Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نسوانیت کو لفظوں کا پیرہن دینے والی، پروین شاکر

 
 شہزاد اعظم۔جدہ
 
 
پروین شاکر، وہ واحد شاعرہ تھیں جو صرف اپنی صنف کی نزاکت ہی نہیں بلکہ صنفِ ادب کی نازکی کا بھی مکمل ادراک رکھتی تھیں۔ اسی لئے وہ جانتی تھیں کہ وہ پروین ہیں، غزل کہیں گی تو ناقدین کہیں گے کہ یہ کیا”غزل“تو وہ ہے جو گنگنائی جائے ،”غزل“ کاخود ہی گویا ہونا تو روایاتِ ادب کی صریح خلاف ورزی اور”مہتابِ غزل“ کو گہنا نے کے مترادف ہے۔ انہیں اس پوشیدہ حقیقت سے بھی کامل آگاہی تھی کہ صنفِ مخالف کو پسندیدگی کی سند عطا کر کے اسے اپنی محبت کے حصار میں ”محدود“ کر کے ،اس کے لبوں کو گلاب کی پنکھڑی، ابروﺅں کو کمان، زلفوں کو ناگن، رخساروں کو کہساروں کی بلندی،قامت کو سرو اور قربت کو حاصلِ زندگی قرار دینااس ”کرخت صنف“نے” غزل “کے زیر عنوان ”ادب“ میں شامل کر رکھا ہے اور کوئی ” غزل گو“ایک ”غزل“ پر اکتفا کرنا اپنے فن کی توہین سمجھتا ہے ۔ وہ ”چہار غزلہ “ ہونے کی لگن میں ایک غزل کو مقطع تک مکمل کئے بغیر ہی دوسری ”غزل“ کا مطلع چھیڑ دیتا ہے۔
پروین کو معلوم تھا کہ خود کو دنیائے سخن کا حکمراں سمجھنے والوں نے ”غزل“ کو اپنی ”کنیز“ قرار دے رکھا ہے، اس کنیز نے لب کھولے توبڑے بڑے طرحداروں کی دستاروں کے پیچ کھل جائیں گے، وہ جھوٹی آن بان کے تحفظ کیلئے انتقام پر اتر آئیں گے اور اس ”نقار خانہ¿ شعروسخن“ میں میری آواز کسی طوطی کی طرح دب کر رہ جائے گی۔ایسے ہی ان کہے حقائق کے پیشِ نظر پروین شاکر نے مردانہ اور زنانہ شاعری میں خطِ فارقہ کھینچ کر مردانہ شاعری کو ایک ایسا چرکہ لگایا جس کی کسک صدیوں تک اپنے وجود کا احساس دلاتی رہے گی۔
پروین شاکر نے وطن عزیز کے اسی معاشرے میں آنکھ کھولی تھی جسے ”مردانہ تسلط“ والا معاشرہ کہا جاتا ہے۔ جہاں مردبحیثیت شوہر خود کو مخدوم اوربیوی کو خادمہ سمجھتا ہے۔جہاں عورت کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تم ایک تک محدود ہو اس لئے چار دیواری تمہارا حصار ہے اور میں چار کا ہو سکتا ہوںاس لئے بے درودیواری کا مجھے اختیار ہے۔اگر میں تمہیں مزید اپنانا نہ چاہوں تو 4حرفی لفظ، تہرا کر تمہیں پرایا کر سکتا ہوں اور اگر تم میرے ”استبداد“ سے نجات کا سوچو گی تو تمہیں پروانہ¿ آزادی برسوں انتظار کے بعد اس وقت بھجوایا جائے گا جب تمہارے چمنستانِ محبت و وفاکی تمام کیاریاں بنجر ہو چکی ہوں گی۔
شعرائے کرام نے نسوانی گفتار کو غزل کہا تو پروین نے مردانہ اطوارو کردار کو غزل کیا۔ شعرائے کرام نے صنفِ نازک کے حسن کو سراہنے کو غزل کہا، پروین نے صنفِ نازک کے کراہنے کو غزل کہا۔شعراءحضرات نے محبوب کے لئے دل میں موجود چاہ کو غزل کہا تو پروین نے دل سے نکلنے والی آہ کو غزل کہا۔شعرائے کرام نے پری پیکر کی زلفِ سیاہ کو غزل کہا تو پروین نے مضبوط بازووں کی پناہ کو غزل کہا۔ شعرائے عظام نے وصلِ محبوب کے لئے چشم براہ کو غزل جاناتو پروین نے عمر بھر کے نباہ کو غزل مانا۔
پروین شاکر نے ”مردانیت“ کے چہرے سے نقاب نوچا اور نسوانیت کو لفظوں کا پیرہن عطا کیا۔ نسائی احساسات کوقلم تک رسائی دی، عورت کے جذبات کوگویائی دی اور ایسے اشعار رقم کر ڈالے جن کی گونج مردانہ ایوانوں میں سنائی دی۔یقین نہیں آتا تو یہ غزل ملاحظہ فرمالیجئے۔اسے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ صنف نازک جسے مردانہ تسلط والے معاشروں نے اشیاءفروخت کر کے زیادہ منافع کمانے کے لئے اشتہارات کی زینت بنا رکھا ہے، اس کا ذہن و دل کن احساسات کی آماجگاہ ہے ؟ وہ جانتی ہے کہ وہ میں ہی ہوں جس کے وجودسے تصویرِ کائنات میں رنگ ہے۔ میں ہی وہ ہستی ہوں جو اپنے ہم نفس کے لئے باعث آرام و راحت اور وجہِ رنگینی¿ حیات ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اگر وہ نہ ہوتی تو نہ غزل ہوتی ، نہ شاعر، نہ رنگ باتیں کرتے اور نہ خوشبوفنِ پذیرائی سے آشنا ہوتی، نہ دل دھڑکنے کا سبب معلوم ہو سکتا نہ شمع کے لئے پروانے کی فریفتگی کا پتا چل پاتا اور نہ بھنورے کےلئے پھول کی اہمیت کا راز افشا ہو تا ۔ پروین کہتی ہیں:
چہرہ میرا تھا نگاہیں اس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اس کی
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی
شوخ لمحوں کا پتا دینے لگیں
تیز ہوتی ہوئی سانسیں اس کی
ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبحیں جب اپنی تھیں، شامیں اس کی
دھیان میں اس کے یہ عالم تھا کبھی 
آنکھ مہتاب کی یادیں اس کی
فیصلہ موجِ ہوا نے لکھا
آندھیاں میری، بہاریں اس کی
نیند اس سوچ سے ٹوٹی اکثر
کس طرح کٹتی ہیں راتیں اس کی
دور رہ کر بھی سدا رہتی ہیں
مجھ کو تھامے ہوئے بانہیں اس کی
شاعر نے کہا کہ :
رنگ پیرہن کا، خوشبو زلف لہرانے کانام
موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
پروین سمجھتی ہیں کہ یہ تعریف و توصیف بے مقصد نہیں بلکہ اس میں وہی طلبِ عشق کارفرما ہے جو چاہتی ہے کہ ہر حسیں پھول میرے ہی گلدان میں ہو، اسی لئے وہ کہتی ہیں کہ:
حرفِ تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے 
باب اک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے
حجاب اک تہِ اقرار ہے مانع ورنہ
گُل کو معلوم ہے کیا دستِ صبا چاہتا ہے
شاعرہ ، اپنے ہمسفر کی بے وفائی کو زندگی کی دیگر تلخ حقیقتوں کی طرح صمیمِ قلب سے تسلیم کرتی ہیںاور حقیقتِ حال یوں بیان کرتی ہیںکہ:
ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اُس کی
اور یہ دل کہ اُسے حد سے سوا چاہتا ہے
ریت ہی ریت ہے اس دل میں مسافر میرے
اور یہ صحرا ترانقشِ کفِ پا چاہتا ہے
یہی خاموشی کئی رنگ میں ظاہر ہوگی
اور کچھ روز کہ وہ شوخ کھلا چاہتا ہے
رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن
رات کے ہاتھ پہ اب کوئی دیا چاہتا ہے
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ عشق و محبت کی ”وارداتوں“ میں مرد عام طور پر خود غرض ہی ظاہر ہوا ہے۔ حسن کے معاملے میں وہ تمام روایات، رواج، قواعد و ضوابط، سب پس پشت ڈالنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ مرد کی اس جبلی کیفیت کو پروین شاکر نے ایک مقام پر یوں کریدا:
خوشبو کہیں نہ جائے یہ اصرار ہے بہت
اور یہ بھی آرزو کے ذرا زلف کھولئے
پروین شاکر نے جب مشاعروں میں شرکت کرکے شعر سنانے شروع کئے توایک جانب اگر نامی گرامی شاعروں کی سٹیاں گم ہونے لگیں تو دوسری جانب خواتین میںخاموش مسرت کی لہر دوڑ گئی کہ ایسی باتیں جنہیں وہ چاہنے کے باوجود زبان پر نہیں لا سکیں، آج افشا ہو رہی ہیں۔ پروین کی شاعری نے باضمیر مردوں کے احساس کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس حوالے سے ان کی ایک غزل نظر نواز ہے:
ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کس سے بولئے
میں جانتی تھی پال رہی ہوں سپولئے
بس یہ ہوا کہ اس نے تکلف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگولئے
پلکوں پہ کچی نیند کا رس پھیلتا ہو جب
ایسے میں آنکھ دھوپ کے رخ کیسے کھولئے
تیری برہنہ پائی کے دکھ بانٹتے ہوئے
ہم نے خود اپنے پاوں میں کانٹے چبھو لئے
میں تیرا نام لے کے تذبذب میں پڑ گئی
سب لوگ اپنے اپنے عزیزوں کو رو لئے
تصویر جب نئی ہے، نیا کینوس بھی ہے
پھر طشتری میں رنگ پرانے نہ گھولئے
پروین شاکر اک نابغہ¿ روزگار شاعرہ تھیں، معزز خاندان سے تعلق تھا، نہ صرف خوبصورت تھیں بلکہ پڑھی لکھی ہونے کے ساتھ ساتھ سی ایس ایس افسر بھی تھیں۔ ان تمام نادر و نایاب اوصاف کے باوجودان کی زندگی نشیب و فراز سے معمور رہی۔ان کی ازدواجی حیات کا سفینہ بھی ہچکولے کھاتا رہا ۔ اپنے شوہر سے ان کی نہ بن سکی اوردونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ یوں ”رنگِ کائنات“ ہونے کے باوجود پروین شاکر کی اپنی کائنات بے رنگ رہی۔یہ کہنا بے جا نہیں کہ دنیائے زن،دنیائے فن اوردنیائے سخن میں پروین کی ویسی قدر نہیں کی گئی جس کی وہ حقدار تھیں۔ذاتی دنیا کی بے ثباتی نے ان کا دل چکنا چور کر دیا تھا ۔ یہ کیفیت ان کے اشعار سے عیاں تھی۔، توجہ فرمائیے:
بہت آرام کرنا چاہتی ہوں
یہی اک کام کرنا چاہتی ہوں
شعورِ آگہی بھی المیہ ہے
اسے نیلام کرنا چاہتی ہوں
میں اپنی عمر کے سارے اثاثے
تمہارے نام کرنا چاہتی ہوں
تمہارے خیمہ¿ خوشبو میں رہ کر
میں صبح و شام کرنا چاہتی ہوں
چراغوں سے ہوا کی دشمنی ہے
اسے ناکام کرنا چاہتی ہوں
انسان جب زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتا ہے تومشاہدے کرتا ہے ، سبق سیکھتاہے، تجربہ حاصل کرتا ہے اور پھر اسی کی روشنی میں آئندہ کی راہ متعین کرتا ہے۔ پروین شاکر نے بھی زندگی کی نرم گرم، سخت سست اور خشک و ترکیفیات دیکھ کر بہت کچھ جان لیا تھا۔ انہوں نے اس آگہی کو یوں ”غزل بند“ کیا:
یہ کیسا اذنِ تکلم ہے جس کی تاب نہ ہو
سوال کرنے دیا جائے اور جواب نہ ہو
اگر خلوص کی دولت کے گوشوارے بنیں
تو شہر بھر میںکوئی صاحبِ نصاب نہ ہو
ہرا ہے زخمِ تمنا تواشک کیسے تھمیں
بہار میلے میں کیوں شرکتِ گلاب نہ ہو
ہمیں تو چشمہ¿ حیواں بھی کوئی دکھلائے
تو تجربہ یہ کہے گا، کہیں سراب نہ ہو
ہماری بے جہتی کا کوئی جواز نہیں
یہ دکھ تو اُنکا ہے جن کی کوئی کتاب نہ ہو
ہے مسئلہ مرے سورج مکھی قبیلے کا
کہ صبح نکلے مگر ساتھ آفتاب نہ ہو
چراغ طاقِ تمنا پہ رکھ کے بھول گئی
دعا وہ مانگ رہی تھی جو مستجاب نہ ہو
کبھی نہ تنگ ہو اُس پر زمین کا دامن
امیرِ شہر اگر آسماں جناب نہ ہو
پروین شاکر کے مجموعہ ہائے کلام ”خوشبو، صد برگ، خود کلامی، انکار اورکفِ آئینہ“کے عنوان سے شائع ہوئے۔”ماہِ تمام“ میں ”کفِ آئینہ“کے سوا ان کی تمام کتابوں کے اشعار شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک نثری تصنیف”گوشہ¿ چشم“ بھی شائع ہوئی جس میں ان کے لکھے ہوئے اخباری کالم موجود ہیں۔ اردو ادب کیلئے مثالی خدمات کے اعتراف میں انہیں”تمغہ¿ حسن کارکردگی“ سے بھی نوازا گیا۔ یہ عظیم، منفرد اور مقبول شاعرہ 26دسمبر 1994ءکو اسلام آباد میںاپنے دفتر جاتے ہوئے ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئی تھیں۔ ان کی موت سے دنیائے ادب میں پیدا ہونے والا خلا19برس گزرنے کے باوجود تاحال پُر نہیں ہو سکا۔
******

شیئر: