Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رمشا نے اپنی ذات کے کٹہرے میں اقبال جرم کیا

عنبرین فیض احمد ۔ کراچی
جب سے رمشا اپنی دوست سے مل کر آئی ،کچھ الجھی الجھی سی تھی ۔وہ سوچ رہی تھی کہ نعیمہ صحیح تو کہہ رہی تھی کہ واقعی عادل میں کافی تبدیلی آگئی ہے۔ وہ گھر اور بچوں سے خاصے لاپروا ہوگئے ہیں۔ شام کو دیر سے گھر آتے اور پھر بچوں میں بھی کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کرتے اور تو اور کوئی کام وغیرہ یا باہر چلنے کا کہو تو تھکن کا بہانہ کرتے ہیں اور پھر لمبی تان کر سوجاتے ہیں۔ آخر آفس تو سب ہی مرد حضرات جاتے ہیں۔ یہ محترم کون سی ہمالیہ کی چوٹی سر کرکے آتے ہیں یا پھر کوئی ہل تو نہیں چلا کر آتے کہ اتنی تھکاوٹ ہوجاتی ہے ۔ بھلا ساری دنیا میں ایک میں ہی بے وقوف دکھائی دیتی ہوں؟ موصوف صبح کیسے ہشاش بشاش دکھائی دیتے ہیں پھر گنگناتے ہوئے شیوکیا جارہا ہوتا ہے پھر اس کے بعد بالوں پر اسپرے بھی کیاجاتا ہے۔نجانے یہ سب کیا ہورہا ہے۔ پہلے تو یہ ادائیں نہیں ہوتی تھیں اور نہ ہی میرے شوہر اپنا اتنا خیال رکھا کرتے تھے۔ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ پہلے نہ انہیں اپنے کپڑوں کا ہوش تھا اور نہ ہی بالوں کی فکرہوتی تھی یقینا کوئی بات ضرور ہے اور میں دیوانوں کی طرح حلیہ بنائے سارا دن سر جھاڑ منہ پہاڑ گھر کی فکر میں غرق یا پھر بچوں کیساتھ اپنا مغز کھپاتی رہتی ہوں۔ کبھی اپنے اوپر دھیان ہی نہیں دیا۔ وزن بھی کتنا بڑھ گیا ہے ۔ بالوں میں بھی کچھ سفیدی سی آچکی ہے۔ پھر کپڑے دیکھو تو پچھلے 4، 4سال سے کوئی نئے سلوائے ہی نہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ گھر کا بجٹ فیل ہوجائے ۔ اگر کوئی ایک آدھ جوڑاسلوا بھی لیا تو اسے سنبھال کر استعمال کرتی ہوں کہ کہیں خراب نہ ہوجائے کیونکہ کہیں آنے جانے کے لئے بھی کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
مزید پڑھئےمارے معاشرے میں اچھے رشتوں کا کال
مہنگائی کے اس دور میں کس کا دل چاہتا ہے کہ سلائی پر خرچ کیاجائے چنانچہ پھر وہی کپڑے پہن کر چولھے کے آگے کھڑے ہوکر کھانا پکانا ہوتا ہے جس سے گھی اور تیل کے داغ لگ جاتے ہیں، پھر بھلا کیا فائدہ۔ 
رمشا کی عادت تھی، وہ چیزوں کوسینت سینت کر رکھتی ۔ایساہی اس نے اپنی ماں کو کرتے دیکھاتھا اس لئے خود بھی وہی کرتی تھی مگر اب اسکی سہیلی نعیمہ کا کہناتھا کہ دور بدل چکا ہے ۔چاروںجانب چکا چوند ہے اور ظاہر سی بات ہے جب انسان اپنے اردگرد خوبصورت اور حسین و جمیل تراش خراش کے ملبوسات میں سجی سنوری ماڈلز کو دیکھ کر گھر آئے گا، جہاں ایک سادہ وضع قطع کے لباس اور ململ کے دوپٹے میں لپٹی بیگم، لہسن اور پیاز کی خوشبوﺅں میں بسی اور تو اور کبھی کبھار پسینے میں شرابور ملتی ہو توگھر آنے کوکس کا دل چاہے گا؟
رمشا نے خود اپنے آپ سے سوال کیا اور پھر اپنی ذات کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر اقبال جرم کیا کہ واقعی میں نے گھر اور بچوں کی فکر میں خود کو بالکل ہی نظر انداز کردیا ہے مگر ہماری والدہ تو ہمیشہ یہی کہا کرتی تھیں کہ بیٹی گھر کے ساتھ گھر ہونا پڑتا ہے تب جاکر کچھ حاصل ہوتا ہے یعنی تن من مار کر ہی دنیا میں کچھ حاصل ہوتا ہے ورنہ وہ عورت ہی کیا جو اپنا گھر نہ سنبھال سکے۔
رمشا اس عزم کے ساتھ اٹھی کہ آج سے وہ اپنے حلئے پر توجہ دیگی ۔ پہلے پہل اس نے اپنی الماریوں کا رخ کیا جس میں ریشمی جوڑے رکھے ہوئے تھے لیکن یہ سوٹ تو بہت گرمی میں پہنے جاسکتے ہیں۔ ساری دنیا اس قسم کے ریشمی جوڑے بھی تو پہنتی ہے۔ میں بھی پہن لوں گی۔ ساری دنیا تو گرمی میں ایسے ریشمی جوڑے پہن کر ایئرکنڈیشنر آن کر کے بیٹھتی ہے نہ کہ باورچی خانے کا رخ کرتی ہے۔
مزید پڑھئے:شادی کے لئے لڑکی کا دیدار، غیر مرئی تلاشی، انکار نہ اقرار
جو خواتین ریشمی جوڑے پہنتی ہیں وہ چولھے کے آگے نہیں آتیں بلکہ ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں ٹی وی لگا کر اپنی پسند کا کوئی ڈرامہ دیکھ رہی ہوتی ہیں اور پھر وہیں انہیں خانساماں جوس وغیرہ لاکر دیتا ہے اور اسی طرح بعد میں ٹرالی پھر سجا ہوا کھانا بھی مل جاتا ہے لیکن ایک میں ہوں کہ میاں موجود توہے مگر وہ بھی ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے۔ نعیمہ ٹھیک کہہ رہی تھی کہ مرد ذات کا کوئی اعتبار نہیں۔ گھر میں حَسین پری نما بیوی موجود کیوں نہ ہو، انہیں اسے دیکھنے کی فرصت نہیں ہوتی البتہ بیوٹی پارلر سے کوئی چڑیل بھی نکلتی دکھائی دے جائے تو اس کے آگے پیچھے گھومنے لگتے ہیں۔
رمشا کے پاس جوڑے تو بہت سارے تھے مگر ان میں سے پہننے کے قابل چند ہی تھے لہٰذا جوڑے کے انتخاب میں اتنی دیر ہوگئی کہ اسے چولھے پر چڑھائی ہوئی ہانڈی دیکھنے کا خیال نہ آیا۔ ابھی وہ کمرے سے باہرآئی تھی کہ اسے کچن کا خیال آیاجہاںجلنے کی بو اسکا استقبال کررہی تھی۔ اس نے دوڑ کر دیگچی کا ڈھکن اٹھایا مگر اس میں پڑی گوشت کی بوٹیاں پکار پکار کرکہہ رہی تھیں کہ اب کیا فائدہ ، ہم تو خاک ہوچکے۔ رمشا سوچ میں پڑ گئی کہ اب کیا پکاﺅں کیونکہ گھر میں پکانے کیلئے نہ تو سبزی تھی اور نہ ہی گوشت باقی رہا تھا۔ کچھ سوچ کر اس نے دل ہی دل میں کہا کہ دال نکال لیتی ہوں۔ یوں نئے سرے سے ہانڈی پکانے کی فکر میں ساراجوش و جذبہ اور شاعرانہ خیالات رخصت ہوگئے اور کچن میں مصروفیت کے باعث وہ پسینے میں نہا گئی۔ یہاں تک کہ بچوںکے اسکول سے آنے کا وقت ہوچکا تھا۔ اس نے جلدی جلدی کھانا پکایا اور پھر بچوں کو دیا۔ کھانے سے فراغت کے بعد اس نے پھر اپنی مہم کا آغاز کیا ۔ ہاں بھئی اگر کپڑے وغیرہ پہننے ہوں تو ساتھ ہی ہلکا سا میک اپ بھی تو ہونا چاہئے۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنی میک اپ کی پٹاری کھولی تو اس کی چھوٹی گڑیا آن ٹپکی کہ امی ! مجھے یہ لپ اسٹک دیدیں۔
رمشا نے بڑی تگ و دو کر کے ننھی گڑیا کے ہاتھوں سے لپ اسٹک چھینی۔ اس کے پاس بڑی مشکل سے صرف دو چار ہی لپ اسٹکس ہی تھیں۔دو کی گردنیں شرم سے جھکی جارہی تھیں اور باقی اتنی گھس چکی تھیں کہ جیسے زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہوں۔فیشن کا ڈھنگ بھی تو نرالا ہے ۔کبھی اونچی شلوار تو نیچی قمیص، کبھی نیچی شلوار تو اونچی قمیص، کبھی لباس کیساتھ دوپٹہ ضروری اور کبھی دوپٹے سے دوری فیشن کی مجبوری۔
رمشا انہی خیالوں میں تھی کہ اسکی نگاہ گھڑی پر جاپڑی۔ 4 بج رہے تھے۔میں خود تو تیار ہوجا¶ں ،یہ سوچ کر وہ جلدی سے نہانے گئی۔ پیازی رنگ کا سوٹ پہن کر اس نے اپنے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہی تو لگ رہی ہوں۔ ان کپڑوں میں مجھے گرمی بھی نہیں لگ رہی ۔ چلو آج میں اپنے بالوں کا اسٹائل بھی بنالیتی ہوں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے کوئی اور اسٹائل بھی تو نہیں آتا ۔ کھینچ کھانچ کر سادہ سی چوٹی بنا لیتی ہوںاور مجھے آتا ہی کیا ہے۔ خیر اس نے چوٹی بناکر احتیاط سے لپ اسٹک لگائی پھر آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود کلامی کی ۔ اس کے لبوں پرہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔اسی دوران ننھی گڑیا تقریباً دوڑتے ہوئے آئی اور کہا کہ امی آپ کہیں جارہی ہیںمیں بھی آپ کے ساتھ جاﺅنگی۔ اب کیا تھا اسکی آواز سن کر دوسرے بچے جو باہر کھیل رہے تھے وہ بھی آن پہنچے اور کہنے لگے کہ امی آپ کہیں جارہی ہیں تو ہم بھی جائیں گے۔ بچو ںکی چیخ و پکار سن کر دادی بھی کمرے میں پہنچ گئیں اور کہا کہ ارے بہو کیا ہوا کہیں جارہی ہو کیا ؟نہیں نہیں میں کہاں جاﺅں گی ۔یہ کپڑے پڑے پڑے خراب ہورہے تھے اس لئے سوچا کہ انہیں گھر میںہی استعمال کرلیا جائے۔ اچھا اچھا اور پھر دادی اپنے کمرے کی جانب چل دیں۔ 
یہاںکوئی خاک اپنا خیال رکھے۔رمشا نے غصے کے مارے اپنا منہ ہاتھ دھو کر سارا میک اپ اتار دیا۔ اب تو اسے ریشمی لباس میں گرمی بھی محسوس ہونے لگی۔ اسی اثناءمیں باہربچوں کا شور سنائی دیاکہ ابو آگئے، ابو آگئے۔ اس نے جلدی سے دوبارہ اپنے سراپے کا جائزہ لیا جو آج روزمرہ سے کافی بہتر تھا۔
عادل نے اندر آتے ہی رمشا سے پوچھا کہ تم کہیں جارہی ہو کیا ؟اس نے کہا نہیں تو،عادل نے کہا اچھا بھئی پہلے کھانا دیدو آج بہت سخت بھوک لگی ہے۔ وہ جلدی جلدی کھانا گرم کرنے لگی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ آج دال پکائی گئی ہے تواس نے کہا کہ مجھے بھوک نہیں، بچوں کو کھلا دو۔ کیوں ابھی تو آپ کھانا مانگ رہے تھے ہاں لیکن اب میری بھوک ختم ہوگئی ہے۔ میں کسی ضروری کام سے باہر جارہا ہوں۔
اس کے بعد اس نے ہر وقت سجے سنورے رہنا ،خود کو پرکشش بنائے رکھنا اپنا معمول بنالیا۔ وہ اخبارات اور رسالوں میں جو بھی مضامین دیکھتی، نکال کر الگ رکھ لیتی۔ ایک تو مصیبت یہ تھی کہ دو دن ایک مشورے پر عمل کرنے میں گزرتے تھے ، تیسرے دن کوئی اور ترکیب منظر عام پر آجاتی تھی ۔اسکی جان تو خاصی مشکل میں پھنس چکی تھی۔ اس کے چکر میں اکثر و بیشتر اس کی ہنڈیا جل جایا کرتی تھی۔ اور تو اور بچوں کے اسکول کے کام بھی ادھورے کے ادھورے ہی رہتے تھے اور بچے سارا دن لڑ لڑکر ادھ موئے ہوجاتے تھے مگر وہ اپنی نوک پلک درست کرنے میں اتنی منہمک ہوتی کہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا مگر ستم یہ تھا کہ اس کے شوہر نے کبھی یہ نہیں کہاکہ تم آج اچھی لگ رہی ہو بلکہ اسکے معمولات میں باہر گھومنا پھرنا کچھ ضرورت سے زیادہ ہی بڑھ گیا تھا۔ اکثر اوقات وہ جھنجھلاجاتی۔
اس دن بھی اس کی دوست نعیمہ آئی تو اسکے سامنے چھلک پڑی کہ تم نے تو کہا تھا کہ مرد ہمیشہ سجی سنوری عورتوں کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اس لئے گھر میں اپنے شوہر کا استقبال بن ٹھن کر کرو مگر نجانے عادل کس مٹی سے بنے ہیں کہ ان پر تو کچھ اثر ہی نہیں ہوتا۔
بھئی یہ آجکل کے مرد تو بڑے چکنے گھڑے ہوتے ہیں اس کی سہیلی نے یہ کہہ کر اے اور مایوس کردیا ،ورنہ تم تو پہلے سے اچھی خاصی اسمارٹ ہوگئی ہو ۔ وہ اپنی تعریف سن کر اداس سی ہوگئی اور سوچنے لگی کہ ہم جیسے درمیانے طبقے کے لوگوں کا بجٹ کتنا درہم برہم ہوجاتا ہے ان فضول قسم کے فیشن سے۔ اس سے اچھا ہے کہ ہم بچوں کی بہتری پر اخراجات کریں ، کیا ہی اچھا ہو اور پھر ساری چیزوں کو اس نے ایمانداری سے واپس الماری میں رکھ دیا اور اپنے اصل روپ میں واپس آگئی ۔ اس نے خود کو سمجھایا کہ مجھے اپنے بچے زیادہ عزیز ہیں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی ساری سرگرمیاں موقوف کر دیں۔ 
شام کوکھانا بناکر باورچی خانے سے نکلی تو مغرب کی اذان ہورہی تھی۔ جلدی سے اس نے نماز پڑھی ۔ اچانک عادل گھر میں داخل ہوا۔ دالان میں جانماز پر وہ نماز پڑھ رہی تھی ۔وہ سراپا دعا تھی اور اپنے رب کریم کے حضور گڑگڑا رہی تھی ،اس دوران عادل بھی اسکے پاس آکر بیٹھ گئے اور کہنے لگے ، رمشا تمہارا یہ روپ سب سے پیارا ہے ۔اس نے بڑی اپنائیت سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔رمشا نے کچھ سوچ کر اپنے دماغ میں آنے والے خیالات کو جھٹک دیا کہ”وہ خواہ مخواہ اتنے دنوں سے پاگل ہورہی تھی۔ یہ سوچ کر وہ اپنی بے وقوفی پر مسکرائی اور جلدی سے شوہر کیلئے کھانا گرم کرنے کیلئے کچن کی طرف دوڑگئی۔ 
 

شیئر: