Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوکن:ایسی ہستیاں جو 2 سے کم نہیں ہو سکتیں

جب کوئی شوہر ایک اور بیوی کا انتظام کرتا ہے، پہلی بیوی فوراً سوکن بن جاتی ہے 
شہزاد اعظم۔جدہ
دنیا میں جیتے جاگتے انسانوں کے مابین وضع وضع کے رشتے پائے جاتے ہیں۔ ان میں کچھ قریبی ہوتے ہیں، کچھ بعیدی ہوتے ہیں، کچھ گہرے ہوتے ہیں ، کچھ بے بہرے ہوتے ہیں، کچھ بنے بنائے ہوتے ہیں اور کچھ بنائے جاتے ہیں۔ ان کی مثالیں یوں ہیں کہ اپنی ماں، اپنا باپ، اپنی بہن، اپنا بھائی یہ انتہائی قریبی رشتے ہوتے ہیں۔کچھ رشتے دور کے یعنی بعیدی ہوتے ہیںجیسے خالو کا بھائی ، پھوپھا کی بہن وغیرہ۔
بعض رشتے ایسے ہوتے ہیں جو بنے بنائے ہوتے ہیں جیسے ماں باپ اور بہن بھائی کے رشتے کوئی بھی شخص اپنی مرضی سے نہیں بنا سکتا۔ ان رشتوں پر کسی کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ جو جس گھر میں پیدا ہوگیا وہ اس کا مقدر۔کوئی امیر کے ہاں پیدا ہوگیاتو کوئی فقیر کے ہاں، کسی نے باضمیر کے ہاں آنکھ کھولی اور کسی نے بے ضمیر کے ہاں۔یہ سب قسمت کا لکھا ہوتا ہے جس پر انسان کاکوئی اختیار کسی طور نہیں۔
بعض دیگر رشتے ایسے ہیں جنہیں آدمی اپنی مرضی سے بنا اور بگاڑ سکتا ہے۔ایسے رشتوں میں وہ ہر طرح کے سیاہ و سفید کا مالک بن جاتا ہے۔ اس فہرست میں بیوی کا رشتہ شامل ہے۔ یہ ایسا رشتہ ہے جسے آدمی اپنی مرضی سے بنا سکتا ہے اور جب دل چاہے بنے بنائے کو بگاڑ سکتا ہے۔یہاں ایک بات بہت عجیب و غریب ہے کہ جو رشتے بنے بنائے ہوتے ہیں ان پر آدمی کبھی جلتا، کڑھتا، جھینکتا اور جھنجلاتا نظر نہیں آتا۔ ہم نے اور آپ نے شاید ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جو یہ کہہ رہا ہو کہ ’’کاش! میری ماں بھی فلاں کی ماں جیسی ہوتی یا میرا باپ، فلاں کے باپ جیسا ہوتا۔ اسی طرح بہن یا بھائی کے بارے میں کبھی کوئی یہ سوچتا نظر نہیں آتا کہ کاش یہ میری بہن یا بھائی نہ ہوتا بلکہ فلاں ہوتا کیونکہ اس کی رنگت گوری ہے۔ اس کے برخلاف بیوی ایسا رشتہ ہے جس کے بارے میں بعض لوگوں کو ہر لمحہ، بعض کو دن میں کئی مرتبہ، بعض کو دن میں ایک آدھ مرتبہ، بعض کو ہفتے میں ایک مرتبہ، بعض کو مہینے میں ایک دفعہ ، بعض کو سالانہ یہ خیال ضرور آتاہے کہ یہ نہ ہوتی، وہ ہوتی، ایسی نہ ہوتی، ویسی ہوتی، اس کا رنگ ذرا گورا ہوتا، قد ذرا لمبا ہوتا، بال ذرا گھنے ہوتے، تعلیم ذرا اتنی ہوتی، خاندان ذرا ایسا ہوتا، وغیرہ وغیرہ۔ 
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیوی کے بارے میں ایسے متنوع خیالات کی بھر مار اس لئے ہوتی ہے کیونکہ یہ وہ رشتہ ہے جو انسان خود طے کرتا ہے۔ طے کرنے کے بعد اپنے فیصلے پر پچھتانا بھی اپنا حق سمجھتا ہے۔اس پچھتاوے سے نجات پانے کے لئے اکثر ’’منہ زور‘‘ قسم کے لوگ قصد کر لیتے ہیں کہ پہلے انہوں نے جو فیصلہ کیا وہ غلط ہو گیا تھا، اب وہ ایسا فیصلہ کریں گے جس پر پچھتانا نہ پڑے۔ یہ سوچ کر وہ ایک بیوی اور گھر لے آتے ہیں۔ لغت کے اعتبار سے اس بیوی کو پہلی بیوی کی سوکن یا سوت کہا جاتا ہے۔ 
سوکن کے بارے میں’’ ماہرینِ گرہستیات‘‘ نے متعدد اہم امور پر بحث کی ہے جن کو بیان کرنے کے لئے متعدد دفتر درکار ہوں گے۔یہاں ہم سوکن کے حوالے سے ان ماہرین کے بیان کردہ ایک آدھ نکتے کے بارے میں ہی آگہی ’’عطا‘‘ کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ 
’’ ماہرینِ گرہستیات‘‘ نے واضح کیا ہے کہ سوکن ایک ایسی ہستی ہے جس کی ابتداء ہی 2سے ہوتی ہے۔ سوکن کبھی ایک نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ ایسی عورت ہوتی ہے جو کسی بھی مرد کے گھر میں پہلے سے موجود بیوی کے مقابلے میں لائی جاتی ہے۔یہ مرد’’ 2بیگموں والا‘‘ شوہر کہلاتا ہے اور یہ دونوں بیگمات آپس میں ایک دوسرے کی سوکنیں ہوتی ہیں۔
’’ ماہرینِ گرہستیات‘‘ نے دوسرا اہم نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ کوئی بھی بیوی اس وقت تک بیوی ہی رہتی ہے جب تک اکلوتی ہوتی ہے۔ جیسے ہی اس کا شوہر ایک اور بیوی کا انتظام کرتا ہے، پہلی بیوی فوراً ہی سوکن بن جاتی ہے جبکہ نئی دلہن کو نکاح نامے پر دستخط کرتے ہی سوکن کا رتبہ میسر آجاتا ہے۔ اس کی قسمت میں بیوی بننا نہیں بلکہ سوکن بننا ہی لکھا ہوتا ہے۔
سوکن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ برصغیر میں یہ رشتہ انتہائی زہریلا شمار ہوتا ہے۔ اس کی تلخی نسل در نسل محسوس کی جاتی ہے۔ سوکنیں ایسی جیتی جاگتی ہستیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا، آواز سننایاایک دوسری کا نام لینا بھی گوارہ نہیں کرتیں۔ جب وہ ایک دوسرے کو بددعائیں دیتی ہیں تو ان میں بھی وہ ’’بیوہ‘‘ ہونے کی بددعا نہیں دے سکتیں کیونکہ وہ دونوں ایک ہی شوہر کی بیویاں ہوتی ہیں اور شوہر کی دنیا سے رخصتی کے باعث ان میں سے کوئی بھی بیوہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ بھی ایک ارضی حقیقت ہے کہ شوہر کا انتقال سوکنوں کی زندگی کا وہ واحد اور منفرد واقعہ ثابت ہوتا ہے جو دونوں سوکنوں کو ایک ہی کشتی میں سوار کر دیتا ہے اور دونوں کی دونوں آن واحد میں بیک وقت بیوہ ہوجاتی ہیں۔شوہر کے جیتے جی یہ دونوں کبھی ایک یا ایک جیسی ہوتی نہیں دیکھی جا سکتیں۔
’’ماہرین گرہستیات‘‘ کے مطابق دونوں سوکنوں میں بلحاظِ عمر عموماً تفاوت یوں پایاجاتا ہے کہ پہلی بیوی عمر میں بڑی ہوتی ہے اور دوسری چھوٹی۔ یہاں یہ بات بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ عمر کی اس ’’چھوٹ بڑائی‘‘ کو کوئی قاعدہ یا کلیہ نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ گاہے ایسے ’’سانحے‘‘ بھی رونما ہوتے دیکھے گئے ہیں جب بعد میں لائی جانے والی دلہن، گھر میں پہلے سے موجود بیوی سے عمر میں بڑی پائی گئی ۔ یہی نہیں بلکہ دوسری بیوی شکلاً بھی ’’ناقابلِ غور‘‘ہونے کے باوجود بڑی دھوم دھام سے گھر لا کر بسائی گئی۔اس لئے یہ کہنا صریحاً بے جا ہوگا کہ دوسری بیوی ہمیشہ ہی کم عمر، خوبصورت اور پہلی بیوی سے ہر لحاظ سے بہتر ہوتی ہے۔
اسی روئے زمین پر بعض ایسے ’’مذکر‘‘ بھی ہیں جنہوں نے ایک نہیں، دو نہیں تین نہیں بلکہ 4،4خواتین کوایک دوسرے کی ’’سوکن‘‘ بننے کا موقع عطا کیا ہے۔ ایسے’’ اجتماعِ سوکنین‘‘ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ان کا گھر ایسی گاڑی ہے جس کے 5پہئے ہیں۔اس گھر کا سربراہ یعنی ان چار بیویوں کا شوہر یقینالائقِ تحسین وآفرین و تزئین ہوتاہے کیونکہ عام حالات میں تو ایک بیوی ہی انسان کو ’’غلام ‘‘ بنا لیتی ہے۔ وہ ساری زندگی سر پکڑ کر روتا دکھائی اور سنائی دیتا ہے کہ ’’میں کتھے پھنس گیا واں‘‘ مگر 4بیویوں کا شوہر وہ جی دا ر انسان ہوتا ہے جوچار ایسی شخصیات کو اپنا بنا کر رکھتا ہے جو آپس میں کبھی ایک دوسری کی نہیں ہو سکتیں۔ایسے شخص کا انٹرویو جہاں سے ملے، جب بھی ملے، ضرور شائع کرنا چاہئے۔
 

شیئر: