Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گٹکے کی تیار ی میں گائے کا خون،تیزاب او ر افیون استعمال !!

کیڑے بھی پڑ جاتے ہیں اور پھر یہی کیڑے انسان کو کھا جاتے ہیں، ذمہ دار گٹکے بنانے والے ہیں جن کی فیکٹریوں کے مالکان کروڑپتی بن چکے ہیں، کیا حکومت واقعی اس زہر کو ختم کرنے کیلئے تیار ہے؟
تحریر :۔ ابو فرقان
گٹکا ،ایسا زہر ہے جسے کھانے والا مزے لیتا ہے اور پھر عمر بھر پچھتاتے ہوئے قبر تک جاپہنچتا ہے۔ سول اسپتال میں نصف منہ کٹے ،بدترین صورتحال سے دوچار مریض دیکھے تو گھر پہنچ کر کھانا تک نہیں کھایاگیا۔کافور،گائے کے خون اور تیزاب سے بنائے جانے والے گٹکے میں سڑنے کے بعد کیڑے پڑ جاتے ہیں اور یہی کیڑے انسان کو کھا جاتے ہیں۔ڈاکٹر عاطف کہتے ہیں کہ گٹکا کھانے والااگر شروع میں ہی اسے چھوڑ دے تو بچ سکتا ہے ورنہ بعض اوقات ہمارے پاس کینسر کے ایسے مریض آتے ہیں جن کا علاج ہمارے لئے ممکن نہیں۔شہر کراچی میں گٹکے کیخلاف ’’بے سود‘‘ مہم جاری ہے مگر اس گٹکے کی فیکٹریوں کے کتنے ہی مالک کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ کیا حکومت واقعی اس زہر کو ختم کرنے کیلئے تیار ہے؟ گٹکے پر خصوصی رپورٹ بنانے سول اسپتال پہنچا تو ای این ٹی وارڈ کے باہر نوین کمار سے ملاقات ہوئی ۔ جس کا منہ سوجا ہوا تھا اور کینسر پھیل چکا تھا ۔نوین مایوس تھا ۔اس سوال پر کہ گٹکے کھانے کی وجہ سے آپ کو کینسرہوگیا، کیوں کھاتے تھے اور کبھی بنتے دیکھا ؟نوین کمار نے بتایا کہ گٹکے میں عجیب سا نشہ ہوتا ہے ۔15سال سے کھا رہا تھا۔ اس سے پہلے پان کھاتا تھا ،معلوم نہیں اس میں کیا ڈالتے ہیں جو ذائقے میں پان سے زیادہ اچھا ہوتا ہے ۔اس کو کبھی بنتے ہوئے نہیں دیکھا ۔اگر دیکھ لیتا تو شاید نہ کھاتا ۔ گھر والوں نے بہت روکا لیکن چھپ چھپ کر کھاتے تھے ۔بڑے بھائی بہت غصہ کرتے تھے کہ ہم نے کبھی سپاری تک نہیں کھائی اور تم یہ کیا کھارہے ہو؟ اب گھر والے بہت پریشان ہیں۔ اس بیماری کا کوئی حل ہی نظر نہیں آرہا۔ اب تک 4 مرتبہ کیموتھراپی کراچکا ہوں جس سے سرکے بال جھڑ جاتے ہیں۔ (اس دوران نوین کمار نے سر بھی دکھایا سارے بال جھڑ چکے تھے)۔بھائی بھی میرے ساتھ اسپتالوں کے چکر کاٹ کاٹ کر پریشان ہوگئے ہیں۔ بیوی بچے بھی افسردہ رہتے ہیں۔ اس حالت میں کوئی کام بھی نہیں کر سکتا بڑاپریشان ہوں ۔میرے ا س سوال پر کہ گٹکہ کھانے سے نشہ ملتا ہے کیا کھاتے وقت گندگی محسوس نہیں ہوتی؟ نوین کمار نے کہا کہ اگر گندگی محسوس ہوتی یا بدبوہوتی تو چھوڑ نہیں دیتے؟ اس کو کھانے میں ایک مزا اور نشہ ہوتا ہے جسے کھانے والا چھوڑتا نہیں البتہ اگر اس کو بنتے دیکھ لیتے تو شاید چھوڑ دیتے ۔15 سال سے کھارہا ہوں ۔4 ماہ پہلے منہ میں ایک چھوٹا سا چھالہ ہوا تھا جو بڑھتے بڑھتے کینسر بن گیا ۔نوین کمار کے بھائی کشور لال نے بتایا کہ میں نے اسے گٹکا کھانے سے بہت روکا لیکن چھپ چھپ کر کھاتا تھا ۔اب علاج کیلئے مختلف اسپتالوں کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن کہیں بھی تسلی بخش علاج نہیں ہورہا۔ بڑے پریشان ہیں اس وقت کیمو تھراپی سے علاج ہورہا ہے ۔نوین کمار اپنے کئے پر بہت پشیمان ہے۔ راتوں کو اٹھ کر روتا ہے اور اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے۔اللہ ہر شخص کو اس بیماری سے محفوظ رکھے۔خاندان والے اس کی بیماری کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ اس کے کھانے پینے کیلئے برتن الگ کردیئے ہیں تاکہ گھروالوں کو پریشانی نہ ہو لیکن بہت افسوس ہوتا ہے جب یہ الگ کھاتا ہے ۔ نوین کمار نے مجھ سے بات کرتے ہوئے التجا کی کہ جولوگ اپنے بچوں اورگھر والوں سے محبت کرتے ہیں وہ کبھی بھی ان چیزوں کے قریب نہ جائیں ورنہ وہ بھی میری طرح اس اذیت میں مبتلا ہوسکتے ہیں ۔بڑ ی بیٹی 15 سال اور بیٹا 11سال کا ہے۔ گھر والوں کا رو رو کر برا حال ہے۔کیمو تھراپی کرانے کے بعد ایسی حالت ہوجاتی ہے کہ بستر سے اٹھ نہیں سکتا ۔پورے جسم میں درد ہوتا ہے۔ کھا نے پینے کو دل نہیں چاہتا۔زبان میں کسی کھانے کا ذائقہ نہیں آتا۔ ایسا لگتا ہے مٹی کھارہا ہوں ۔جسم میں پانی کی کمی سے گردوں میں تکلیف ہوجاتی ہے۔ خون کم ہوجاتا ہے ۔کھانا جو آرام سے کھاسکتے ہیں ان میںزیادہ تر نرم اور ہلکی غذائیں شامل ہیں۔مرچی اور مرغن کھانوں سے جلن اورتکلیف ہوتی ہے۔کھانے میں جوسہولتیں پہلے تھی وہ اب نہیں ہیں ۔ مریضہ حنیفہ نے بتایا کہ گلے میں غدود ہوگیا تھا جس کا آپریشن کرایا ہے ۔کھانا کم کھایا جاتا ہے اور آواز بھی کم ہوگئی ہے۔ 4سال سے اس مرض میں مبتلاتھی ۔5بچے ہیں ۔میں گٹکا ،پان ،چھالیہ بھی نہیںکھاتی البتہ میرا بھائی گٹکا کھاتا ہے ۔ 16سالہ شاہین اپنے باپ کے کینسر میں مبتلا ہونے کے بعد فیکٹری میں ملازمت کرنے پر مجبور ہے جبکہ اس کی بڑی بہنیں بھی ملازمت کرتی ہیں۔ شاہین نے بتایا کہ ابو میری پیدائش سے پہلے 20 سال سے گٹکا کھارہے ہیں ۔کئی مرتبہ کھانے سے روکا لیکن کھاتے رہے، نہیں مانتے تھے اور آج ہم یہاں اسپتال کے دھکے کھارہے ہیں۔ہم قائد آباد سے یہاں آتے ہیں ۔ہمارے ملک سے یہ ساری نشہ آور چیزیں ختم کی جائیں ۔حکومت بے حس ہے۔ ان چیزوں کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں ہورہی ۔ حکومت اور متعلقہ اداروں سے درخواست کروں گی کہ خدارا اس لعنت کو ختم کر نے میں موثر کردار ادا کیا جائے۔گلیوں اور محلوں میں چھوٹی چھوٹی دکانوں پر بھی یہ زہر آسانی سے دستیاب ہے حکومت کوکارروائی کرنی چاہے۔ہم 6 بہن بھائی ہیں سب ابو کو کھانے سے روکتے تھے۔ محمد متین نے نہایت افسردگی سے کہا کہ بیوی کئی مرتبہ غصہ کرتی تھی۔ لڑتی بھی تھی اس کے باوجود میں کھاتا رہا ۔ بیوی او ر بچوں کو دکھی اور پریشان ہوتا دیکھتا ہوں تو پچھتاوا ہوتا ہے۔شروع میں منہ میں تکلیف ہوتی تھی پھر گوشت پھٹتاچلا گیاجو بڑ ھتے بڑھتے کینسر بن گیا ہے۔ڈاکٹر نے 3ماہ پہلے بتایا کہ کینسر ہوگیا ہے۔مجھے کھانے میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی ۔ البتہ مرچی اور مرغن غذائیں کھاتا ہوںتو سینے میں جلن ہوجاتی ہے ۔منہ کے اندر گوشت بڑھتا جارہا ہے جس سے کھانے میں پریشانی اور تکلیف ہوتی ہے۔سادے او ر ہلکی ہری مرچ کے ساتھ کھاتاہوں۔جس طرح پہلے ہوٹلوں میں دوستوں کے ساتھ کھانا کھاتا تھا آج نہیںکھا سکتا گزراہوا وقت یاد آتا ہے تو افسردہ ہوجاتا ہوں لیکن اب میں بے بس ہوں کچھ نہیں کرسکتا۔اگر گوشت زیادہ کھانے میں آجائے تو منہ کے اندر سے گوشت بڑھنا شروع ہوجاتاہے جس سے پریشانی ہوتی ہے۔گھر میں واحد کمانے والا تھا۔ اب ایک بچی فیکٹری میںملازمت کرتی ہے۔میں اپنے تما م بھائیوں سے کہوں گا کہ مجھے دیکھ کر عبرت حاصل کریں تاکہ ان مشکلات کاسامنا نہ کرناپڑے جن سے میںگزررہا ہوں ۔ہماری تو زندگی ختم ہورہی ہے۔ ہمارے پاس اب پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اپنی اور اپنے بیوی بچوں کیلئے مجھے دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔حکومت سے درخواست ہے کہ گٹکا مافیا کے خلاف موثر انداز میںکارروائی کرے۔ مریض محمد یٰسین نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرا تعلق ٹنڈو الہیار سے ہے ۔ 15سال سے مین پوری اور پان کھا رہا ہوں جس سے منہ میں کینسر ہوگیا ۔ مین پوری میں شیشہ ملایا جاتا ہے۔ایک چھوٹا بیٹا ہے جس کے مستقبل کیلئے پریشان ہوں۔چند ماہ پہلے ڈاکٹر نے بتایا کہ کینسر ہوگیاہے۔ مین پوری میں کوئی مزہ نہیں ہے بس نشے کے لیے کھاتے تھے۔ اگر بنتے دیکھ لیتے اور معلوم ہوتا کہ اس میں شیشہ ملایا جاتاہے تو کبھی نہیں کھاتے۔ مریض وحید خان کی گٹکے کھانے کے باعث حالت خراب تھی۔ منہ میں کھانے کی نلکی لگی ہوئی تھی جس سے ہلکی غذائیں دی جارہی تھی ۔ آپریشن کے باعث ہونٹ کٹے ہوئے تھے اس سے بولا نہیں جارہاتھا اسے بھی ڈاکٹر نے کینسر بتایا ہے ۔وحید خان نے بہت دھیمی آواز اورنقاہت کے ساتھ بتایا کہ شروع میں منہ میں چھوٹا سے چھالہ ہوا پھر زخم بنا اور بڑھتے بڑھتے کینسر بن گیا۔ماضی کی باتیں یاد آتی ہیں۔ اپنی حالت اور گھروالوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے لیکن میں بے بس ہوں کچھ نہیں کرسکتا ۔میرے دوست میری حالت دیکھنے کے باوجود بھی گٹکے نہیں چھوڑتے۔ میری ان سے درخواست ہے کہ وہ عبرت کا نشان بننے سے پہلے گٹکا کھانا چھوڑدیں ۔حکومت گٹکے کے خلاف صحیح آپریشن کررہی ہے۔ نسرین (وحید خان کی ساس)میرا بیٹا بھی گٹکا کھاتا تھا۔داماد کی حالت دیکھ کر اس نے گٹکا کھانا چھوڑدیاہے۔ ہم حیدرآباد سے آئے ہیں ۔داماد وحید کی حالت دیکھ کر بہت رونا آتاہے۔وحید 10سال سے گٹکا کھارہا تھا۔ کئی مرتبہ سمجھایا لیکن وہ نہیں مانا۔میری بیٹی اپنے چھوٹے بچے اور شوہر کو دیکھ کر اداس رہتی ہے کسی سے کچھ نہیں کہتی ۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وحید صحیح ہوجائے گا۔3مہینے سے کھانا بند ہے۔ نلکی کے ذریعے صرف پانی والی چیزیں دی جارہی ہیں۔ایک سال سے مرض میں شدت آگئی ہے۔ 10روز پہلے آپریشن ہواہے۔ مریض کے ساتھ ایک خاتون نے انکشاف کیا کہ میں نے گٹکا بنتے دیکھا ہے۔ اس میں تیزاب ،گائے کاخون ،چونا اور ایک سبز رنگ کا کیمیکل جس کو ناس بھی کہتے ہیں ڈالا جاتاہے جو خراب چھالیہ کو گلانے کیلئے ڈالا جاتا ہے ۔پھر مشینوں سے مکس کیاجاتاہے۔ایک مریض نے بتایا کہ گٹکے میں افیون بھی ڈالی جاتی ہے۔ایک مریض کے رشتے دار محمد اصغر نے جس نے کچھ روز پہلے ہی مین پور ی کھانا چھوڑی ہے بتایا کہ گٹکے میں رکھے رکھے کیڑے پڑ جاتے ہیں جس میں کافور کی گولیاں ڈالی جاتی ہیں تاکہ بدبو دور کی جاسکے ۔ ضعیف خاتون نے اس موقع پر (روتے ہوئے) بتایا کہ میرے منہ میں کینسر ہوگیا ہے۔میں نسوار کھاتی تھی ،اب بہت تکلیف ہے۔حیدرآباد میں رہتی ہوں،اپنی بہن اور بیٹے کے ساتھ سول اسپتال آئی ہوں مگر میری تکلیف دیکھ کر بیٹا میرے ساتھ نہیں بیٹھتا،میں اندر وارڈ میں ہوتی ہوں جبکہ بہن اور بیٹا باہر زمین پر سوتے ہیں۔انہیں تکلیف میں دیکھ کر دل دکھتا ہے۔میرے بیٹے نے مجھے دیکھ کر مین پوری کھانا چھوڑ دی ہے۔اب پتہ نہیں میرا کیا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
مزید پڑھیں: بایو پسی سے کینسر پھیلتا نہیں، صحیح تشخیص اور علاج میں معاون ہوتا ہے، ڈاکٹر

شیئر: