا۔ وہاں دل نہ لگا تو کوئٹہ گیا۔ کچھ عرصے بعد کراچی کی کشش دوبارہ کھینچ لائی۔ بے گھری سے قبل شاعری کا" مرض" اپنی گرفت میں لے چکا تھا ۔
٭گھر چھو ڑنے کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
٭٭ اس قدر لاپروا زندگی گزاری ہے کہ مجھے تو تباہ ہوجانا چاہیے تھا۔ خود کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن تباہ نہیں ہوا تو میں کیا کروں؟۔ سچی بات کہوں تو بری عادتوں کے باوجود زندگی اس طرح گزری کہ مسائل محسوس ہی نہیں ہوتے تھے۔ کبھی ایسی کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی جو دور نہ ہوسکی۔ کوئی بہت بڑا سانحہ یا غم زندگی میں نہیں آیا۔ وقت پر سب اچھا ہی ہوتا چلاگیا۔گھر چھوڑنے کے بعد بھی سایہ ملا۔ اچھے لوگ ملے، ہر موقع پر کوئی نہ کوئی سبیل پیدا ہوئی۔ حالات اور قدرت مجھ پر مہربان رہی ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا کہ اس کیفیت میں ہوں کہ میر ا کوئی دوست نہیں ہے لیکن میں دوستوں کے معاملے میں خوش قسمت رہا ،ناقدری کی کوئی شکایت نہیں ۔ میرے خیال میں دنیا میں اچھے لوگ زیادہ ہیں اور برے کم اسی لئے کاروبار عالم چل رہا ہے ۔ حال ہی میںسگریٹ 50سال پینے کے بعد چھوڑی ۔" گلاس "کو بھی اب ہاتھ نہیںلگاتا۔ ایک دن خیال آیا کہ سگریٹ چھوڑ دینی چاہیے بس ترک کردی۔ میرا تو لکھنا پڑھنا سگر یٹ کے ساتھ تھا۔ ایک طرح سے محتاجی کہیے۔ بری عادتیںترک کرنے پر لکھنے پڑھنے میں دشواری ہوئی اور اب تک ہورہی ہے لیکن تہیہ کررکھا ہے انہیں ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔
٭شاعری کا" مرض "کہاں سے لگا؟
٭٭ ہمارا مذہبی گھرانہ تھا۔والد صاحب کے ساتھ باقاعدگی سے مسجد جایا کرتا تھا۔ نعتیں سن کر نعت خوانی کا شوق پیدا ہوا۔ با قاعدہ قرآت بھی سیکھی۔ آواز اچھی تھی، لوگوں نے حوصلہ افزائی کی ۔ اردو اور فارسی کی کئی نعتیں یاد ہوگئیں۔ اسی سے شعر کی طرف خودبخود رجحان بڑھنے لگا۔ 10برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کردئیے تھے۔یو ں کہیے مسجد اور مدرسے سے شاعری کی ابتدا کی۔ 12برس میں" جنگ "کے بچوں کے صفحے پر میری نظمیں چھپنا شروع ہوگئی تھیں۔ گھر چھوڑنے کے بعد وقت بہت تھا مشق سخن جاری رہا۔ اگرچہ اسکول میں پڑھ نہیں سکا لیکن مطالعے کا شوق تھا۔ پاکستان آنے کے بعد والدہ شدید بیمار ہوگئیں اور بستر سے لگ گئیں۔ انہیں مطالعے کا شوق تھا۔ آنہ لائبریری سے ان کے لئے کتابیں لاتا تھا۔" عصمت" اور" بنات" کے علاوہ بچوں کے رسالے اور اخبار باقاعدگی سے آیا کرتے تھے۔والدہ کی وجہ سے مطالعے کا شوق پیدا ہوا جو آج تک ہے ۔اسی وجہ سے میرا رجحان لکھنے پڑھنے کی طرف بھی ہوگیا۔ گھر چھوڑنے کے باوجود میرا اٹھنا بیٹھنا پڑھنے لکھنے والوں میں رہا۔ مطالعے کے شوق نے شاید کسی تعلیمی ادارے سے ڈگری لینے کی کسر بھی نکال دی ہے۔
٭ شاعری میں آپ کے استاد کون رہے۔ آجکل استادی شاگردی کا رواج کیوں ختم ہوتا جارہا ہے؟
٭٭ رنچھوڑلائن کی صابری مسجد میں ناظرہ قرآن پڑھنے جاتا تھا ۔ وہاں مولانا افسر صابری استاد تھے جو کہنہ مشق شاعر بھی تھے۔ انہوں نے شاعری کی طرف ذوق و شوق دیکھا تو میری طرف توجہ دی۔ 12سال کی عمر تک شاعری کی ابتدائی باتیں سیکھ چکا تھا۔ مولانا افسر صابری میرے پہلے استاد تھے انہوں نے شاعری کے محاسن و معائب ، رموز و قواعد بحر اور دیگر سبق گھول کر پلا دئیے تھے ۔ انہوں نے مجھے ایک نعت بھی لکھ کردی جو مشاعرے میں پڑھی۔ بعد میں یہ نعت میرے نام سے شائع بھی ہوئی۔ بدقسمتی سے مولانا افسر صابری کا جلدہی انتقال ہوگیا۔ بعد میں تابش دہلوی اور سراج الدین ظفر سے اصلاح لیتا رہا۔ یوں ابتدائی دور کے میرے 3اساتذہ ہیں ۔ آج بھی میں استاد کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ اب تو استاد شاگردی کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے استاد شاعر سخت محنت ، لگن اور مطالعے کے باوجود اچھا شعر نہیں کہہ پاتے۔ سخن شناسی ختم ہوگئی ہے۔ کچھ شاعری تو فضول بھی ہورہی ہے۔ سیکھنے کا رواج ختم ہونے کے بعد کوئی مستند شاعر نظر نہیں آتا۔ لوگ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں ، فیض اور اقبال بھی کسی کے شاگرد تھے۔شاعری بھی تمام فنون کی طرح ایک فن ہے جو سیکھنے سے آتا ہے۔
٭ شاعری کے لئے کسی خاص کیفیت کا ہونا ضروری ہے ؟
٭٭شاعری کے لئے کوئی خاص کیفیت ضروری نہیں البتہ آپ کا ذوق ، حالات، جذبات اور ماحول اثر انداز ہوتا ہے۔ شاعری کا تعلق موسم سے بھی نہیںہوتا ،دلی جذبات سے ہوتا ہے۔میرے نزدیک شاعری تو ہے ہی زندگی کے اظہار کا نام ۔جو دل میں ہے وہ زبان پر آجاتا ہے۔والدہ کے انتقال پر ایک شعر کہا تھا۔ ہم تم کو روتے ہی نہ رہتے اے مرنے والو مر کے اگر پاسکتے تم کو تو مرجاتے ہم بھی اور پھر گھر سے بھاگنے پر شعر کہا: بازاروں میں پھرتے پھرتے دن بھر بیت گیا کاش ہمارا بھی گھر ہوتا گھر جاتے ہم بھی ظاہر ہے یہ اشعار حالات کے مطابق تھے۔ اصل میں لکھنے کا عمل بڑا ہی پر اسرار ہوتا ہے جیسے آپ پھول کی خوشبو محسوس کرسکتے، بیان نہیں کرسکتے۔ بالکل اسی طرح شعر کا خیال کیا ہے اور کیا نہیں یہ بیان نہیں کیا جاسکتا اس لئے میں شعروں کی تشریح نہیں پڑھتا براہ راست شعر پڑھنا ہی مزہ دیتا ہے۔
٭ پاکستان میں سیاسی قطعہ نگاری رئیس امروہوی نے شروع کی، آپ اس طرف کیسے آئے؟
٭٭ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں روزنامہ جنگ شائع ہونا شروع ہوا۔ اس کے ساتھ رئیس امروہوی کے قطعات بھی چھپنے لگے ۔ رئیس امرو ہوی نے مہاتما گاندھی کے قتل پر پہلا قطعہ لکھا تھا۔ گالیاں کھاکے ، گولیاں کھاکے مرگئے اف مہاتما گاندھی رئیس امروہوی کے بعد سیماب اکبرآبادی نے انجام اخبار میں قطعات لکھے ۔ اب تو ہر اخبار میں سیاسی قطعات چھپ رہے ہیں لیکن سیاسی قطعات کی روایت جنگ میں پنپی۔ جنگ میںہی شائع ہونے والے قطعات کو پڑ ھااور پسند کیا گیا۔ دوسرے قطعات زیر بحث بھی نہیں آئے۔ رئیس امرو ہوی 1948ء سے 1988ء تک مستقل قطعات لکھتے رہے۔ان کے بعد میں نے جنگ میں قطعات لکھنا شروع کئے اور ان کی گدی سنبھالی۔ اس سے پہلے روزنامہ" اعلان" اور" امن" میں بھی قطعات چھپتے رہے ہیں۔ معروف صحافی حسن عابدی قطعات پر مجھ سے بات کرتے اور حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ انہوں نے کہا تھا اور میرا بھی یہی خیال ہے کہ سیاسی قطعہ لکھنے کے لئے 2خصوصیات ہونا ضروری ہے۔ ایک آدمی شاعر ہو اور دوسرا صحا فتی مزاج رکھتا ہو۔ ان میں ایک بھی چیز کم ہوگی تو وہ قطعہ نہیں لکھ سکے گا۔مجھے بچپن سے اخبار پڑھنے کا شوق تھا۔ اخبار پڑھنے والا نیم صحافی تو ویسے ہی بن جاتا ہے۔ اس لئے شاعری اور سیاسی قطعہ نگاری دونوں کو ساتھ لے کر چل رہا ہوں۔ سیاسی قطعات کا سلسلہ بہت پھیلا ہوا ہے۔ اس کا انتخاب ایک مشکل کام ہے۔ مجموعہ چھپوانے کا وقت نہیں مل سکا۔ ارادہ تو ہے، دیکھئے کامیابی ملتی ہے یا نہیں ۔ ویسے بھی غزل کا شوق زیادہ ہے۔ قطعہ نگاری کو آپ میری شاعری کی بائی پراڈکٹ کہہ سکتے ہیں۔
٭ بچوں کا ادب بھی لکھا ،یہ آسان کام لگا یا مشکل؟
٭٭ بچوں کا ادب لکھنا آسان کام نہیں۔ اس کے لئے متخصص (یعنی ماہر) ہونا ضروری ہے ۔ بچوں کے لئے لکھنا اور مزاح نگاری دونوں مشکل کام ہیں۔ اسماعیل میرٹھی نے بچوں کے ادب میں بہت نام پیدا کیا ۔ آج تک ان جیسا ادب کوئی نہیں لکھ سکا۔ میرے نزدیک بچوں کے لئے لکھنے والے کو بہت بالغ نظر ہونا چاہیے۔ اس میں ایک بچہ بھی ہونا ضروری ہے۔ جب بچوں کے لئے لکھا تو میرے اندر بھی ایک بچہ موجود تھا لیکن یہ سلسلہ بچپن تک محدود رہا۔ بعدمیں میرے اندرکا بچہ مجھے کہانیاں لکھنے کے لئے آمادہ نہیں کرسکا جس طرح شاعری خود بخود ہوجاتی ہے۔ کہانیاں بھی کسی منصوبے کے بغیر لکھی جاتی ہیں۔
٭ اردو زبان کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں،کیا اسکے ختم ہونے کا کوئی امکان ہے؟
٭٭ اردو زبان توپوری دنیا میں پھیل رہی ہے تاہم اس کی شکل ضرور بدلتی جارہی ہے۔اس کے ختم ہونے کا امکان تو مجھے نظر نہیں آتا۔ اردو کی شکل بدلنے سے میری مراد زبان کی ترقی ہے لیکن جہاں تک ممکن ہو اسکے بگاڑ پربھی توجہ دینا ہوگی۔ جب زبان کے بگاڑ کا احساس ہوجائے تو اس کے سدھار پر بھی توجہ دی جائیگی۔ اردو میں ایک ایسی کشش ہے کہ قدرتی طور پر نشوونما پاتی ہے۔ پوری دنیا میں آپ کو اردو بولنے والے ملیں گے۔ اردو کی اپنی ایک الگ دنیا ہے۔ کسی بھی خطے میں چلے جائیں آپ کو وہاں کی زبان شاید بولنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ویسے اردو کو ایک نقصان رومن رسم الخط سے بھی ہورہا ہے ۔ میرے نزدیک رسم الخط کسی زبان کا لباس نہیں بلکہ کھال ہوتی ہے اور کھال کو اتارنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اس لئے اردو لکھنے کے لئے اردو رسم الخط ہی چلے گا۔ بہتر سے بہتر اردو لکھی جائے اس کے ساتھ غلطیوں کی نشاندہی اور اس کے سدھار کا عمل بھی ساتھ چلتے رہنا چاہیے۔
٭ آپ کے نزدیک اردو شاعری کی عمارت کن ستونوں پر کھڑی ہے؟
٭٭ اردو شاعری کی پوری عمارت 5ستونوں پر قائم ہے۔ ان میں میر، غالب، اقبال، میر انیس اور فیض احمد فیض شامل ہیں۔ جہاں تک میرے پسندیدہ شعراء کی بات ہے ان میں فیض احمد فیض سب سے آگے ہیں۔ یوں کہہ لیں ان سے عشق ہے اس کے بعد ناصرکاظمی کا نام لے سکتے ہیں ۔ ناصر کاظمی تو فیض احمد فیض کو بھی پسند تھے اور انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا ۔ مجاز، منیر نیازی اور احمد مشتاق کو بھی ذاتی طور پر پسند کرتا ہوں ۔ سراج اورنگ آبادی، ولی دکنی ، میر درد، میر انیس ، علامہ اقبال، داغ، حالی اور حسرت موہانی کے بغیر اردو شاعری مکمل نہیں ۔ مجھے غالب کی شاعری نے بھی متاثر کیا ۔ میر کو اتنا مانتا ہوں جتنا غالب نے مانا تھا اور غالب کو اتنا مانتا ہوں جتنا اقبال نے مانا تھا۔ ویسے پسندیدہ شعراء کے ناموں سے کسی شخص کی ذہنی ساخت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ جو بھی شاعر پسند آئے یقینا اس کا کوئی نہ کوئی فیض آپ کے یہاں بھی آتا ہے ۔ بظاہر محسوس نہ ہو لیکن ایسا ممکن نہیں کہ اس کی کوئی جھلک آپ کی شاعری میں نہ ملے۔
٭ انجمن ترقی اردو میں پہلی ملازمت کی ، وہاں کیسا ماحول تھا؟
٭٭ جمیل الدین عالی کے توسط سے 1964ء میں انجمن ترقی اردو میں 200روپے ماہوار پر ملازمت ملی ۔ وہاں پڑھنے اور مطالعے کا موقع ملا ۔ مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ اپنے ہم عصروں میں اردو کا بیشتر ایسا کلام جو صرف مخطوطات کی شکل میں موجود اور محفوظ ہے کہیں چھپا نہیں وہ میرے ہم عصروں کی نظروں سے نہیں گزرا پرمیری نظروں سے گزرا اور اسے پڑھا ہے۔ اس کا مجھے فائدہ بھی بہت ہوا۔ 1967ء میں ہفت روزہ اخبار جہاں کا اجراء ہوا تو وہاں ملازم ہوگیا، نذیرناجی پہلے ایڈیٹر تھے۔ نعیم آروی ، احفاظ الرحمن، شاہد صدیقی اور منیر الدین منیر ایک ساتھ آئے۔ نذیر ناجی بعد میں لاہور سے عبدالکریم عابد اور محمود شام کو بھی لائے۔ مجیب الرحمن شامی بھی کچھ دنوں کے لئے اخبار جہاں سے وابستہ ہوئے۔ مجھے یاد ہے اخبار جہاں کا پہلا شمارہ40ہزار چھپا تھا۔ اس کی تشہیر بھی خوب کی گئی تھی۔
٭ سب رنگ میں طویل عرصے کام کیا اسکے بند ہونے کا قلق ہے؟
شکیل عادل زادہ نے سب رنگ شروع کیا تو ان کے ساتھ معاون مدیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کیں۔ ضرورت پڑنے پر لکھا بھی لیکن اصل کام کہانیوں اور مضامین میں تصحیح کرنا تھا۔ اپنی زندگی میں جس جگہ ٹک کے کام کیا وہ سب رنگ تھا۔ اس کے بند ہونے کا آج تک قلق ہے۔شکیل عادل زادہ جس معیار کا پرچہ نکالتے تھے وہ ان کے ہی بس کی بات تھی۔ انہوں نے تاجر یا صحافی بن کر پرچہ نہیں نکالا بلکہ فنکار بن کر نکالا۔ سب رنگ کی اشاعت اس قدر زیادہ تھی کہ اگر وہ اپنے معیار سے کمزور پرچہ بھی دیتے تو شاید وہ چلتا رہتا۔ معیارپر سمجھوتہ عادل زادہ کو گوارہ نہیں تھا۔ جب تک انہیں اطمینان نہیں ہوتا تھا پرچہ چھپنے کے لئے نہیں جاتا تھا۔ چاہے انہیں کتنا ہی فائدہ کیوں نہ ہورہا ہو۔ ایسا تو صرف فنکار ہی کرسکتا ہے۔ شکیل صاحب میں جب تک توانائی رہی پرچہ نکلتا رہا۔ میرے خیال میں انہیں ان کے مزاج کے مطابق لکھنے والے نہیں ملے۔ خود کہاں تک لکھتے، بہت تھک گئے تھے۔پھر مالی مشکلات بھی تھیں۔
٭ ترقی پسند تحریک سے بھی آپ وابستہ رہے ۔ اردو ادب میں اس کا کیا کردار رہا؟
٭٭ ترقی پسند تحریک نے اردو میں بڑا کام کیا ہے۔ 1936ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا پہلا اجلاس پریم چند کی صدارت میں ہوا تھا۔ ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر بہت اثر ڈالا ہے۔ میرے نزدیک نثر یا شعر کے قدیم رنگ کو جدیدیت تک لانے میں ترقی پسند تحریک کا بڑا ہاتھ ہے۔ کرشن چندر کے بقول یہ بہت بڑا قدم ہے لیکن اسے ترقی کی راہ کا حرف آخر نہیں کہا جاسکتا۔ ترقی پسند تحریک اپنا کام کرچکی۔ اب اردو ادب اس سے آگے نکل آیا ہے۔ اس تحریک نے ہمیں شاعری میں فیض احمد فیض دیا۔ نثر میں بے شمار لوگ ہیں اس کا جواب آج تک نہیں آیا اور نہ آثار نظر آرہے ہیں۔
٭ سلیم احمد نے بھی حلقۂ ادب قائم کیا ، اس کے ادب پر اثرات پڑے؟
٭٭ سلیم احمد نے جو حلقۂ ادب قائم کیا اسے میں رجعت پسند کہوں گا ۔ اردو ادب کے فروغ میں ان کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا۔ سلیم احمد ذہین آدمی ضرور تھے۔ شاعری سمجھتے بھی تھے لیکن وہ ترقی پسندوں کے سامنے ٹک نہیں سکے۔ اس حلقے کا ایک نکتہ نظر تھا، یہ نکتہ نظر پھیلا اور نہ نیا تھا۔ادب برائے ادب والے لوگ تھے لیکن اس کا اعتراف کرتا ہوں سمجھدار لوگ تھے شاید مذہبی ہونے کے باعث ترقی پسند تحریک کی مخالفت کی کیونکہ رجعت پسندی انجماد کی طرف لے جاتی ہے۔اردو ادب کے لئے جو کام ترقی پسند تحریک نے کیا وہ کام سلیم احمد کا حلقہ نہیں کرسکا۔ ان لوگوں نے وہ ادب نہیں دیا جو عوام پر اثر ڈال سکے ۔کوئی ایسا شاعر نہیں لاسکے جو فیض احمد فیض کا ہم پلہ ہو یا کوئی ایسا نثر نگا رجو ترقی پسند نثرنگاروں سے زیادہ اثر رکھتا ہو۔ ویسے میں سمجھتا ہوں جس طرح یہ لوگ ایک جگہ جاکر رک گئے تھے اور اڑے ہوئے تھے اسی طرح ترقی پسند کو بھی اڑنا نہیں چاہیے ورنہ وہ بھی رجعت پرستی ہوجائے گی۔
٭یہ بات کس حد تک درست ہے کہ مشاعرے ترنم اور پاپولر شاعری سے اٹھتے ہیں؟
