ازدواجی زندگی میں امید و یاس ساتھ چلتے ہیں،ڈاکٹر بلقیس
مغرب میں بزرگوں کو رہ ِتر قی میں رکاو ٹ سمجھا جاتا ہے، ہوا کے دوش پر گفتگو
تسنیم امجد۔ ریا ض
شا عر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آ تی ہے اردو زباں آتے آ تے
یہ جملہ اکثر سننے کو ملاتھالیکن حال ہی میں ایک صا حبہ سے سنا کہ ” سچ پو چھیں تو مجھے اردو با لکل نہیں آ تی تھی جس پر شو ہر سے کچھ نہ کچھ سننا پڑ تا تھاکیو نکہ وہ خود تو نامی گرامی شاعر ہیں ۔ہمارا پراناتعلق تو ہندوستان سے ہے اور پڑ ھائی بھی ہم نے انگریزی میڈیم میں کی ۔اب جب انہوں نے اردو پڑھنا سکھائی تو اچھی لگنے لگی اور اب میں یقین سے کہہ سکتی ہو ں کہ:
یہ ہے ارسٹوکریسی زبان ِ اردوکی
فقیرخود کو تونگر سمجھنے لگتا ہے
آج یہ سب اس لئے یاد آ یا کہ ” اردو نیوز“ کی تعریف سنی تو دل با غ با غ ہو گیا ۔بڑے بھیا کہہ رہے تھے کہ میں نے یہ ا خبار صرف اس لئے لگوا رکھا ہے کہ بچے اسے پڑ ھیں۔رو زانہ ہر بچے کو کچھ نہ کچھ پڑ ھنے کے لئے دے جاتا ہو ںاور آ فس سے واپس آ کر سنتا ہوں۔اس طرح انہیں خا صی اردو آ گئی ہے ۔یہ سب بہت اچھا لگا ورنہ اکثرلوگ تو یہ کہہ کر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہما رے بچو ں کو اردو نہیں آتی۔
ویسے اس مرحلے پر اگرانٹر نیٹ کی مد ح سرائی نہ کی جائے توزیادتی ہو گی۔ یہ وہ ”جھمیلا“ ہے جس نے ساری دنیا کو اپنے ”نرغے“ میں لے کر دنیا بھر میں لاکھوں مربع میلوں کی وسعتوں کے حامل ممالک کے چپے چپے کوچند انچ کی اسکر ین پر سمیٹ کر عا لمگیر قریہ بنا دیا۔ یوں لگتا ہے کہ اسمارٹ فون اور ٹیب کی شکل میں ہمارے ہاتھوں اور لیپ ٹاپ کے روپ میں ہماری گود میںجام جم موجود ہے جس میں کرہ ارض کا نظارہ ممکن ہو چکا ہے۔اس انٹرنیٹ نے ہماری تنہائیوں کو محفل بنا دیا،معصوموں کو سنگدل بنا دیا،مقتول کو قاتل بنا دیا، ایک ہی گھر کے مکینوں کو ایک دوسرے کے لئے پرایا کر دیا،مشرق کو مغرب کا ہمسایہ کر دیا،شریکِ حیات کو بے مایہ کر دیا، غیر کو زندگی کا قیمتی سرمایہ کر دیا۔یہ انٹر نیٹ بھی ایک نشتر کی مانند ہے کہ قاتل کے ہاتھ میں ہو توزندگی بے نور ہوجائے اور طبیب کے ہاتھ میں ہو تو ہر مرض دور ہوجائے ۔اردو نیوز نے اس ٹیکنالوجی سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے کرہ¿ ارض پر قیمتی موتیوں کی طرح جا بجا موجود اردو دانوں کو ”ہوا کے دوش پر “ایک لڑی میں پرونے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے ۔
اردو نیوز نے ہوا کے دوش پر کراچی کی ڈاکٹر بلقیس رحمن کی میزبانی کی۔ ان سے ملاقات کر کے ذہن و دل پر جو احساس طاری ہوا اس کا منظوم اظہار یوں ہو سکتا ہے:
تو نے منزل کو ترا شا ہے جوا ں ہمت سے
تیرا ہر روپ وفا ، عزت و نا موس بقا
ڈاکٹر بلقیس رحمن ایک ایسی شخصیت ہیں جو شہرِ کراچی میں منفرد پہچان کی حامل ہیں ۔میدانِ عمل میں اپنی قا بلیت منوانا تو کو ئی ان سے سیکھے ۔ہم ان کی ہمہ جہت و ہمہ صفت شخصیت سے متا ثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکے ۔ان سے گفتگو متعددوقفو ں سے ہوئی۔وہ لاہور اپنی بیٹی جویریا کی گریجویشن تقریب میں شرکت کے لئے جا رہی تھیں ۔کہنے لگیں کہ یہ لمحے میرے لئے غنیمت ہیں ۔کچھ نہ کچھ اپنے بارے میں شیئر کرتی ہو ں ۔محترمہ بلقیس کی ای میل مو صول ہو ئی تو ان کی شخصیت کے مزید پہلو سامنے آ ئے ۔وہ سو شل ڈیولپمنٹ پرو فیشنل ہیں اور اس پر وہ گز شتہ16 بر س سے کام کر رہی ہیں ۔ا نہو ں نے 2013ءمیں اپنے مضمون سو شیا لو جی سے ہی متعلق مو ضو ع ”ایڈولیسنٹ ہیلتھ ایشوز“میں ڈاکٹریٹ مکمل کی اور ایسو سی ایٹ پرو فیسر کی حیثیت سے دو ادارو ں” اقرا ءاورنائس یو نیور سٹی“ سے منسلک ہو گئیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خوا تین کے حقوق پر کام کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا اہم مو ضو ع چا ئلڈ میرج ہے ۔ اس کے لئے ” این جی او“ خا صی فعال ہے ۔
ڈاکٹر بلقیس رحمن سے گفتگو کا سلسلہ بہت دلچسپ رہا ۔کہنے لگیں کہ شہر بھر کے اولڈ ہا ﺅ سز بھر چکے ہیں ۔اپنی مصرو فیات کا رونا روتے ہوئے آج بے حس اولاد بز ر گو ں کو گھروں سے نکال باہر کر رہی ہے ۔سینیئر شہری ، بز رگ یا والدین ایک ہی جیسی ہستیوں کے مختلف نام اور ایک ہی تصویر کے مختلف رخ ہیں جن کے وجود سے ملنے والا احساسِ تحفظ ہر انسان کے لئے ذہنی سکون کا باعث بنتا ہے ۔افسوس تو یہ ہے کہ ہمارا معا شرہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی مغر ب کی نقالی کرتے ہوئے ان ہستیوں کو اپنی زندگی اور وجود کے لئے بوجھ تصور کرنے لگا ہے۔ انہیں کون سمجھائے کہ مغرب کے معاشرے میں تو انہیں تر قی کی راہ میں رکاو ٹ سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے مشرق میں توہم ان کی دعاﺅ ں کے سہارے ہی ترقی کرتے ہیں۔ مغربی معاشرے میں والدین اور اولاد کے ما بین تعلقات کمزور ہوتے ہیں ۔یہی ان کی ریت ہے۔
ہمارے اجداد نے بز رگوں کو حقوق کی فہرست میں سب سے اولین درجہ دیا ہے۔ان کی خدمت ایک ایسا فر ض ہے جس میں کو تا ہی نا قابلِ معا فی ہوتی ہے ۔ان کے احسانات کو اولاد یاد کرتے نہیں تھکتی ۔آپ اکثر دیکھیں گے کہ بز رگ سڑ کو ں و گلیو ں میں ریڑ ھیا ں چلاتے یا اپنے نا توا ں کند ھو ں پر بو جھ ا ٹھاتے نظر آئیںگے۔ ان کا کہنا ہے کہ چند روپے ہم بہو یا بیٹے کے ہاتھ پر رکھتے ہیں تو ہمیں عز ت سے رو ٹی مل جاتی ہے ورنہ ہمارے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اس سے تو یوں لگتا ہے جیسے ہمیں باور کرایا جا رہا ہو کہ اب ہمیں دنیا سے رخصت ہو جانا چاہئے ۔
ڈاکٹر بلقیس یہ سب بتاتے ہوئے دکھی ہو رہیں تھیں ۔انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے طور پر ” احترام“کے نام سے ا یک اور’ ’ این جی او،، کی بنیاد رکھی۔اس کا مقصد بز ر گو ں کو ان کے حقوق دلانا ہے ۔چیدہ چیدہ فرائض میں ہم ان والدین کی دیکھ بھال کے لئے ” کیئر ٹیکر“ مہیا کرتے ہیںجن کی اولاد معاشی طور پر تو والدین کو رکھ سکتی ہے لیکن ان کی دیکھ بھال کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ہم انہیں ڈاکٹر مہیا کرتے ہیں جو ان کامناسب وقفوں سے مکمل طبی معائنہ کرتے ہیں ۔گھر میں ہی لیبار یٹری سر وسز مہیا کی جاتی ہیں ۔ایمر جنسی کی صورت میں ڈاکٹر فوری مہیا کئے جاتے ہیں ۔ہمارے کیئر ٹیکرز کو ضرورت کے مطابق تربیت دی جاتی ہے ۔انہیں نہلانے ،دوائی دینے، ڈائپرز بد لنے اور دیگر ضروریات کے مطابق تر بیتی کورس کرائے جاتے ہیں ۔فون پر یہ خدمات صرف ایک کال پر مہیا کر دی جاتی ہیں ۔ان سب کی فیس بہت مناسب ہے تاکہ انکی اولادیں خواہ مخواہ میں نہ بڑ بڑائیں ۔
ڈاکٹر بلقیس نے کہا کہ ہماری شرائط میں ایسے والدین کوترجیح دی جاتی ہے جن کی اولادیں ملک سے باہر ہوتی ہیں،ایسے جو بے اولاد ہوںاور ایسے جو دونوں ملازم پیشہ ہو ں ۔مجھے یہ سب کر کے نہایت سکون ملا ۔این جی او کا آغاز کرنے کی وجہ بعض وا قعات ہیں۔ ایک بزرگ سے بات چیت کر کے میں بہت دل بر دا شتہ ہو گئی تھی۔ وہ ایک خوانچہ فروش تھے جو سڑک کے کنارے کھلونے بیچ رہے تھے۔ان کی حالت یہ تھی کہ بار بار اونگھ رہے تھے۔ ہمار ے سوال پروہ کہنے لگے کہ میں کمانے کے لئے نہیں آتا بلکہ گھر کے تناﺅ زدہ ماحول سے فرار حا صل کرنے کے لئے نکل آ تا ہو ں۔میری بیوی بے چاری بہو بچو ں کی خدمت میں لگی رہتی ہے ۔ہم دونوں میا ں بیوی اپنی زندگی جینا تو بھول ہی چکے ہیں ۔بہو بیٹے کو اگر کسی بات پر مشورہ دینا چا ہیں تو وہ سختی سے چپ کرا دیتے ہیں کہ آپ اپنے دور کی باتیں نہ کیا کریں ۔“
ذرا توقف کے ساتھ ڈاکٹر بلقیس نے پھر گفتگو جاری کرتے ہوئے کہاکہ بد قسمتی سے ”سینئیرز“ کو گھر ،دفتر ،اسکول و کالج ،کہیں بھی سر چھپانے کی جگہ نہیں ملتی ۔اکثر کو تو ان کی ریٹا ئر منٹ سے پہلے صرف اس لئے ملاز مت سے فا ر غ کیا جانے لگا ہے کہ ان کے مقا بلے میں کو ئی جو نیئر آ ئی ٹی کا ما ہر آ جاتا ہے ۔ان کی ملا ز مت کے گزرے سال بھی ان کے لئے طعنہ بنا دئیے جاتے ہیں ۔جن اداروں کو ترقی دینے میں انہو ں نے دن رات ایک کئے ہوتے ہیں، وہیں انہیں تضحیک آ میز جملے سننے کو ملتے ہیں ۔ان پر کیا بیتتی ہے ،یہ جا ننے کی کسی کو ضرورت نہیں ۔سو چتی ہو ں جب گھرکی چہار دیواری میںخون کے رشتے بدل گئے تو باہر والوںسے شکوہ کیسا؟
مو ضو ع گفتگو پھر چا ئلڈ میرج کی طرف پلٹا ۔کہنے لگیں انسان بعض اوقات کچھ ذاتی تجربات کی بنا پر بھی مستقبل کے راستے متعین کرتا ہے ۔میری شادی انٹر کے بعد ہو ئی تھی ،وہ بھی خاندان سے باہر۔ہمارے خاندان میں شادیاں خاندان سے باہر نہیں ہو تی تھیں۔ لڑکیا ں خواہ گھر بیٹھی بو ڑ ھی ہو جائیںلیکن باہر کا رشتہ قبول نہیں کیاجاتا تھا ۔میں بھی انہی رسموں روا جو ں کی بھینٹ چڑ ھ جاتی اگر من مانی نہ کرتی۔اللہ کریم کا شکر ہے کہ والدین نے میرا ساتھ دیا ۔میری بھر پور زندگی سے والدین بہت خوش ہوتے ۔قدرت نے میرے آ نگن کو دو پھو لوں سے سجا دیا ۔بیٹا عمر سہیل ،جو اب ڈاکٹر بن چکا ہے اور چین میں ہے ۔بیٹی جویر یہ سہیل نے ابھی گریجویشن کی ہے ۔میں نے اپنے گرد اتنے بھیانک رسم و رواج دیکھے کہ انہیں جڑ سے اکھا ڑ پھینکنے کی ٹھان لی ۔لڑکے کو لڑ کی پر فو قیت اس طرح دینا کہ وہ زندگی بھر اپنی آگ میں جلتی رہے ۔لڑکے کی پیدائش پر شادیانے اور لڑ کی کی پیدائش پر سوگ ۔ غریب کے گھر بیٹی پیدا ہو نے پر والدین کی کمر ہی نہیں ،سر بھی جھک جاتا ہے ۔ما ں کی آ نکھو ں کے گرد سیا ہ حلقے کچھ اور گہرے ہو نے لگتے ہیں اور وہ مجرم بنی بساط سے زیادہ کام کر کے سسرال کی خو شنو دی حاصل کرنے کی یگ و دو میں جُت جاتی ہے ۔اکثر عو رتو ں کو طلا ق صرف اس لئے دی جاتی کہ ان کے ہاں بیٹا نہیں ہوسکا بلکہ بیٹیاں ہی پیدا ہوئیں ۔
میں نے اپنے بچوں کی پرورش ا ن روایات سے ہٹ کر کی ۔اپنے بچوں کو یہ احساس دلایا کہ بیٹا ہو یا بیٹی، دونوں برابر ہیں ۔لڑ کے کو بھی گھر کے کام سکھائے تاکہ وہ زندگی کے کسی بھی مو ڑ پر” با س “بن کر حکم نہ چلائے ۔کا مو ں کے علاوہ ذہنی طور پر خود کو عورت سے بالا جاننے میں ہی خرا بی ہے ۔ہماری قدریں اگر دینِ اسلام کے مطابق عمل میں لائی جائیں تو کبھی مسائل پیدا نہ ہو ںلیکن ہم نے غیر اسلامی روایات کو اپنا کر اپنی زندگی اجیرن کر ڈالی ۔افسوس یہ ہے کہ وہ ہستی جو اپنے ہر روپ میں مقدس ہے ،جسے قدرت نے شفقت ،محبت ،نرمی اور علم و عقل کے ا حسا سات سے مالا مال کیاہے ،آج کہیں برتری اور کہیں کمتری کا احساس لئے میدانِ عمل میں نکل تو آ ئی ہے لیکن پھر بھی اسے مسائل کا سامنا ہے ۔وہ کہیں تشدد اور کہیں زیادتی کا شکار ہو رہی ہے ۔آج بھی وہ یہی سوچ رہی ہے کہ:
زندگی کیا ہے فقط تیز ہوا کی خواہش
جس کو کھڑ کی کی طرح کھول رہی ہو ں کب سے
میرا اس صنف کے حقوق پر کام کرنے کا مقصد انہیں فضول اور غیر اسلامی روایات سے نکالنا ہے ۔الحمد للہ، میں اور میری ٹیم مسلسل کا و شو ں سے 2013 - 2014 میں میرج بل پاس کرانے میں توکا میاب ہو گئیں۔صو بہ سندھ کے قوانین میں کم عمری کی شادی پرقا نونی پا بندی لگ گئی ۔اس طر ح کم سے کم کھلم کھلا تو زیادتیا ں نہیںہوں گی ۔آج کی عورت بظاہر حقوق یا فتہ ہے لیکن 80 فیصد سے زیادہ زیا دتیو ں کا شکار ہیں۔ جہا ں جہا ں اس نے اپنی تہذیب و روایت کو تو ڑا ،وہاں وہ خالی ہاتھ ہی ہے ۔اس کا مقام اس سے چھن گیا ۔اسے معا شرتی بگاڑ کی ذمہ دارٹھہرایا جا رہا ہے ۔اس معا شرے سے میرا یہ سوال ہے کہ عورت کو اس مقام پر لانے والا کون ہے ؟ عورت کا حقیقی اور تعمیری کردار مسخ کرنے کی کو شش کی گئی ہے ۔اپنے ٹرسٹوں کی آ مدنی کا ذریعہ بنا کر اس سے مذاق کیا گیا ہے ۔آج اسے سرمایہ دارانہ معیشت کی مشینوں میں ذبح کیا جا رہا ہے ۔میری این جی او کا مقصد جہا ں حقوق کی حفا ظت ہے ،وہا ں خواتین کو یہ آ گہی دینا بھی ہے کہ اپنے وجود کی قدرکرا ئیں ۔بقول شاعر:
تم میرے ہنر کی نفی کرتے ہو تو کیا ہے
گویا ہے مرے حرف کی تو قیر کہ میں ہو ں
فردا کا ہر اک خواب ان آ نکھو ں میں ہے ہر شب
اک روز اسے ہونا ہے تعبیر ، کہ میں ہو ں
ڈاکٹر بلقیس نہایت پر امید ہیں کہ ان کی کا وشیں آ ئندہ بھی کا میابی سے ہم کنار ہو ں گی ۔ان سب باتوں کے ساتھ انہو ں نے کہا کہ انہیں ادب سے بھی دلچسپی ہے ۔وہ فرصت میں اکثر فیض ا حمد فیض کی شا عری پڑ ھتی ہیں ۔ان کی غزل درد آ ئے گا دبے پا ﺅ ں ۔ سے کچھ عرض ہے:
اور کچھ دیر میں ، جب پھر مرے تنہا دل کو
فکر آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کر ے
درد آ ئے گا دبے پا ﺅ ں لئے سرخ چراغ
وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے
ڈاکٹر بلقیس رحمن نے کہا کہ ازدواجی زندگی میں امید و یاس ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔چپقلش افسردگی کی ایسی دھند ہے جس میں حد نگاہ صفر ہوجاتی ہے ، یہ دھند انسان سے اس کی بصارت اور بصیرت دونوں ہی چھین لیتی ہے اور انجام کار قربتیں دوریوں میں بدل جاتی ہیں اور انسان تنہا رہ جاتا ہے ۔