اب پاکستان پیسہ نہیں بھیجتا تو بہن بھائیوں سے رہا سہاتعلق بھی ختم ہو گیا، ہر وقت بچپن، جوانی اور وہ ساری محنت جو گھر والوں کیلئے کی تھی یاد آتی رہتی ہے
* * * * مصطفی حبیب صدیقی * * * *
آج اس کا فون دوسری مرتبہ آیا تھا ،وہ ابھی پردیس کی تنہائی سے نہیں اکتایا تھا مگر اپنوں کی بے وفائی سے ٹوٹ رہا تھا۔اسے ایک سہارے کی ضرورت تھی۔میری ایک کہانی میں ایک لڑکی طلاق کے بعد گھر واپس لوٹ چکی تھی وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔مگر اس لڑکی کے گھر والوںنے انکار کردیا۔دبئی میں ایک معمولی سا لفٹ آپریٹر ملک اقبال(فرضی نام) پاکستان کے شہر لاہور (فرضی شہر) سے تعلق رکھتا تھا۔اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بڑے ہی التجائی لہجے میں مجھ سے کہا کہ کچھ دیر بات کرلوں۔میں کافی مصروف تھا مگر ملک کی آواز میں چھپا درد اور کرب محسوس کرسکتا تھا اپنی تمام مصروفیات ایک طرف کرتے ہوئے میں نے کہا ’’ہاں ہاں،بولو ،سب خیریت ہے؟‘‘۔
کہاں خیریت ہے ،بس آپ سے درخواست ہے میری شادی کرادیں۔میرا تو کوئی ہے نہیں سب پرائے ہوگئے ہیں ۔تنہا زندگی نہیں گزارنا چاہتا ۔میٹرک پاس ہوں ،یہاں لفٹ آپریٹر ہوں مگر میں شادی کے بعد یہاں واپس نہیںآئوں گا بلکہ پاکستان میں ہی رہونگا بھلے اگر مجھے کراچی منتقل ہونا پڑے تب بھی خیر ہے۔
میرے سوال پر ملک نے بتایا کہ وہ کسی بیوہ ،طلاق یافتہ سے بھی شادی کیلئے تیار ہے مگر میں نے پھر پوچھا کہ تم اپنے گھروالوں سے بات کیوں نہیں کرتے تو اس نے اپنی کہانی کا آغاز ایک آہ بھرتے ہوئے یوں کیا۔۔۔
میں گھر کا بڑا ہوں،دو بھائی اور دو بہنیں چھوٹی ہیں۔میرے ماں باپ کا انتقال ہوچکا ہے۔پوری زندگی محنت مزدوری کی اور چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالا۔بڑا ہونے کے باوجود پہلے شادی نہیں کی بلکہ چھوٹی بہنوں کے فرض سے سبکدوش ہوا۔پھر چھوٹے بھائیوں کی شادی کی۔دبئی سے جو کماتا گھر بھیج دیاکرتا تھا۔میری بہنوں کا اکثر فون آجاتا کہ بھائی جان تمہارے بہنوئی کو نئی گھڑی چاہیے۔ایک بہنوئی کو موٹر سائیکل دلائی ۔دونوں چھوٹے بھائیوں کو کاروبار کرایا۔میں سوچتا تھا کہ ایک دن پاکستا ن جائونگا تو بھائی بہن خود ہی میری شادی کیلئے اصرار کرینگے مگر ایسا نہیں ہوا۔
پچھلے سال میں پاکستان چھٹیوں پر گیا ،بڑی امیدیں تھیں کہ بینک میں اچھی خاصی رقم ہوگی مگر میں یہ جان کر چکراگیا کہ بینک میں بس چند ہزار روپے ہی پڑے ہیں۔ابھی پاکستان پہنچے چند گھنٹے گزرے تھے کہ چھوٹی بہنیں پہنچ گئیں اور اپنے حق جتاتے ہوئے بہنوئیوںاور بھانجے بھانجیوں کیلئے سامان کا مطالبہ کرنے لگیں۔میںنے ا ن کیلئے خریدا گیا سامان ان کے حوالے کردیا۔چھوٹے بھائیوں اور بھابھیوں کو بھی تحفے تحائف دیئے۔یہ سلسلہ ایک مرتبہ کا نہیں تھا بلکہ گزشتہ 15سال سے ایسے ہی چھوٹے بہن بھائیوں کیلئے پیسے اور سامان بھیجتا رہاہوں۔اماں جب تک زندہ تھیں کہتی رہیں کہ پتر واپس آجا تیرا بھی گھر بس جائے مگر میں کہتا کہ پہلے بہنیں رخصت ہوجائیں اور پھر بہنوں کے بعد بھائی تیار ہوگئے اور میں نے سوچا چلو جہاں اتنا کیا وہیں کچھ عرصے اور سہی او ر بھائیوںکی بھی شادی ہوگئی۔اب میں اپنی واپسی کیلئے سوچنے لگا مگر کچھ پیسے جمع کرنے تھے۔بڑے خیالی پلائو بنائے کہ پاکستا ن جاکر اچھی سے لڑکی سے شادی کرلوں گا اور وہیں کچھ کرلونگا واپس نہیں آئوں گا مگر اسی دوران اماں بھی چل بسی۔
اماں کے انتقال کے بعد بھائیوں اور بہنوں کا رویہ یکسر تبدیل ہوچکاتھا۔بھائیوں اور بہنوںنے ابائی گھر بیچ کر اپنے حصے لے لئے اور مجھے بتایا تک نہیں۔بھائیوں کا کہنا تھا کہ تو دبئی میں ہے۔ تجھے تومسئلہ نہیں۔ تو خود ہی اپنے لئے کچھ بناسکتا ہے۔میں خاموش رہا۔بھائیوں کی فرمائشیں بڑھتی چلی گئیں۔لیکن میں نے کبھی نہیں سوچا کہ وہ مجھے دھوکہ دیں گے۔ میرے سامنے میری زندگی کے اہم ترین 20،22سال تھے جو میںنے بھائیوں اور بہنوں کیلئے محنت مزدوری کرکے گزار ے تھے مگر اس مرتبہ جب پاکستان پہنچا تو عجیب صورتحال دیکھی۔کسی کو میرے آنے کی خوشی نہ تھی۔ایک ماں تھی شاید اسے ہی خوشی ہوتی تھی وہ تو اب رہی نہ تھی۔میں کافی دن انتظار کرتا رہا کہ بھائی یا بہنیں میری شادی کیلئے بات کرینگے مگر کسی نے ایک لفظ نہیں کہا بلکہ سب سے چھوٹا بھائی تو صاف کہہ گیا کہ زیادہ دن چھٹی گزاروگے تو پیسے کیسے کمائوگے؟بہنیں اس وقت تک آتی رہیں اور ایک بہن نے ایک مرتبہ کھانے پر بھی بلایا جب تک میری جیب میں کچھ پیسے تھے مگر جیسے ہی ان لوگوںکو میں نے بتایا کہ سب پیسے ختم ہوگئے ہیں اور جو بینک میں تھا وہ نجانے تم لوگوںنے کہاں خرچ کردیا توبھائی تمام احترم ایک طرف رکھ کر لڑ پڑے ۔
میںنہایت افسردہ واپس دبئی پہنچ گیا۔کچھ عرصے بعد فون کیا تو بھائی نے کہ یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ ابھی ڈرامہ آرہا ہے کچھ دیر میں بات کرنا۔پھر فون کیا تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہاں تو سب بہت مصروف ہوتے ہیں اتنے فون نہ کیا کر۔
(ملک اقبال کی آواز بھرارہی تھی ) مصطفی بھائی ،بس آپ کا سلسلہ پڑھا تو بے دھڑک آپ کو فون کرلیا۔اب میں پاکستان پیسے نہیں بھیجتا تو میرا جو رہا سہا تعلق تھا وہ بھی ختم ہوگیا ہے۔اب مجھے بڑی امید ہے کہ آپ میرے لئے کچھ کرینگے۔میں یہاں تنہا رہتے رہتے اکتاگیا ہوں۔مجھے ڈر ہے میں بیما ر پڑجائونگا۔ہر وقت بچپن ،جوانی اور وہ تمام محنت جو میں نے گھروالوں کیلئے کی تھی دماغ میں خیالات کی شکل میں دوڑتی رہتی ہے۔آپ لوگوں کی داستانیں لکھتے ہو میری بھی لکھو اور اگر کوئی مناسب رشتہ ہو تو میرے شادی کرادو۔میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ۔میں کہیں بھی منتقل ہوجائوںگا۔میرے سوال پر ملک اقبال نے بتایا کہ وہ40سال کے لگ بھگ ہے ۔میں نے اسے یقین دلاتے ہوئے اللہ حافظ کہہ دیا اور ساتھ ہی دلاسا دیا کہ میں تمہارا بھائی ہوں۔ مجھے فون کرلیا کرو مگر سوال یہ ہے کہ لوگ احسان کیوں بھول جاتے ہیں۔جو لوگ دوسروں کیلئے سب کچھ وار دیتے ہیں وہ ان لوگوں کو عزت اور محبت کیوں نہیں دے پاتے؟
* * * * * * *
محترم قارئین !