٭٭ یہ بات ٹھیک ہے کہ مشاعرے اچھی شاعری سے نہیں بلکہ ترنم اور پاپولر شاعری سے اٹھتے ہیں۔ شاعر اپنے ترنم سے مشاعرہ لوٹتے ہیں۔ ابتداء میں غزلیں ترنم سے پڑھیں لیکن بعد میں جان بوجھ کر ترنم سے پڑھنے کا سلسلہ ختم کیا۔ اس طرح شہرت حاصل نہیں کرنا چاہتا تھا آج بھی مشاعروں کا مقبول شاعر بننے کی کوئی خواہش نہیں ۔ ہند میں مشاعروں کا رجحان چونکہ زیادہ ہے اس لئے ایک تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ وہاں پاکستان سے زیادہ اردو کے فروغ کے لئے کام ہورہا ہے میں خود بھی دہلی سمیت کئی شہروں میں مشاعروں کے لئے گیا ہوں۔ وہاں کے لوگ متفقہ طور پر یہ بات کہتے ہیں کہ شاعری تو پاکستان میں ہورہی ہے اور یہ بات غلط بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں شاعری پڑھ کر کی جارہی ہے جبکہ ہند میں شاعری سن کر کی جاتی ہے۔ شاید اس کی وجہ مشاعروں کا رجحان بھی ہے۔
٭ پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے بڑے شاعروں کی طویل فہرست ہے، اب یہ سلسلہ کیوں رک گیا؟
٭٭ بات یہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد غیرمتوقع صورتحال پیدا ہوگئی ۔ زمین کے ٹکڑے ہونے سے تہذیب بھی ٹکڑے ہوئی۔ تقسیم کا اثر ہر چیز پر پڑا۔ گویا ہر کام ازسرنو شروع کیا گیا۔ ابھی تک وہ عبوری دور چل رہا ہے۔ اس میں بڑا وقت لگے گا۔ گھاؤ ا بھی بھرا نہیںہے۔ مسائل اب تک موجود ہیں ۔ جیسے جیسے حالات معمول پر آئیں گے تو اقبال بھی پیدا ہوگا ۔ مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ زندگی کہیں رکی نہیں ہے ۔ عبوری دور کا کوئی ٹائم پریڈ نہیں ۔ 100،150اور200سال تک بھی رہ سکتا ہے۔ 4ارب سال سے یہ زمین ہے۔ انسانی زندگی 30لاکھ سال سے زمین پر موجودہے تو 100یا 150سال کیا معنی رکھتے ہیں؟۔
٭ ایک تاثر یہ ہے کہ بیرون ملک رہ کر اچھی شاعری نہیں ہوسکتی، آپ کی کیا رائے ہے؟
٭٭ شاعری تو اندرون ساتھ رہ کر کی جاتی ہے ۔ شاعری چاہے ملک میں ہو یا بیرون ملک اس سے فرق نہیں پڑتا بلکہ اپنے ملک سے دور جاکر تو شاعر اپنے اور اندر ہوجاتا ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں بیرون ملک رہ کر زیادہ اچھی شاعری کی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی شخص جب اپنے ملک سے دور جاتا ہے تو اپنے اندر زیادہ رہنے لگتا ہے۔ اسے اپنا ماحول نہیں ملتا اس لئے وہ زیادہ ذاتی ہوجاتا ہے پاکستان سے بیرون ملک جانے والے اچھی شاعری کررہے ہیں ۔ جہاں جہاں اردو بولنے والے موجود ہیں وہاں اردو بھی زندہ ہے اور شاعری بھی ہورہی ہے۔ آدمی کہیں بھی رہے اس کے اندر کا ادیب اور شاعر مرتا نہیں ہے۔
٭ زندگی سے مطمئن ہیں یا کوئی خلش بھی ہے؟
٭٭ اب تک جوزندگی گزاری اس سے مطمئن نہیں ایسا لگتا ہے کچھ کیا نہیں ہے، کچھ کام کرنا چاہیے تھا۔ پچھتاوا سا رہتا ہے کہ شاعری میں کوئی بھی بڑا کام نہیں کرسکا۔ شاعری تو ضرور کررہا ہوں لیکن اطمینان والی بات نہیں ہے کچھ خلش ہے پھرجسے محبت کہتے ہیں اس سے اب تک محروم ہوں، بقول فیض
یہ نظر تھی پہلے بھی مضطرب
یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے
ناصرکاظمی کا شعر دیکھیں:
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی








