Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال کے آخری خطاب میں کیا کہا؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کی شام خطاب میں اپنی حکمرانی کے پہلے سال کو کامیابیوں سے بھرپور دور قرار دیا۔ اگرچہ امریکی عوام معیشت کے بارے میں فکر مند ہیں اور ریپبلکن پارٹی کو 2026 کے وسط مدتی انتخابات میں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ نے بدھ کی شام اپنے خطاب کا آغاز جن الفاظ سے کیا اُن میں پوری تقریر کا مرکزی خیال سمویا ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ: ’گیارہ ماہ پہلے انہوں نے ایک بگڑی ہوئی صورت حال سنبھالی تھی اور اب وہ اسے درست کر رہے ہیں۔‘
سادہ الفاظ میں ان کا پیغام یہ تھا کہ جو مسائل ہیں وہ ان کی وجہ سے نہیں ہیں۔
امریکی صدر نے مہنگائی اور روزمرہ اخراجات کے حوالے سے عوام کی تشویش کا جواب دیتے ہوئے تقریباً 20 منٹ کے خطاب میں سابق صدر جو بائیڈن کو مورد الزام ٹھہرایا اور ان کا نام سات مرتبہ لیا۔
معیشت کا مسئلہ ہو، جرائم ہوں، صحت کا نظام ہو یا خراب امیگریشن پالیسی، صدر ٹرمپ کے مطابق ان سب کے ذمہ دار جو بائیڈن ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اکثر اپنے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کا الزام جو بائیڈن پر عائد کرتے رہے ہیں جن میں یوکرین میں روس کی جنگ سے لے کر سمندر میں لگے ہوا سے بجلی بنانے والے منصوبے تک شامل ہیں۔
بدھ کے روز بھی انہوں نے یہی رویہ اختیار کیا، خاص طور پر مہنگائی کے معاملے میں، جسے انہوں نے عارضی قرار دینے کی کوشش کی، بالکل اسی طرح جیسے قیمتوں میں اضافے کے وقت جو بائیڈن نے کیا تھا۔
صدر نے کہا کہ ایک سال میں کتنی تبدیلی آ جاتی ہے اور صارفین کے مایوس رویے کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکہ ایک ایسی معاشی ترقی کی دہلیز پر ہے جو دنیا نے کبھی نہیں دیکھی۔
امریکی صدر نے یہ خطاب اوول آفس کے بجائے وائٹ ہاؤس کے ہال میں کیا جہاں وہ پوڈیم کے پیچھے کھڑے ہو کر اسی انداز میں بولے جیسے وہ اپنی انتخابی ریلیوں میں بولا کرتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے پوڈیم کو مضبوطی سے تھاما اور تیز رفتاری سے نکات بیان کیے۔ انہوں نے ان امریکیوں کے لیے ہمدردی یا تسلی کا اظہار نہیں کیا جو خوراک، رہائش اور تہوار کے تحائف کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پریشان ہیں۔
انہوں نے آخر میں مختصر طور پر کرسمس اور نئے سال کی مبارکباد دی۔
اگرچہ وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے عندیہ دیا تھا کہ صدر اپنی تقریر میں نئی پالیسیوں کا ذکر کر سکتے ہیں، مگر انہوں نے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں بتایا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ آئندہ سال ان کی حکومت جارحانہ رہائشی پالیسیاں نافذ کرے گی۔ ’جلد ایک نئے مرکزی بینک کے سربراہ کا نام دیں گے، اور فوجیوں کو ایک خاص رقم کے چیک بھیجے جائیں گے۔‘
امریکی صدر کے خطاب کے زیادہ تر موضوعات وہی تھے جو عام طور پر ان کی ریلیوں میں سننے کو ملتے ہیں۔ انہوں نے ریاست مینیسوٹا میں بسنے والے صومالی باشندوں پر الزام عائد کیا کہ وہ امریکہ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے خواتین کے کھیلوں میں مردوں کی شمولیت کا ذکر کیا اور ایک بار پھر کہا کہ ایک سال پہلے ملک مردہ حالت میں تھا۔
خطاب میں خارجہ پالیسی پر خاص توجہ نہیں دی گئی حالانکہ ان کے دوسرے دور میں یہ ایک اہم موضوع رہا ہے۔
امریکی صدر کے خطاب سے پہلے ان کے حامیوں کا خیال تھا کہ شاید وینزویلا کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازعے کا ذکر نمایاں طور پر کیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے حالیہ ہفتوں میں وینزویلا کی قیادت پر دباؤ بڑھایا ہے اور منگل کے روز انہوں نے ملک میں داخل اور ملک سے باہر جانے والے والے تیل کے ٹینکروں پر پابندی کا حکم دیا تھا۔
یہ واضح نہیں کہ آیا ٹرمپ وینزویلا کے صدر کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
بدھ کے روز اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس کے بجائے انہوں نے زیادہ تر توجہ معیشت پر رکھی اور مشرق وسطیٰ اور امن کے حوالے سے اپنے کردار پر مختصر طور پر فخر کا اظہار کیا۔
ٹرمپ کے حلیفوں نے حالیہ ہفتوں میں ان کے معاونین کو خبردار کیا تھا کہ بین الاقوامی تنازعات سے توجہ ہٹا کر ملک کے اندرونی مسائل پر دھیان دینا چاہیے۔ بدھ کی رات کم از کم 18 منٹ کے لیے وہ اس مشورے پر عمل کرنے کی کوشش کرتے  دکھائی دیے۔

 

شیئر: