Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیٹ خالی ہو تو انسان کیلئے وبال جان، بھرا ہو تو ”شان“

 روٹی کے ذریعے بھوک کا جن قابو کرنا ہے، روٹی سے یہ جن واقعی قابو میں آتا ہے یا نہیں، اس پر بحث کی جا سکتی ہے
ایوب صابر ۔ الخبر
  سینے اور ٹانگو ںکے درمیان پھیلے ہوئے وسیع و عریض رقبے کو پیٹ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ توپ کے اس حصے کو بھی پیٹ کہتے ہیں جہاں گولا رکھا جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے اکثر لوگ نوالے کو گولے کی شکل میں منہ کے اندر پھینکتے ہیں ۔در اصل اس گولے کا مقصد ان چوہوں کا شکار کرنا ہے جو ہر 5یا6گھنٹوں کے بعد پیٹ کے اندر بریک ڈانس شروع کردیتے ہیں ۔مہذب زبان میں اسے ”دیو ِ اشتہاکا غلبہ“ کہتے ہیں ۔اس کا مطلب روٹی کے ذریعے بھوک کا جن قابو کرنا ہے۔ روٹی سے یہ جن واقعی قابو میں آتا ہے یا نہیں، اس پر بحث کی جا سکتی ہے۔اب اگر ہم اس کی وضاحت کریں گے تو پیٹ سے پاﺅں نکالنے کے الزام میں دھر لئے جائیں گے ۔ آجکل ”دھرنے والوں“کو تو کوئی دھرتا نہیں البتہ وہ ہمارے پیچھے ڈانگ لے کر دوڑے آئیں گے۔ ”پیٹیات“ حیات ووفاتِ انسانی کا اہم سبب بنتی ہیں۔ پیٹ خالی ہو تو یہ انسان کے لئے وبالِ جان بنتا ہے اور بھرا ہوا ہو تو انسان کے لئے ”شان“ بنتا ہے۔
    ارے یہ سب پیٹ بھرے کی باتیں ہیں۔ جب پیٹ پیٹھ سے لگ جائے تو ہر اک منطق سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے۔اربابِ اختیار کو سوچنا چاہیے کہ پیٹ کاجلا گاﺅں جلانے پر تیار ہو جاتا ہے۔اس لئے کسی کو پیٹ کی مار دینا بہت بڑا ظلم ہے۔ جس کو دیکھو اس کا پیٹ چپاتی بنا نظر آرہا ہے۔ بدعنوانوں کا پیٹ ہے یا بے ایمان کی قبر، سارے ملکی خزانےپیٹ میں ڈالنے کے باوجود پیٹ پر ہاتھ پھیر کر خوش ہو رہے ہیں۔ لوگ پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارہ کر رہے ہیںاور بعض بڑوں نے پیٹ میں انگارے بھرنے کا کام روزو شب جاری رکھا ہوا ہے۔غریب فاقوں سے ننگے پیٹ ہورہے ہیں لوگوں کو اس قدر خوراک مل رہی ہے کہ اکثریت کے پیٹ میں چیونٹے کی گرہ ہو گئی ہے۔ 3وقت روٹی کھانے والے ایک وقت اور ایک وقت کھانے والے فاقوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
 ایک دن میں نے اپنے دوست خواجہ خوامخواہ سے پوچھا کہ ہمارے ہاں67برس بعد بھی جمہوریت مضبوط نہیں ہوسکی ، اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس نے کہا کہ ہماری جمہوریت ابھی نابالغ ہے۔ اسے سنِ بلوغت تک پہنچنے کے لئے آمریت کے پیٹ سے جنم لینا پڑتا ہے ۔ میں نے کہا کہ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ آپ بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کر رہے ۔ہماری جمہوریت ہمیشہ آمریت کے نشانے پر رہتی ہے۔ اب تو ایک خود ساختہ دانشور نے دعویٰ کردیا ہے کہ آمریت آنے کیلئے صرف5منٹ درکار ہیں۔ 5منٹ میں تندور کے پیٹ میں ڈالی ہوئی روٹی بھی مشکل سے پکتی ہے پھر 5منٹ میں جمہوریت کے پیٹ پر لات کیسے ماری جا سکتی ہے۔ ایک ایسی قوم جس نے پیٹ پر پتھر باندھ کر گزر اوقات کرنے کا عزم کر رکھا ہو ، وہ پیٹ کی اتنی ہلکی کیسے ہو سکتی ہے لیکن خواجہ خوامخواہ کا استدلا ل ہے کہ یہ سب پاپی پیٹ کا سوال ہے۔
 ایک ماہر اقتصادیات کا کہنا کہ ہمارا پیٹ ڈالروں سے پل رہا جو کبھی امداد اور کبھی قرضے کی شکل میں ہمارے پیٹ میں جاتے ہیں۔قرضے کھا کر ہم پیٹ پر ہاتھ مار کر خوش ہوجاتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ آئندہ نسلوں کو گروی رکھ کر ہم کون سا کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ہمارے چہرے پر اضطراب ہے نہ پیٹ میں کھلبلی ۔اس سے زیادہ بے حسی اور کیا ہو گی کہ ہم پیٹ کی فکر میں پی©ٹ کے اندر آگ بھر رہے ہیں۔
  پچھلے دنوں آئی جی پولیس نے ایک حکمنامہ جاری کیا کہ سب پولیس ملازمین 3ماہ میں اپنا پیٹ چھوٹا کر لیں ورنہ ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ پولیس اہلکاروں کی صحت اور پھرتی کے حوالے سے واضح ہدایات کے بعد آئی جی آفس نے موٹے پیٹ اور ڈھیلے ڈھالے جسم رکھنے والے پولیس اہلکاروں کی لسٹیں مرتب کرنا شروع کر دی ہیں۔حکام کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ بھاری بھرکم پیٹ رکھنے والے پولیس ملازمین کو ناکوں کے بجائے تھانوں سمیت ہیڈکواٹر میں ڈیوٹی پر لگایا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ناکے کی کمائی سے پیٹ نکلا تھا اور اب پیٹ کی وجہ سے ناکے سے نکلنا پڑا ہے۔ پو لیس ملازمین کے پیٹ شتر بے مہار کی طرح بے قابو ہو چکے ہیں۔ فربہ پولیس ملازمین نے چند روز خوب اچھل کود کرنے کے بعد صاف کہہ دیا کہ کمان سے نکلاہوا تیر اور سینے سے نکلاہوا پیٹ کبھی واپس نہیں آ سکتے۔وہ پیٹ جس کے اندر برسوں سے مار پیٹ کا مال جا رہا ہو ، وہ اپنی اصلی حالت میں واپس کیسے آ سکتا ہے ؟
  بچپن میں میری ماں کہتی تھیں کہ بیٹا ! پیٹ کاٹو تو مکان بنتا ہے۔ میں نے کہا کہ اماں جان مکان تو اینٹ ،ریت،سیمنٹ ،سریے اور لکڑی سے بنتا ہے، اس میں پیٹ کاٹنے کا ذکر کہاں سے آگیا۔ مکان پیٹ میں نہیں زمین کے اوپربنتا ہے۔ ماں نے کہا جب اپنا مکان بناﺅ گے تو میری بات سمجھ میں آئے گی۔ میں جب بڑاہوا تو دیکھا کہ لوگ اپنا مکان بنانے کیلئے دوسرے کی جیب کاٹتے ہیں۔ میں اپنے دوست خواجہ خوامخواہ کے پاس گیا اور اس سے پیٹ اور مکان کا تعلق دریافت کیا۔ اس نے مجھے تسلی دی کہ آپ خوامخواہ پریشان نہ ہوں۔ میں ابھی آپ کو پوری بات سمجھا دیتا ہوں تاکہ آپ کے پیٹ کے کس بل نکل جائیں۔ خواجہ خوامخواہ کے بقول اپنا مکان بنانا ایک مشکل اور مہنگا شوق ہے۔ اس لئے جب مکان بنانا ہوتو روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ مرغ مسلّم اور نرگسی کوفتوں کو پیٹ میںڈالنے کی کوفت برداشت کرنے سے گریز کرنا پڑتا ہے۔ 
   ایک سابقہ حکومت نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر عوام کے جذبات کو ابھارا تھا۔ اس نعرے کی بدولت اسے خاطر خواہ کامیابی حاصل ہو گئی۔ اس کے بعد جب بھی انتخابات آتے ہیں تو روٹی کپڑا اور مکان کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی جاتی ہے۔ اتنا فرق ہے کہ پہلی دفعہ یہ نعرہ لگا توساتھ کہا گیا تھا کہ ”ہم آپ کو روٹی کپڑا اور مکان دیں گے ۔“ اس کے برعکس آج کل یہ کہا جاتا ہے کہ ”ہم آپ سے روٹی کپڑا اور مکان لیں گے۔“ بے چارے عوام پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے ایک دفعہ پھر پیٹ کے خوف سے اپناقیمتی ووٹ نااہل لوگوں کے حق میں بیلٹ بکس کے پیٹ میں ڈال دیتے ہیں۔ بیلٹ بکس کا پیٹ بھی بنئے کی دُکان کی طرح ہر طرح کا مال ہضم کر جاتا ہے اور جب شام کا اندھیرا پھیلنے کے بعد بیلٹ بکس کا پیٹ چاک کیا جاتا ہے تو کچھ لوگوں کی تقدیر بدل جاتی ہے اور کچھ پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے گھر لوٹ جاتے ہیں۔ اس کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بعض دفعہ بیلٹ بکس کے پیٹ سے برآمدشدہ ووٹوں کی تعداد اس حلقے کے کل ووٹوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ اکثر بڑے شہروں میں بڑے ریکارڈ اسی طرح بنتے ہیں۔ اب ہارنے والوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں تو کسی سیاسی حکیم سے رجوع کریں۔ 
 میں بھی آج سے دو دہائیوں قبل پیٹ کی خاطر گھر سے نکلا تھا اور آج تک ضرورتوں کا پیٹ بھر رہاہوں۔ہر سال سوچتاہوںکہ یہ سال گھر لوٹنے کا سال ہوگالیکن وہ آخری سال کبھی نہیں آتا۔ہر دفعہ رکنے کیلئے بلاجواز کوئی جواز تلاش کر لیتا ہوں ۔گزشتہ کئی سالوں سے میری شریکِ مشکلات میری غزل کا یہ شعر یا د د لاتی ہیں :
     ارادہ ہے کہ اگلے سال میں گھر لوٹ جاﺅں گا
     کسی سے جھوٹا اک وعدہ مسلسل کر نہیں سکتا
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: