Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اور کو نصیحت ، اپنے تئیں فضیحت

 عفت آپا کسی دوسرے کے گھر جاتیں تو سادگی پر زور دیتیں
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
واہ عفت آپا کمال کر دیا۔ بھئی کیا بات ہے آپ کے سلیقے کی، اتنا خوبصورت گھر واقعی کوئی جواب نہیں ہے۔ آپ کی سلیقہ شعاری کی ۔عفت خوشی سے ہنستے مسکراتےمہمانوں کی آراءسن کر دل ہی دل میں فخر سے جھوم رہی تھیں۔ یہ حقیقت تھی کہ عفت آپانے پوری ہنرمندی اور سلیقے سے اپنے نئے گھر کو اس طرح آراستہ کیاتھا کہ دیکھنے والے ان کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے ۔ واقعی وہ ایک سجا سنورا گھر نہیں بلکہ محل نما مکان دکھائی دے رہا تھا۔ اصل میں ان کو بچپن سے ہی خوبصورت چیزیں جمع کرنے کا جنون تھا۔ اتفاق سے ان کی شادی ہوتے ہی وہ بیرون ملک چلی گئیں او راب واپس آکر انہوں نے اپنا نیا گھر تعمیر کروایا جس کو اس طرح سجایا کہ سب ہی ان کو داددیئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔
عفت آپا نے جوش اور جنون میں اتنا بڑا گھر بنا تو لیا مگر اب روزانہ اس کی صفائی و ستھرائی کا معیاربرقرار رکھنا کوئی آسان کام تو نہ تھا جس کی وجہ سے سارے گھر میں وہ خاصی بوکھلائی پھرا کرتی تھیں۔ملازم بھی ان کی نفاست پسندی کے ہاتھوں کچھ ہی دن ٹکتے پھراپنے گھر کی راہ لے لیتے۔ عفت آپا کے بچے اور شوہر بھی اگرچہ ان کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنے کی خاصی کوشش کرتے مگر اس کے باوجود وہ مطمئن نہ ہوتیں ۔ سارا سارا دن گھر کی صفائی میں جان مار کر انہوں نے اپنی صحت سے بھی لاپروائی برتنی شروع کر دی۔ ایک سے بڑھ کر ایک چیزوں سے اپنے گھر کو آراستہ کیا مگر جب بھی عفت آپا کسی دوسرے کے گھر جاتیں تو سادگی پر بڑا زور دیتیں اور کہتیں کہ سادگی کو اپنانا چاہئے کیونکہ ہمارے مذہب نے سادگی پر زور دیا ہے۔ اس لئے ہمیں سادگی کو اپنی زندگی میں رائج کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ مگر ان کی اپنی زندگی میں سادگی نام کی کوئی شے نہ تھی ۔ وہ صرف دوسروں کو نصیحت کرتی تھیں۔
مزید پڑھئے:احتجاج سے کیا ہوگا، یہ تو صرف وسیلہ ہے
اس روز بھی عفت آپا اپنے لان میں پودوں کی دیکھ بھال میں لگی ہوئی تھیں کہ گیٹ پر کسی نے گھنٹی بجائی۔ جانے کب مالی بابا نے دروازہ کھول دیا۔ مڑ کر عفت آپا نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ پڑوس کی 2 خواتین آئی ہیں جو پچھلے ہفتے ہی محلے میں منتقل ہوئی تھیں۔ سلام کلام کے بعد معلوم ہوا کہ دونوں آپس میں نند اور بھاوج ہیں۔ خاصی بڑی فیملی آئی ہے ہمارے پڑوس میں، لوگ تو سادہ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ عفت آپا دل ہی دل میں سوچ رہی تھیں۔ خیر وہ لوگ کچھ دیر بیٹھ کر عفت آپا کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے گئے۔ 
رات کو جب عفت آپا کھانے کی میز پر اپنے شوہر سے پڑوسی کا ذکر کررہی تھیںتو پتہ چلا کہ صاحب خانہ کوئی سرکاری افسر ہیں۔ وہ ان سے دو تین دفعہ مل بھی چکے تھے۔ ان کے شوہر کے بقول پڑوسی خاصے سیدھے سادھے لوگ ہیں۔ ایک دن جب آپا مارکیٹ سے سودا وغیرہ لے کر واپس آ رہی تھیں تو نئے پڑوسی کا گھر کھلا دکھائی دیا۔خاتون خانہ یعنی بیگم سلیم گیٹ بند کر رہی تھیں ،آپا کو دیکھ کر کھل اٹھیں ۔ ارے اندر تشریف لائیے۔ ہم تو آپ کی راہ تک رہے تھے۔ انہوں نے اتنی خوشدلی سے کہا کہ آپا انکار نہ کرسکیں اور خود بیگم سلیم کے ساتھ اندر آگئیں۔ گھر نہایت سادگی سے سجا ہوا تھا۔ بیگم سلیم ،آپا کے لئے پھل اور چائے وغیرہ لے کر آئیں ۔ وہ کچھ دیر میں ان کے خلوص سے بہت متاثر ہوئیں۔ شام کو انہوں نے اپنے شوہر سے پڑوسی کے بارے میں ذکرکیا تو ان کے گھر کے ماحول کے متعلق بھی بتایا ۔ انہوں نے کہا کہ گو وہ بڑے سرکاری افسر ہیں مگر ان کا گھر بالکل سادہ سا تھا۔ عفت آپا کے شوہر نے ہنس کر کہا کہ ہر کسی کو تمہاری طرح نت نئی چیزوں کا جنون نہیں ہوتا ۔ انہوں نے کہاکہ ہاں میرا جنون تو ہے مگر جب سارے لوگ میری سلیقہ مندی کی تعریفیں کرتے ہیں تو خوش کیوں ہوتے ہیں۔ 
وقت کا پہیہ اسی طرح گھومتا رہا۔ عفت آپا کی سلیقہ مندی کی دھوم سارے محلے میں مچتی چلی گئی۔ آپا نے گھر کے ہر کونے اور ہر قرینے کو سجانے اور سنوارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ آہستہ آہستہ آس پڑوس کے گھروں کے لوگ بھی ان کے گھر کی آرائش دیکھ کر ان کے گرویدہ ہو گئے۔ اب جس گھر میں کسی نے بھی نئی چیز کی خریداری کرنی ہوتی یا کوئی شادی بیا ہ یا کسی اور موقع پر کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو ضرور عفت آپا سے مشورہ لیا جاتا او ران کی رائے کے مطابق سب کام انجام دیا جاتا۔ ایسے مواقع پر آپا پھولے نہ سماتی تھیں۔ 
مزید پڑھئے:زندگی کتنی قیمتی ہے، کاش اس کا ادراک کر لیاجائے
کچھ ہی دنوں کے بعد عفت آپا کی بیٹی کی منگنی کی خبر سارے محلے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ سب ہی لوگ آپا کی کوٹھی کو دیکھنے کے لئے آ رہے تھے حالانکہ آپا ہر لمحہ یہی کہتی تھیں کہ سادگی میں بڑی برکت ہے مگر یہاں تو سادگی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ کئی دنوں تک کوٹھی کی تزئین و آرائش کا کام زوروں پر ہوتا رہا چنانچہ ہر ایک کو اپنے جوڑوں اور زیورات کی فکر تھی اور عفت آپا کی تو انتظامات کرتے جان ہی نکلی جا رہی تھی۔ ان جھمیلوں میں اورپھر بازاروں کے چکر لگانے میں آخر کار ان کی ہنرمندی اور سلیقہ مندی کا امتحان تھاکہ ایسی تقریب ہو کہ لوگ مدتوں یاد رکھیں۔ بس یہی تفکرات تھے جو ان کے حواس پر سوار تھے۔ آخرکار وہ دن بھی آن پہنچا۔ عفت کی کوٹھی بقعہ نور بنی ہوئی تھی۔ ایک ایک کونہ جگمگا رہا تھا۔ انہوں نے تمام انتظامات پر ایک طائرانہ نظر ڈالی او رخود کو مطمئن کر لیا۔ 
دوسرے ہی ہفتے مسز سلیم اپنی نند کی منگنی کے لڈوﺅں کی پلیٹ تھامے ان کے گیٹ پر کھڑی تھیں۔ آئیےاندر تشریف لائیے۔ بس بہن، مسز سلیم کہنے لگیں کہ آج وہ ذرا جلدی میں ہیں ۔ بس یہ اطلاع دینے کے لئے آئی ہیں کہ اگلے ہفتے ا س کی شادی ہے۔ ارے واقعی محلے میں کسی کو معلوم بھی نہ ہوا کہ آپ کے گھر میں شادی ہو رہی ہے۔ بس بہن دعا کریں کہ قسمت اچھی ہو۔
عفت آپا ان کے جانے کے بعد کافی دیر تک حیران و پریشان رہیں کہ اتنی بڑی تقریب کا انہیں کوئی علم نہیں۔ ایسی بھی کیا سادگی۔جب ایک ہفتے کے بعد شادی کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ تقریب کیا تھی، وہ تو بس ایک فرض کی ادائیگی تھی۔ نہ اندر سے باہر سڑک تک بتیاں جلیں اور نہ گھر کی آرائش ہوئی۔ ہائے ، یہ لوگ بے چارے تو بہت ہی سادہ ہیں۔ آپا بڑے ہی تاسف سے اپنے دائیں طرف والی ہمسائی سے بولیں جو آپا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولی کہ بھئی ہمارے ہاں تو مرگ پر بھی اس سے زیادہ دھوم دھام ہوتی ہے۔ سنا ہے کہ صاحب خانہ کوئی بڑے سرکاری افسر ہیں اور سنا ہے کہ ان کی کافی آبائی زمینیں بھی ہیں۔ آخر کاربے چارے ٹھہرے تو دیہاتی ناں،شہری آداب سے ناواقف اور پھر سبھی ہمسایوں کے چہروں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی او رپھر اطمینان کی لہر بھی ان کے چہروں پر دوڑ گئی کہ شکر ہے وہ آداب سے ناواقف لوگوں میں شامل نہیں حالانکہ دیکھا جائے توآج کسی اہم سرکاری افسر کے گھر تقریب کاانعقاد ہونے لگے تو مہینوں پہلے سے شادیانے بجنا شروع ہوجاتے ہیں لیکن ایسی کیا تقریب ہے کہ نہ کوئی بینڈ نہ باجا ۔ ایسی تقریبات میں شرکت کرکے بھی مزہ نہیں آتا ۔اسی کو تو کہتے ہیں ”اور کونصیحت ، اپنے تئیں فضیحت ۔“
 

شیئر: