Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلے کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا

شہزاد اعظم۔جدہ
َِ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں سن کر انسان حیران رہ جاتا ہے، یہ حیرانی شدید ہو توششدر کا لفظ بھی اس کے ساتھ ملادیاجاتا ہے،حیرانی مزید گمبھیر نوعیت کی ہو تو کہا جاتا ہے کہ فلاں بات سن کر تومیں ہکا بکا  یا بھونچکارہ گیا، حیرانی کی شدت اور بھی زیادہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ فلاں بات سن کر تو میرے ہاتھوں کے توتے ہی اُڑ گئے۔ حیرانی انتہائی ہو تو کہاجاتا ہے کہ یہ سن کر تو میرے پیروں تلے سے زمین ہی سرک گئی لیکن فلاں روز ہم نے اپنے شاگرد سے جو کچھ سنا اسے سنتے ہی بیک وقت تمام کیفیاتِ تحیر نے ہمیں بری طرح جکڑ لیا۔ ہم کس حد تک سچے ہیں، آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے:
ہوا یوں کہ ہمارے شاگرد نے سوال کیا کہ ’’سر!بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ سے کیا مراد ہے نیز اس محاورے کی ’’سوشل ایپلی کیشن‘‘ یعنی ’’سماجی اطلاق ‘‘کس طرح ہوگا؟ ہم نے کہا کہ 456سال پہلے کی بات ہے کہ ایک بلی کو انتہائی شدید بھوک لگی تھی، وہ دودھ کی تلاش میں گھر گھر ماری ماری پھر رہی تھی۔ اچانک اسے ایک گھر کے صحن میں بِلنگنی پر لٹکے چھینکے میں رکھی دودھ کی دیگچی دکھائی دی۔ اس نے لاکھ چھلانگیں لگائیں مگر وہ اس تک نہیں پہنچ سکی کیونکہ وہ چھینکاکسی بہت ہی کہنہ گرہستن نے لٹکایاتھا۔بلی وہیں بیٹھ گئی کہ کبھی نہ کبھی تو یہ دیگچی ’’بے چھینکا‘‘ ہوگی۔ اسی دوران نجانے کیا ہوا کہ چھینکا ٹوٹ گیا اوردودھ کی دیگچی’’چھن تڑاق‘‘ سے زمین پر آ رہی۔ بس پھر کیا تھا، بلی نے خوب سیر ہو کر دودھ پیا ا ور روانہ ہوگئی۔ہمارے شاگرد نے کہا کہ ’’سر! آپ کی اس وضاحت میں’’ بالغ النظری‘‘ یعنی ’’ایڈلٹ سائٹ‘‘ کا فقدان ہے۔ آپ کو’’بالغ نظر‘‘سے میں دکھاتا ہوں۔ اس محاورے کی ’’تکوین‘‘ آج سے 457سال قبل ہندوستان میں ہوئی تھی۔ ہوا یوں کہ کسی گاؤں میں ایک ادھیڑ عمر جوان تنہا رہتا تھا۔ اس کی دیوار ایک ایسے گھر سے ملی ہوئی تھی جس میں ایک جوڑا پر مسرت زندگی گزار رہا تھا۔ گھر سے باہر آتے جاتے وہ میاں بیوی اکثر دکھائی دے جاتے۔اس ادھیڑ شخص کو ہمسائے کی زوجہ بے حد پسندآئی۔ وہ اکثر سوچتاکہ کاش میری بھی شادی ہوجائے اور اُسی ہمسائی جیسی دلہن مل جائے۔دو ڈھائی سال تو یونہی گزر گئے پھر اچانک ایک روز ہمسائے کا انتقال ہوگیا۔وہ ہمسائی جو کل تک ’’بیوی‘‘ تھی آج ’’بیوہ‘‘ ہوچکی تھی۔ اس ادھیڑ عمر نے ہمسائی کی عدت کا خاتمہ ہوتے ہی نکاح کی پیشکش کر دی ۔ بیوہ نے فوری قبول کر لی ۔دونوں کی شادی ہوگئی۔ ادھیڑ عمر ہستی نے اپنی دلہن سے کہا کہ پتہ ہے ، میں آپ کو بے حد پسند کرتا تھا اور آپ سے شادی کرنا چاہتا تھا ۔ یہ سن کر دلہن نے کہا کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ’’بلے کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔‘‘ہم نے کہا کہ برخوردار محاورے میں تو بلی ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے جو آپ کو حقیقی واقعہ سنایا ہے اس میں بلا ہی کہاجائے گا ہاں البتہ اگرکسی انسانی جوڑے میں سے بیوی کا ا نتقال ہو جائے اور ہمسائے میں تنہا رہنے والی اس سے شادی کر لے توپھربلا شبہ یہی کہا جائے گا کہ’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔‘‘
اب بتائیے ہمارے شاگرد کی اس ’’بالغ نظری‘‘ کے باعث آپ کے ہاتھوں کے توتے اڑ ے؟ پیروں تلے سے زمین سرکی؟ہم نے صحیح کہا تھا ناں؟
 

شیئر: