Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اندھا قانون، گستاخ ممتا، اسیر بیٹا

 " مجرم ماں" کا قصور بہت بڑا تھا، اسے جیل تو جانا ہی تھا
محمد عاصم حفیظ
ہم لوگ بڑے بڑے ہنگاموں میں اکثر چھوٹی چھوٹی یک سطری خبروں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ چند روز قبل شیخوپورہ کی ایک چھوٹی سی خبر نے کئی روز بے چین رکھا۔ محلہ رسو لنگر کی ایک بوڑھی ماں ارشاد بی بی اپنے منشیات کے عادی نوجوان بیٹے سے ملنے بخشی خانے آئی۔ اس نے روٹی کے ڈبے میں ہیروئن چھپا رکھی تھی جسے لیڈی کانسٹیبل نے تلاشی کے دوران برآمد کر لیا۔قانون فورا ًحرکت میں آیا اور بوڑھی ماں کو تفتیش کے لئے تھانے میں بند کر دیا گیا۔خبر میڈیا کو جاری ہوئی اور چھوٹی سی خبربنا کر اخبار میں چھاپ دی گئی۔ شاید بہت سوں نے پڑھی بھی نہیں ہو گی۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں انسانی جان کی کوئی اہمیت ہی نہ رہی ہو، وہاں ایک بوڑھی ماں کے جذبات کی پروا کون کرے گا۔ " مجرم ماں" کا قصور بہت بڑا تھا کہ وہ بیٹے کی محبت میں قانون سے گستاخی کر بیٹھی تھی ۔ اسے جیل تو جانا ہی تھا۔پولیس نے تو وہی کیا جو قانون کے دائرے میں ٹھیک تھا۔" قانون اندھا" ہوتا ہے صرف جرم دیکھتا ہے۔ عمر، جذبات ، محبت،دوستی کی اس کے ہاں کوئی قدر نہیں۔ 
سوال قانون شکنی اور جرم سرزد ہونے کا نہیں ۔ سوال تو اقدارکا ہے ،روایات کا ہے اور ممتا کے جذبات کا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ وہ کوئی اسمگلر نہیں تھی ! منشیات فروش نہیں تھی۔ ممتا کے ہاتھوں مجبور ایک بوڑھی عورت جسے بیٹے نے کہا ہوگا کہ" ماں مر جاو¿ں گا"۔ وہ نادان بڑھیا بیٹے کی محبت میں اسقدر اندھی ہوئی کہ قانون ہی توڑ ڈالا۔ جی ہاں ماں تو مجرم ہی ہوتی ہے ناں۔ اولاد کی محبت میں اندھی ہوکر قانون شکن بھی بن جاتی ہے۔ نتائج کی پروا نہیں کرتی۔ جس نے رت جگے کرکے بچے کوپالا ہوتا ہے، گیلے بستر کی مصیبت جھیل کر اسے نرم و گرم آرام دیا ہوتا ہے، فاقے برداشت کرکے پیٹ بھرا ہونے کے جھوٹ بولے ہوتے ہیں، سہانے مستقبل کے خواب دیکھے ہوتے ہیں ، جو اولاد کی ذرا سی تکلیف پر بھی بے چین ہو جاتی ہے۔ اسے کون سمجھائے کہ دنیا کے قاعدے قانون اتنے سادہ نہیں ہوتے کہ ممتا کے جذبات سمجھ سکیں۔ قانون اندھا ہوتا ہے جو صرف جرم کو دیکھتا ہے۔ 
ویسے واقعہ تو چھوٹا سا ہے لیکن اگر اس" مجرم ماں" کا قصہ زیر تربیت پولیس افسران، معزز جج حضرات اور قانون دانوں کو سنایا جائے کہ وہ کتنی بڑی مجرم تھی ؟ کیا اسے فوری طور پر جیل بھیجنا ضروری تھا ؟ کاش! ہمارے ہاں کبھی انسانی فطرت اور ممتا کے جذبات کو جرائم کے خاتمے کے لئے استعمال کیا جائے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ جیلوں میں بوڑھی ماو¿ں کو اپنی کہانیاں سنانے کے لئے کہا جائے۔میرا یقین ہے کہ تفتیش کے پیچیدہ مراحل کی بجائے اگر ماو¿ں کو کہا جائے کہ وہ آکر مجرموں کو بتائیں کہ جب جوان بیٹے جیل کی سلاخلوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں تو مائیں کن "عذابوں" سے گزرتی ہیں۔ شاید بہت سے لوگ جرم کی زندگی چھوڑ کر توبہ کر لیں۔ یہ مائیں تو اتنی سادہ ہوتی ہیں کہ ان کے دل جرائم کی دلدل میں پھنسے بچوں کو بھی گناہ گار ماننے پر تیار نہیں ہوتے اور وہ جیلوں میں بھی بیٹوں کی خواہشیں پوری کرنے کی خاطر "مجرم" تک بن جاتی ہیں۔
قانون کی پیچیدگیاں تو سیانے ہی جانیں لیکن اس بارے میںبھی سوچنا ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں رشتوں کے تقدس، ممتا کے جذبات اور اقدار و روایات کے ذریعے جرائم کے خاتمے کی راہیں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ممتا کے لطیف جذبات جرائم کے تدارک کے لئے معاون ہو سکتے ہیں۔منشیات کے عادی بنتے ، بری صحبت اپنا کرآوارہ ہوتے، جرائم کی دلدل میں پھنستے اور بے راہ روی کی زندگی کے اسیر بنتے جوان بیٹوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی زندگی بہت سے دوسروں سے مربوط ہے اور سب سے بڑھ کر ماں سے۔ انہیں اپنی ہر حرکت سے پہلے سوچنا ہوگا کہ کہیں وہ اپنی ماں اور دیگر رشتوں کے لئے دکھ کا سامان تو نہیں کر رہے۔ ان کا دکھ محسوس کرنے کے لئے بہت سے اپنے موجود ہیں ، کم سے کم اپنی ماں کا تو ضرور احساس کرنا چاہئے کہ جواس حد تک چلی جاتی ہے کہ قیدی بیٹے کی محبت میں اس کی ایک ناجائز خواہش پوری کرنے کی خاطر مجرم بن جاتی ہے،قانون کی پروا نہیں کرتی اور جیل چلی جاتی ہے۔ کاش! جرم ، منشیات اور گناہ کی دلدل میں پھنستے نوجوان سنگدلی چھوڑ کر اپنی ماو¿ں کی پروا کریں ، تاکہ انہیں " مجرم " نہ بننا پڑے اور نہ ہی وہ کسی اندھے قانون کا شکار ہوں۔
 

شیئر: