Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل ہمارا شکر گزار

سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار عکاظ کے کالم کا ترجمہ قارئین کی نذر ہے۔
اسرائیل ہمارا شکر گزار
خلف الحربی ۔ عکاظ
امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے سفارتخانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کے اعلان کے بعد عربوں نے جو کچھ کیا وہ یہ تھا کہ ہم میں سے ایک ٹویٹر یا فیس بک پر گھوڑے پر سوار ہوا۔ اس نے عربوں کو گالیاں نکالیں۔ انہیں خائن، غدار اورصہیونی قرار دیاا ورپھر اپنے بستر پر اس اندازسے جاکرمحو خوا ب ہوگیا گویا کہ وہ صلاح الدین ایوبی کا کوئی جانشین ہے۔ نصف صدی قبل جب بیت المقدس پر اسرائیل نے ناجائز قبضہ کیا تھا تب بھی عربوں نے یہی سب کچھ کیا تھا۔ تب سے اب تک عرب اسی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ انکے پاس دشنام طرازیوں اور ایک دوسرے کو غدار کہنے کے سوا کچھ اور نہیں۔ دوسری جانب اسرائیل ہے جو عربوں کے درمیا ن پڑنے والی ا س قسم کی دراڑوں او ر سالہا سال ان میں ہونے والے اضافے پر بغلیں بجاتا ہے۔ یہ سب کچھ اتنا زیادہ ہورہا ہے کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ایک دن وہ بھی آئیگا جب اسرائیل ہم سے اپیل کرتے ہوئے کہے گا کہ آپ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کچھ نرمی برتا کیجئے۔ 
ٹرمپ کے اعلان کے بعد اسرائیل کے ساتھ سیاسی، اقتصادی، عسکری اور ثقافتی تعلقات رکھنے والے کسی بھی عرب اور مسلم ملک نے بائیکاٹ کا کوئی اقدام نہیں کیا۔ ایسے عالم میں جب عرب اور مسلم ممالک میں ہر چہار سو امریکہ کے فوجی اڈے بنے ہوئے ہیں اور مالدار مسلم و عرب ممالک کی معیشت امریکی کمپنیوں کے ساتھ تعاون سے جڑی ہوئی ہے ایسے عالم میں غریب مسلم و عرب ممالک کی معیشت امریکی امداد کے سہارے چل رہی ہے۔ ایسے عالم میں آپ عربوں او رمسلمانوں سے امریکہ کے خلاف بدگوئی سے زیادہ کی کیا توقع کرسکتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ عرب زبان زوری کی قدرت رکھتے ہیں لیکن اسکا استعمال درست طریقے سے نہیں کرتے۔ عرب ایک دوسرے کو گالیاں دینے میں طاق ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف دشنام طرازی میں کافی محتاط ہیں۔
اگر ہم تاریخ کے منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ عربوں کا ایک دوسرے کو غدار کہنا اور دشنام طرازیوں کاجشن منانا ایسا عمل ہے جس سے صرف اسرائیل فائدہ اٹھا رہا ہے۔ غالباً قارئین کو یاد ہوگا کہ حقیقی غداروں نے دوسروںپرغداری کے الزامات کس طرح بڑھ چڑھ کر لگائے۔ امن مذاکرات کے دوران یہ سب کچھ ہوا۔ اس کا فائدہ اسرائیل نے اٹھایا۔ اس نے ہرعرب ملک کے ساتھ الگ الگ مذاکرات کئے اور ہر ایک کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ آئندہ بھی یہی ہوگا۔ عربو ںکی باہم دشنام طرازی سے صرف اور صرف اسرائیل ہی کو فائدہ پہنچے گا ۔کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل ان تمام عربوں کے حضور سلام شکر پیش کریگا جنہوں نے القدس کے حوالے سے ٹرمپ کے فیصلے کے بعد صرف ایک دوسرے کو غدار کہنے پر اکتفا کیا اور شو ر و ہنگامے کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: