Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اردگان صاحب سمجھ سے کام لیجئے

احمد عدنان ۔ عکاظ
  شہرہ آفاق عرب گلوکارہ ام کلثوم نے جب امیر شعراءالعرب احمد شوقی کا تخلیق کردہ قصیدہ ”ولدالھدی“ گایا تو مصر کے ایوان شاہی نے اس قصیدے کے ایک مصرعہ ”الاشتراکیون انت امامھم لولا دعاوی القوم والغلوائ“ حذف کرنے کا حکم جاری کیا۔ اس پر ام کلثوم نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مصر کے حکمراں شاہ فاروق کی حکومت کا تختہ اس دخل اندازی کی بنا پر الٹ سکتا ہے۔ حذف کے لئے مطلوب مصرعہ کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ (اگر اہل قوم کے دعوے نہ ہوں توآپ سوشلسٹوں کے امام ہیں )۔ اگر آج ام کلثوم حیات ہوتیں اور انہیں پتہ چلتا کہ ایک تاریخی تحقیق سے متعلق ری ٹویٹ کی بنا پر رجب طیب اردگان کا تخت ہلنے لگا ہے تو اس پر وہ کیا تبصرہ کرتیں؟
ترک صدر رجب طیب اردگان نے متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان کےخلاف سخت زبان استعمال کی تو مجھے ایک عربی کہاوت یاد آگئی۔”سمندر کی تہہ پہاڑ کی چوٹی کا منہ چڑا رہی ہے“۔
اگر معاملہ امارات کے شیخ عبداللہ بن زاید اور ترک صدر رجب طیب اردگان کا ہوگا تو فطری طور پر میں تجربہ کار محترم شخصیت عبداللہ بن زاید ہی کی جانبداری کرونگا تاہم یہاں تاریخ سے اردگان کی لاعلمی اور لوگوں کی قدرو قیمت سے انکی ناواقفیت ریکارڈ پر لانا چاہوں گا۔ ترک صدر نے غیر معیاری گفتگو کی۔ انہوں نے شیخ عبداللہ کے آباﺅ اجداد کے خلاف زبان درازی کی۔ اس موقع پر رجب طیب اردگان کو عبداللہ بن زاید کے دادا شیخ زاید بن خلیفہ کی شخصیت سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ شیخ زاید بن خلیفہ کو زاید اول اور زاید کبیر کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔
برطانوی قلمکار کلوڈ موریس لکھتے ہیں کہ :
”1855ءکے دوران ایک شخص اچانک منظر عام پر آیا ۔ نوشتہ تقدیر کے مطابق اسے افسانوی شخصیت بننا تھا۔ اسے اپنے طور پر متحدہ عرب امارات کا ہیرو مانا گیا۔ اس نے کامیابی سے اپنا راستہ بنایا۔ یہ شخص اپنی حکمت و فراست ، جذبے کو دماغ سے کنٹرول کرنے والی اہلیت کے حوالے سے مشہور ہوا۔ سیاسی حل کو پسند کرنا ، جنگوں کے آتش فشانوں کا سہارا نہ لینا اور قبائل کے درمیان کشمکش کی آگ بھڑکانے سے گریز کرنا اس شخصیت کا تعارف بنا۔“
کلوڈ موریس اپنی کتاب ”صقر الصحرائ“ میں تحریر کرتے ہیں کہ” زاید بن خلیفہ نے بے آب و گیاہ جلادینے والے ریگستان کے رہنماﺅں کو پیش آنے والے حوصلہ شکن حالات کا ڈٹ کر سامنا کیا اور برسر اقتدار آنے کے بعد کامیابی کا راستہ خود بنایا “۔
زاید الکبیر کے کارنامے بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے خلیج پر قزاقوں سے جنگ کی اور انہیں شکست دی۔ اُس زمانے میں قزاقی ہی دہشتگردی تھی۔ اس بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ زاید اول دہشتگردی کے خلاف جنگ کرنے والے تاریخی ہیرو ہیں۔
عبداللہ زاید نے دہشتگردی کے خلاف سیاسی اور سفارتی جنگ میں اپنے دادا کے مشن کو مکمل کیا۔ جہاں تک اردگان کا تعلق ہے تو ان کے خلاف دہشتگردی کی سرپرستی کے شواہد بہت زیادہ ہیں۔
سلطنت عثمانیہ نے متعدد مثبت کام کئے تاہم آخر میں ایک طرف تو جمود کا شکار ہوگئی اور دوسری جانب عظمت کے جنون کی اسیر بن گئی۔ اس طرح وہ مسلمانوںکی خلافت کی نمائندگی کے بجائے نسلی ترک ریاست میں تبد ہوگئی۔ اسکا کم از کم جرم پورے خطے کو ترکی کے رنگ میں رنگنے کی کوشش تھا۔
رجب طیب اردگان نے حال ہی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ :
”اگر القدس ہاتھ سے نکل گیا تو مدینہ بھی گنوا بیٹھیں گے اور اگر مدینہ ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا تو مکہ بھی ضائع ہوجائیگا اور اگر مکہ ضائع ہوا تو ہم خانہ کعبہ بھی گنوا بیٹھیں گے۔“
رجب طیب اردگان نے القدس سے متعلق استنبول میں سربراہ کانفرنس کے نتائج کا اظہار اس قسم کے مضحکہ خیز جملوں کے ذریعے کیا۔سربراہ کانفرنس کے بعد کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
القدس سے متعلق رجب طیب اردگان کی کوئی بھی بات میں اس وقت تک نہیں مانوں گاجب تک وہ اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات منقطع نہ کرلیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلم ملک ترکی ہی ہے۔ آج بھی ترکی اور اسرائیل کے تعلقات تمام شعبوں میں انتہائی گہرے ، انتہائی پرانے اور مضبوط ہیں۔اردگان جب بھی القدس اور فلسطین کی بات کرتے ہیں تو فلسطینیوں کو زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ترکی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کسی بھی قیمت پر منقطع نہیں کریگا۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: