Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مذہب میں کشمکش اور اسلامی دعوت

 ناصر الشہری 
بہت سارے لوگوں نے لادینی کا تجربہ کیا۔ سیکڑوں لوگوں نے مذاہب کو آزمایا۔ ان میں مسلمان بھی تھے اور ایسے لوگ بھی جن کا اسلام سے کوئی رشتہ ناتہ نہیں تھا....یہاں میں تاریخ کی گہرائیوں میں نہیں جاﺅنگا او رنہ ہی سیاسی اسلام اور مذہبی یا لامذہبی ریاست کی تشکیل کے درمیان ہونے والی قدیم دور کی کشمکشوں کے تذکرے کے چکر میں پڑونگا۔
یہاں میری دلچسپی عصر حاضر میں ہونے والی بحث سے ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ میری مراد فکری تجربات کے حجم اور بالاخر مختلف افکار کو ذہنی طور پر قبول کرنے والے ان دھاروںسے ہے جو الٹ پلٹ ہوتے رہے اور ایک دوسرے میں ضم ہوتے چلے گئے۔جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ میں تاریخی ادوار کی ورق گردانی نہیں کرونگا۔ یہاں میں ایک اضافہ یہ بھی کرنا چاہونگا کہ مختلف مذا ہب میں عقائد کے آثار و نتائج کے چکر میں بھی نہیں پڑونگا۔ میں معاشرے میں جدید فکر کے درمیان ہونےوالے مباحثے اور اسکے نتائج پر توجہ مرکوز رکھونگا۔ میرے پیش نظر عالمی فکر کی 2مثالی شخصیات ہیں۔ ان میں سے ایک تو ڈاکٹر مصطفی محمود ہیں۔ انکا تعلق تو مصر سے تھا۔ دو سر ی شخصیت فرانس کے ڈاکٹر روجی جارودی کی ہے۔ دونوں قد آور شخصیات تھیں۔ عصر حاضر میں فکر کی سطح پر دونوں کو انکا حقیقی مقام نہیں ملا۔
ڈاکٹر مصطفی محمود مسلمان تھے۔الحاد کی طرف گئے۔ انہوں نے لادینیت کی صداقت کو ثابت کرنے والی کتابیں لکھیں۔ انہوں نے اپنی تصنیفات میں مذہب کے انکار کو ثابت کرنے کیلئے دلائل کا انبار لگایا۔ انہوں نے مذہب کے خلاف ایسے افکار اور ایسے نظریات مدلل شکل میں پیش کئے جو پرخطر ہونے کے حوالے سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروںسے کسی درجے میں کم نہیں تھے۔انہوں نے لوگوں کے ذہنوں کے اندر نقب لگائی خاص طور پر نوجوانوں اور ایمان کی طاقت سے محروم سادہ لوح عناصر کو اپنا ہدف بنایا تاہم غورفکر کے بعد وہ ایک بار پھر لادینیت سے اسلام کی جانب واپس آئے۔ انہوں نے سائنس او ر ایمان کا تقابلی مطالعہ کیا اور پھر قرآن کریم کو زندگی کے فلسفے اور کائنات میں پائی جانے والی جملہ مخلوقات کے مرجع سے جوڑنے کا اہتمام کیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی جانب واپسی کا اعلان کیا۔ وہ لادین سے دین کی خدمت کرنے والے عالم بنے اور زندگی کی آخری سانس تک دین اسلام کی خدمت کرتے رہے۔
پیرس سے عالمی شہرت یافتہ فلسفی روجے جارودی نے سر ابھارا۔ انہوں نے یہودیت، نصرانیت اور پھرمارکسزم کو قبول کرکے متعدد کتابیں پہلے یہودیت ، پھر نصرانیت اور پھرمارکسزم کے حوالے سے قلمبند کیں۔روجے جارودی 60برس کے ہوئے تو انہیں مذکورہ تمام عقائد ہیچ نظر آئے۔ انہوں نے زندگی کے حقائق اور مذاہب کے درمیان کشمکش کا تقابلی مطالعہ کیا۔ انہوںنے اسلامی فلسفے میں غوروغوض شرو ع کیا تو انہیں اسلامی فکر میں غوروخوض کاسفر حلقہ بگوش اسلام بنانے کا باعث بن گیا۔ انہوں نے دین اسلام سے متعلق 2 کتابیں شائع کیں۔ انہوں نے واضح الفاظ میں اعلان و اعتراف کیا کہ دیگر مذاہب کے مطالعے سے انہیں نظام ِ حیات کی وہ ضمانتیں نہیں ملیں جن کے وہ متلاشی تھے۔ انہیں اپنا مدعا اسلام ہی میں ملا۔
میں نے جدید عالمی فکر کی ان 2قد آور شخصیات کا تذکرہ اس نقطہ نظر سے کیا ہے کہ عصر حاضر میں دینی پیغام سیاسی پیغام پر چھاتا چلا جارہا ہے۔ عرب انقلابات کے بعد ایک بات یہ سامنے آئی کہ دانشور حضرات سیاسی اسلام کو پس پشت ڈال کر قرآن و سنت سے ماخوذ سادہ اسلام کو ترجیح دے رہے ہیں۔
آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اسلام کو اس کے حقیقی دھارے سے ہٹانے کیلئے سیاسی عینک سے اسلام کو دیکھنے والوںنے اپنے مذہب کو خاصا نقصان پہنچایا۔ دہشتگردی نے اسلامی دعوت پر منفی اثرات ڈالے۔ اسلام کے پیغام اعتدال کے علمبردار بھی دہشتگردی سے آلودہ ہونے والے ماحول کو صاف کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہ درست ہے کہ یہ المناک منظر نامہ ہے اور یہی اسلام کے پیغام کو وسیع پیمانے پر رائے عامہ کی نظر میں مقبول بنانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں اسلامی دعوت کے دھارے کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ اسکے لئے انتہا پسندوں کے تصرفات سے ہونے والے نقصانات کاتدارک کرنا ہوگا۔ مذاہب کے درمیان مکالمے کے ذریعے اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے والے پروپیگنڈے کا ازالہ ممکن ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مسلمان مستقبل میں عقائد کے حوالے سے بڑی قیمت چکانے پر مجبور ہونگے۔ اغیار کیساتھ کشمکش کا نہ ختم ہونے والا دور شروع ہوجائیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: