Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہے تو بڑا فنکار وہ..... رباب کی آواز بھراگئی

دانیال احمد۔ دوحہ قطر
پہلی قسط
سردیوں کی ایک اداس شام تھی۔ ہوا کی یخ بستگی سے اس کا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا اور وہ بار بار اپنی شال کو ایک کندھے سے دوسرے کندھے تک لپیٹ رہی تھی۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو سامنے رکھی انگیٹھی کے قریب لے جا کر ایک پھٹے پرانے کاغذ سے کچھ پڑھ رہی تھی جیسے کسی اپنے کا خط ہو جسے پڑھ کر دل کی بے چینی کو قرار ملتا ہو۔ خط پڑھتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے اور وہ زیر لب کہہ رہی تھی "زندگی کو تیرے فراق کے بعد، میں نے اک غم کی شام لکھا ہے" پھر اچانک کسی نے اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھا اور سرگوشی کرتے ہوئے کہا! " ہائے تمہارے بعد رہا زندگی میں کیا، تنہا اداس شامیں اور یادوں کے سلسلے" یہ سن کر وہ چونکی اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اب اس کے چہرے کا رنگ یکسر تبدیل ہوا اور غصے سے بولی، " رباب! میں نے تمہیں کتنی مرتبہ منع کیا ہے کہ مجھے اس طرح تنگ مت کیا کرو اور اپنی یہ شعرو شاعری تو بالکل بھی مت سنایا کرو مجھے۔ بہت الجھن ہوتی ہے مجھے اس سے۔" رباب یہ سن کر مسکرا ئی اور ایک اور شعر داغ دیا! " اسے تو محسن بلا کی نفرت تھی شاعروں سے، پھر اس کے ہاتھوں میں شاعری کی کتاب کیوں ہے" اب وہ کہنے لگی، " واہ بھئی میڈم ثناء کیا کہنے تمہارے بھی،،، ہماری شاعری سے الجھن اور یہ جو مدتوں سے کاغذ کا ٹکڑا سینے سے لگائے بیٹھی ہو، اس میں شاعری نہیں تو کیا ماہانہ گھر خرچ کا حساب لکھا ہے؟" ثنا رباب کی یہ بات سن کر آپے باہر سے ہو گئی اور ہاتھ میں پکڑے اس کاغذ کو مسلتے ہوئے بولی، " ہاں اس سے بھی نفرت ہے مجھے،،، جلا دوں گی کسی دن اس کو آگ میں۔" رباب ایک گہرا سانس لے کر کہنے لگی، " یہ بے جان کیا جلے گا،،،، جل تو ہم سب رہے ہیں آگ میں وہ بھی زندہ، جیتے جی۔" ثناء یہ سن کر رو پڑی، " ٹھیک کہا تم نے رباب،،، ہم سب ہی جلے ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ تم پہلے سے سونا تھیں سو جل کے کندن ہو گئیں اور میں،،، میں کوئلہ ا تھی جل کے راکھ ہو گئی۔" کراچی شہر کی ایک مصروف شہاہراہ پر 2موٹر سائیکل سوار لڑکے بڑی تیز رفتاری سے گزر رہے تھے۔ دونوں میں گہری دوستی تھی اس لیے وہ ایک دوسرے سے خوب باتیں کرتے اور پاس سے گزرنے والے لوگوں کو دیکھ کر ان کامذاق اڑاتے ہوئے جا رہے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے نے بھیڑ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اچانک ایک راہ گیر کے ہاتھ سے اس کا بٹوا اور موبائل فون اچک لیا۔ اب اس کی حرکت پر اس کے دوست نے سڑک کے کنارے موٹر سائیکل روکی اور سخت ناراض ہو کر کہنے لگا، "ریان ! تمہاری انہی فضول حرکتوں پر مجھے تم پہ بہت غصہ آتا ہے۔ پہلے تو تم صرف جیب کاٹتے تھے لیکن اب تو باقائدہ چھینا جھپٹی شروع کر دی ہے۔ یہ کس طرف چل پڑا ہے تو میرے بھائی،،، چھوڑ دے یہ گناہوں کا رستہ،،، سدھر جا،،، کہیں ایسا نہ ہو کہ تیری ان حرکتوں کے برُے تائج تیرے ساتھ ساتھ تیرے گھر والوں کو بھی بھکتنے پڑ جائیں۔" ریان انگڑائی لیتے ہوئے، " یار کاظم،،، تو ہمیشہ بچہ ہی رہے گا۔ ڈرپوک، ممی ڈیڈی بچہ،،، ارے میرے یار آج کل سبھی کرتے ہیں یہ کوئی میں اکیلا نہیں کر رہا۔ یہ سب سے آسان طریقہ ہے پیسہ کما کے امیر ہونے کا۔ اب دیکھ نا، لوگ ساری عمر نوکری اور کاروبار میں خوار ہوتے ہیں پھر بھی کچھ زیادہ بڑی رقم نہیں جمع کر پاتے جبکہ اپنے کام میں اربوں کی کمائی کے ساتھ ساتھ دہشت اور بھرم بھی ہوتا ہے بندے کا۔ آدمی راجہ بن کے رہتا ہے اس کام کی برکت سے بھائی،،،" کاظم نے اس کی باتوں سے چڑ کر کہا، " دیکھ ریان ! اگر تو کسی دن پکڑا گیا نا تو میں نہیں آئوں گا تجھے چھڑانے کے لیے اور میں تو صاف کہہ دوں گا کہ میرا کوئی تعلق نہیں تیری کسی بھی کاروائی سے۔ خود ہی بھگتنا اپنے کیئے کو پھر۔" اب ریان بھی جذباتی ہو گیا۔ "ہاں ہاں بھائی آخر تو ٹھہرا پروفیسر ڈاکٹر سید حسن رضا کا بیٹا سید کاظم رضا۔ اپنی یونیورسٹی کا سب سے نمایاں اسٹوڈنٹ۔کلاس کا سی آر اور ہردل عزیز انسان، تو بھلا مجھ جیسے فارغ، بیکار لڑکے کی وجہ سے معاشرے میں اپنی عزت کیوں گنوائے گا،،،" کاظم کچھ افسردہ سے لہجے میں بولا، " ایسی بات نہیں ہے ریان،،، میں تو بس اتنا چاہتا ہوں کہ لوگ تیری بھی عزت کریں اور کوئی تجھے نکما، بیکار وغیرہ نہ کہے۔ لیکن تو ہے کہ سدھرنے کے بجائے مزید بگڑتا ہی چلا جا رہا ہے۔"
(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭ 

شیئر: