Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہر ٹیچر ہمارے سوالات سے عاجز، ہمیں کلاس سے باہر کردیتے

ہم اسٹیج پر اکیلے تھے یہ دیکھ کر ہمارا دل ہمارے گلے میں دھڑکنے لگا، ہم نے خشک ہوتے ہوئے گلے کو تھوک سے تر کیا اور کبڑے ہو کر ڈائس میں چُھپنے لگے
زاہدہ قمر-جدہ
(دوسری قسط)
اپنے گھر کا حال تو ادھورا ہی رہ گیا۔ ہمارے بعد ہمارے 3 بہن بھائی اور ہوئے یعنی ایک بہن اور 2 بھائی۔ دونوں بھائی تو ہمیں کسی خاطر میں ہی نہیںلاتے تھے حالانکہ ہم ان کی اچھی خاصی ’’خاطر‘‘ کرتے تھے مگر بہن جو سب سے چھوٹی تھی بلاشبہ بہت پیاری تھی اور ہے۔ اسے دیکھ کر لوگ ہمیں دیکھنا بھول جاتے ۔ معلوم نہیں بہن دنیا میں کیوں آئی حالانکہ ہم نے تو کبھی رسماً بھی نہیں گنگنایا تھا کہ ’’ ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘،گھر والوں کی محبت میں زرا بھی کمی نہیں آئی ، لہٰذا ہم نے بھی چھوٹے بھائی اور بہنوں سے دوستی کا رویہ رکھا۔ اماں مجھے اور بڑی بہن دونوں کو اسکول چھوڑنے اور لینے آتی تھیں۔ جیسے جیسے ہماری عمر اور کلاس بڑھتی گئی ہماری عقل و فہم نا قابلِ بیان بلکہ کسی حد تک نا قابلِ برداشت حد تک بڑھتی چلی گئی۔ ہم اپنی کلاس کے ’’آئوٹ اسٹینڈنگ‘‘ اسٹوڈنٹ کے طور پر مشہور ہونے لگے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہر مضمون کی استاد ہمارے ذہانت سے پُر (ہماری دوستوں کے بقول ’’ذہانت سے پُھر‘‘) سوالات سے عاجز ہو کر ہمیں کلاس سے باہر نکال کر کھڑا کر دیتں یعنی ‘‘ آئوٹ اسٹینڈنگــ‘‘ ہماری پہچان بن گئی۔ پانچویں چھٹی جماعت تک پہنچتے پہنچتے ہم پورے اسکول میں مشہور ہو چکے تھے۔ اور جب ہمیں اماں نے اپنے حصے کی نیکی کا درس دیا تو ہم نے اسے اپنے پلو سے باندھ لیا۔ ہم ہر روز ایک نیکی ضرور کرتے کبھی کسی بوڑھی نابینا عورت کو زبردستی سڑک پار کرواتے (زبردستی اس لئے کہ وہ سڑک پار نہیں کرنا چاہتی تھی) کبھی چڑیا کے گھونسلے میں رکھے انڈوں کے نیچے گھاس پھوس بچھاتے ، اماں ابا کے سر میں تیل کی پوری بوتل انڈیل کر مالش کرتے اور ان سے دُعائیں لیتے۔ پانی سے بھیگی ہوئی چیونٹیوں کو دیوا پر چپکاتے اور اماں کے ساتھ کچن میں کام کرکے ان کی محبت سمیٹتے۔ اب احساس ہوتا ہے کہ ہم اماں کے کاموں کو بٹاتے نہیں بلکہ بڑھاتے تھے مگر ان کی زبان دُعائیں دیتی نہیں تھکتی تھیں ۔لگتا تھا کہ ہم نے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اب پتہ چلتا ہے کہ کارنامہ تو وہ کرتی تھیں ۔ اب کہاں ایسے فرشتہ صفت لوگ۔اب کہاں، کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہو گئیں۔ یوں تو ہمارے اسکول کا پورادور ہی ہنگامہ خیز رہا مگر اس دور کا ایک واقعہ بُھلائے نہیں بھولتا ہمیں کمپئیرنگ کا بڑا شوق تھا مگر موقع نہیں مل رہا تھا ۔ایک بار ہماری مُرادبر آئی ۔ہوا یوں کہ میز بانی کرنے والی طالبہ چھٹی پر چلی گئی اور اسکول میںاچانک ہی یوم اقبال کی تقریب کے انعقاد کرنے کا اعلان ہو گیا ۔ہم نے موقع غنیمت جان کر اپنی نگران ٹیچر کو اپنی خدمات پیش کیں اور بتایا کہ ہم سے بہترین مقرر اور میزبان چراغ لے کر ڈھونڈے سے نہیں ملے گا( بات سچ تھی ہم سے اچھا ہی ملے گا) وہ تھوڑے سے تامل کے بعد راضی ہو گئیں ہم نے3 دن تک پریکٹس کی کہ جب اسٹیج پر جائیں گے تو مقررین اور دیگر لوگوں کو بلانے سے پہلے ایک چھوٹی سی تقریر اقبال کی شاعری پر ضرور کریں گے۔ خوب خوب اشعار یاد کئے اور اپنی میزبانی نما تقریر کو اچھے الفاظ کا پیراہن پہنا کر دن گننے لگے ۔ آخر وہ دن آہی گیا جب ہم اپنے جوہر دکھا کر ماہر ڈاکوئوں کی طرح محفل لوٹ لیتے ۔۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔یہ ڈاکو کہاں سے آگئے؟؟ کیا کریں قارئین !ملکی خصوصاً کراچی کے حالات کا ہمارے ذہن پر بُرا اثر پڑا ہے تو جناب!! مقررہ دِن ہم خوب تیار ہو کر پہنچے اور جیسے ہی اسٹیج پر پہنچے تو دل دھک سے رہ گیا۔ تمام طالبات ، اساتذہ اور پرنسپل سب کی نظریں ہم پر تھیں۔ ہم اسٹیج پر اکیلے تھے یہ دیکھ کر ہمارا دل ہمارے گلے میں دھڑکنے لگا اور ہم نے دونوں ہاتھوں سے ڈائس (روسٹرم) پکڑ لیا، گویا وہ ہماری آخری اُمید ہو ۔۔۔ ہم نے خشک ہوتے ہوئے گلے کو تھوک سے تر کیا اور کُبڑے ہو کر ڈائس میں چُھپنے لگے کہ چُھپ کر کمپیئرنگ کریں گے کہ اچانک ایک منحوس لڑکی نے آکر ہمارے سامنے سے ڈائس کھسکانا شروع کر دیا۔ ہماری لرزتی آواز پر پوچھے جانے پر اس نے بتایا کہ یہ پرنسپل کا حکم ہے کہ اسٹیج پر ڈائس نہیں ہونا چاہئے۔وہ اپنے ساتھ 2 مددگار لڑکیاں بھی لائی تھی۔ ان لوگوں نے منٹوں میں ڈائس (روسٹرم) ہمارے سامنے سے ہٹا دیا۔ اب ہم لرزتی ٹانگوں والے کُبڑے بنے حاضرین کے روبرو کھڑے تھے۔ ہمارے ہاتھوں میں مائیک تھا اور ہم گھبراہٹ میں کبھی اپنا دامن ٹھیک کر رہے تھے تو کبھی بال۔۔۔ یہ دیکھ کر سامنے بیٹھی نالائق لڑکیوں کا گروپ ہم پر ہنسنے لگا اور ہماری نگران ٹیچر ہمیں اشارے سے کمپئرنگ شروع کرنے کا اشارہ کرنے لگیں ہم نے ہلتی ٹانگوں اور کانپتی آواز میں حاضرین کو سلام کیا ،ہماری سانس پھولی ہوئی تھی اور مائیک پر صاف سُنائی دے رہی تھی جس پر سنجیدہ طالبات بھی مسکرانے لگیں۔ہم نے یہ دیکھ کا جوش میں آکر گلا کھنکھار کر صاف کیا اور یوں لب کشا ہوئے بہنوں !! اقبال بڑے شاعر تھے، وہ اتنے اچھے تھے کہ کیا بتائیں کیونکہ وہ اچھے تھے۔۔۔۔ اس لئے وہ اچھے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ اچھے تھے، چناچہ وہ اچھے تھے۔ نالائق بچیوں کی مسکراہٹ ہنسی اور پھر قہقہوں میں ڈھل گئی، ہم نے یہ دیکھ کر کمپیئرنگ کا صفحہ کھولا تاکہ دیکھ کر پڑھ سکیں تو معلوم ہوا کہ ہاتھوں میں دھوبی کا حساب تھا ۔ ہم نے روانی میں جملہ مکمل کیاتو کچھ یوں بنا کہ ’’ہم اقبال کی شاعری کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دو تولیے بڑے اور ایک سفید سوٹ اب تک نہیں ملا، ایک چھوٹی چادر بھی غائب ۔۔۔۔۔ ‘‘ ہم پڑھتے پڑھتے قہقہوں کے شور سے چونکہ پرنسپل ہمیں غُصے سے یوں دیکھ رہی تھیں گویا چمکتے سیبوں کی باسکٹ میں کوئی گلا سڑا سیب دیکھ لیا ہو۔ نگران ٹیچر اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتی اسٹیج کی سیڑیاں چڑھ رہی تھیں۔ ہم نے آخری کوشش کے طور پر جاوید میانداد کا چھکا یاد کیا اور صورتحال کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے پوری جان سے چلائے ۔ اپنی پربادی پر ہنسنے والی قوم کی لڑکیوں ! تم اس قوم کی اُمید ہو، تم اس قوم کی ماں ہو۔۔۔۔ جس نے تاجِ سردارا کچل ڈالا۔۔۔۔۔۔تم موم بتی ہو، تم روشنی ہو، تم پیٹرول ہو، تم، تم، تم ایندھن ہو۔۔۔۔ (ہنسی اور قہقہوں کا شور) وجود ذن سے ہے۔۔۔۔ اچانک کسی نے ’’زن‘‘ سے ہماری ہاتھ سے مائیک جھپٹ لیا یہ ہماری نگران ٹیچر تھیں جواب صورتحال کو سنبھال رہی تھیں ہم نے ایک ہی ذقند میں اسٹیج کی سیڑھیاں پھلانگیں اور ہال سے باہر نکل گئے۔ وہ دن اور آج کا دِن ہم نے تقریر اور کمپٗیرنگ پر خود ہی پابندی لگا لی۔وہ دِن یاد کرکے ہم بہت دِن روئے اور شرمندہ رہے۔ ہر ناکامی پر یہی لگتا تھا کہ اب زندگی ختم ہو گئی ہے حالانکہ اس وقت احساس ہو رہا ہے کہ وہ زندگی ہی دراصل زندگی تھی۔بچپن کی اُوٹ سے جھانکتے ایک اور واقعے نے ہماری توجہ کھینچ لی جیسے کوئی معصوم بچہ ماں کا آنچل کھنچ کر اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ۔
(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭

 

شیئر: