Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان اور لاحاصل امیدیں

چین کی قیادت میں جو پنچائت بیٹھے گی وہ افغان مسئلے کا اگر مستقل نہیں تو وقتی حل نکال ہی لے گی
وسعت اللہ خان 
اتنی ہشت گردی برداشت کرنے اور اس قدر قربانیاں دینے کے باوجود بیرونی دنیا یہ ماننے کو تیار نہیں کہ افغانستان کے بارے میں پاکستانی پالیسی سازی کا محور ایک ہی جگہ  ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور  بیورو کریٹک سیٹ اپ کی جانب سے اس ضمن میں جو بھی پبلک موقف اختیار کیا جاتا ہے دنیا اسے ہو بہو قبول کرنے کے بجائے خوردبین تلے رکھ کے چیک کرتی ہے۔
  پاکستان کی سیاسی قیادت لاکھ کہتی رہے کہ افغان مسئلہ افغانوں کا دردِ سر ہے مگر پاکستانی عسکری اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک افغانستان ہمیشہ سے پاکستان کی ’’ سافٹ انڈر بیلی ’’ رہا ہے اور اسی سبب افغانستان کے معاملے میں پاکستانی پالیسی کے بنیادی خمیر میں بھی انڈین فیکٹرموجزن ہے۔
طالبان انتظامیہ کے چھ سالہ دور کو چھوڑ کے افغانستان کی ہر حکومت کا جھکاؤ ان قوتوں کی جانب رہا ہے جو پاکستان کی ناپسندیدہ قوتیں رہی ہیں۔جیسے سابق سوویت یونین اور بھارت۔’’ سافٹ انڈر بیلی ’’ کے نظریے کو متنازعہ ڈیورنڈ لائن ، پشتونستان  کے تصور ، سرحد کے آرپار پشتون قبائل کی مشترکہ آبادی و ناطے اور قبائلی علاقے ( فاٹا ) کی جغرافیائی حساسیت  نے عسکری احساسِ عدم تحفظ کو مزید جلا دی۔ 
چنانچہ پاکستان کی بیشتر توجہ اور کوشش اسی دائرے میں گھومتی رہی کہ اگر افغانستان کو دوست نہیں بنایا جا سکتا تو اسے پاکستان کے حق میں غیر جانبدار ضرور بنایا جاسکتا ہے۔لیکن یہ کوشش جس انداز  سے کی گئی اس کے سبب افغانستان اور پاکستان کے درمیان خلیجِ  شک کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی گئی۔
بھلے وہ باچا خان کے پیرو کار ہوں یا  وفاق  بیزار قوم پرست بلوچ قیادت یا پیپلز پارٹی کے الذولفقاری جیالے یا پاکستانی طالبان کی مفرور قیادت  یا پھر وفاقی پالیسیوں سے تنگ آئے قبائلی پناہ گزیں۔افغان حکومتوں نے ان سب کی میزبانی کی جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔چنانچہ ادلے کا بدلہ  کے تحت بھٹو صاحب کی حکومت نے گلبدین حکمت یار اور رسول سیاف جیسے  کابل  مخالفین کو جگہ دی۔ضیا الحق نے تو پورا خیبر پختونخوا  ہی  مارکسسٹ افغانستان  کے دشمن مجاہدین کے لئے اس امید پر کھول دیا کہ کل جب احسان مند مجاہدین کابل پر قبضہ کرلیں گے تو ڈیورنڈ لائن سمیت تمام افغان دردِ سر حل ہو جائیں گے اور افغانستان پر پاکستانی اثر و نفوز بھی تشفی بخش ہو جائے گا۔
چنانچہ اسٹراٹیجک ڈیپتھ  اور استحکام کی تصوراتی گاجر حاصل کرنے کے چکر میں پاکستان نے تین ملین سے زائد افغان پناہ گزینوں ، درجن بھر مجاہدین تنظیموں ، ان کے ہمدرد ہزاروں عرب رضاکاروں ، کلاشنکوف کلچر اور منشیات کے پھیلاؤ  کا بوجھ بھی ہنسی خوشی کمر پر لاد لیا۔مگر افاقہ ہونے کے بجائے مرض نت نئی شکلیں اختیار کرتا ہوا پھیلتا چلا گیا اور نیٹ پرافٹ ’’ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے ’’ کی شکل میں پاکستان کے ہاتھ آیا۔پاکستان نے جس افغان فریق کی مدد کی وہی تشکیک اور دشمنی میں مبتلا ہوتا چلا گیا۔بھلے وہ سابق افغان مجاہدین ہوں کہ ان  کے متبادل کے طور پر پروان چڑھائے جانے والے طالبان۔
مگر وہ اسٹیبلشمنٹ ہی کیا جو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر دل چھوٹا کر لے۔آج بھی طالبان سٹراٹیجک سرمائے کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔حالانکہ یہ وہی طالبان ہیں جنہوں نے افغانستان پر چھ برس حکومت کے دوران بھی پاکستان کی ایک نہیں سنی اور جب  ایک مدت تک پاکستان کے مہمان رہے تو بھی پٹھے پر ہاتھ نہیں رکھنے دیا۔مگر پاکستان کے پالیسی سازوں کو آج بھی امید ہے کہ ایک دن کوئی نہ کوئی افغان گروہ پاکستان کی ضرور سنے گا۔
اتنا کشٹ کاٹنے کے باوجود آج بھی افغانستان میں بھارت اور ایران کا اثر و نفوز اتنا ہی ہے جیسا کہ رہا ہے اور آج بھی پاکستان سے افغانی اتنے ہی بدظن ہیں جتنے کل تھے اور آج بھی افغانستان کی بساط پر بین الاقوامی ا سٹرٹیجک شطرنج اسی طرح جاری ہے جیسے پہلے تھی۔
مگر پاکستان سارا وقت  افغان مینڈک ترازو میں تولنے کی ہی کوشش کرتا رہا اور لکھنو کے بانکوں کی طرح  وضع داری کا تقاضا بھی نبھاتا رہا کہ چرکے پے چرکہ کھائے چلے جائیں گے پر مجال ہے کہ منہ سے اف نکل جائے۔
سوال یہ ہے کہ طالبان ایک کنفیوز پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ، کمزور افغان حکومت اور کبھی رخصت ہوتے اور کبھی نہ ہوتے امریکہ سے  ایسے وقت بات چیت کیوں کریں جب وہ گذشتہ سولہ برس میں ہر طرح کی مشکلات کے باوجود خود کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔کابل حکومت کہ جس کی رٹ چند گنے چنے شہروں تک محدود ہے وہ جنوب تا شمال بیشتر دیہی افغانستان پر قابض طالبان کو ایسی کیا پرکشش پیش کش کر سکتی ہے جو طالبان کو نظریاتی اختلاف پسِ پشت ڈال کے بات چیت کی میز پر سنجیدگی سے بیٹھنے پر مجبور کردے۔ 
  اگر کوئی امید بندھی ہے تو وہ چین سے ہے جس کے اقتصادی و ا سٹراٹیجک مفادات کا تقاضا ہے کہ اس خطے سے روڈ اینڈ بیلٹ گذرے۔مگر یہ خواب امن کے قیام کی تعبیر سے جڑا ہوا ہے۔اس وقت چین کے پاس ہر فریق کو رام کرنے کیلئے وافر گاجریں بھی ہیں اور وہ انہیں بانٹنے پے بھی آمادہ ہے۔
پاکستان تو خیر چین کا یار ہے ہی مگر کابل حکومت اور کسی حد تک  طالبان کے دل میں بھی چین کے لئے نرم گوشہ ہے۔ امریکہ بھی چاہتا ہے کہ اگر آئندہ کا علاقائی بوجھ مع خرچہ چین ہی اٹھائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔روس کو بھی اس بابت کوئی ریزرویشن نہیں اور ایران چین تعلقات بھی آڑے وقت کے امتحان سے کامیاب نکلے ہیں۔لہذا چھٹ بھئیوں کی باہمی رقابت اور لڑائیوں سے قطع نظر آج پہلے سے زیادہ قوی امید ہے کہ چین کی قیادت میں جو پنچائت بیٹھے گی وہ افغان مسئلے کا اگر مستقل نہیں تو وقتی حل نکال ہی لے گی۔یوں پاکستان کو بھی سرخروئی کا موقع مل جائے گا کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے ایک نہ ایک دن میری کوششیں بارآور ہوں گی۔مگر ٹرمپ کا کیا کیا جائے ؟ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں