Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن سے پہلے نظام بدلیں

خلیل احمد نینی تال والا
بچپن میںایک قصہ پڑھا تھاکہ ایک گائوں میں ایک ہی کنواں تھا جس سے تمام گائوں والے پانی بھرتے تھے۔ ایک کتا اُس میں گر گیا ۔پہلے کسی کو نہیں پتہ چلا مگر کچھ دنوں بعد اُس پانی سے بو آنے لگی ۔ایک لال بھجکڑ آئے۔ انہوں نے کہا 500ڈول پانی نکال کر ضائع کردو ۔جب 500ڈول پانی نکلا تو اُس پانی سے بُو آنا بند ہوگئی ۔لال بھجکڑ مونچوں پر تائو دیتے ہوئے روانہ ہوگئے ۔10پندرہ دن بعد پھر اُس میں بُو آنے لگی پھر ان بھجکڑصاحب کو بلوایا گیاپھر 500ڈول پانی نکال دیا گیا پھر بُو ختم ہوگئی ۔الغرض بُو آتی رہی اور 500ڈول نکلتے گئے ۔آخر کار گائوں والے تنگ آگئے اور ایک سیانے کو دوسرے گائوں سے پکڑ کر لائے تو اُس نے معائنہ کرنے کے بعد کہا :بے وقوفو جب تک اس کنویں سے کتا نہیں نکالو گے مسئلہ جوں کا توں رہے گا ۔آخر کار بندے کو کنویں میں اُتارا گیا اور کتے کی لاش نکالی گئی اور تمام پانی ضائع کیا تب جاکر مسئلہ حل ہوا ۔
بالکل اسی طرح 70سالوں سے ہم اپنے مسائل کیلئے لال بھجکڑوں میں گھرے ہوئے  رونا روتے ہیں ۔یہی وجہ ہے ہم دنیا میں ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔ہمارے حکمران نہیں چاہتے کہ عوام کے مسائل حل ہوں ۔سب سے پہلے جمہوریت کا گلہ گھونٹاگیا۔ 1958میں مارشل لاء لگایا، عوام ڈر گئی ،سیاستدان دب گئے۔اپیڈو لگا یعنی کرپٹ سیاستدانوں پر پابندیاں لگیں۔ 400 بیو رو کر یٹس ایک جنبش قلم فارغ کردیئے گئے، یہ سب کرپٹ نہیں تھے۔گیہوں کے ساتھ گھن پس گئے۔ ایماندار اور کرپٹ میں فرق نہیں کیا گیا ۔ پھر 1960میں کراچی سے ایک رات میں دارالخلافہ اسلام آباد کے جنگل میں منتقل کردیا گیا کسی نے آواز نہیں اُٹھائی، پھر جمہوریت گئی، اقتصادی شہر کراچی لاوارث ہوگیا ۔
یہاں یہ بتا نا ضروی ہے کہ جب پاکستان وجود میں آیا تو ہند کے 13صوبے تھے۔ انہوں نے 70سال میں 36صوبے اور 7نیم صوبوں میں تبدیل کرکے عوام کی ترقی کے راستے کھولے مگر ہم نے اسکے برعکس پاکستان کے 16صوبوں کو کم کرنا شروع کردیا ۔صوبہ سندھ کے 3صوبے قیام پاکستان کے وقت تھے کراچی، خیر پور اور اندرون سندھ کوصوبے کا درجہ تھا ۔پہلے کراچی کو ختم کیا پھر خیر پور ختم کردیا ۔پنجاب کے2صوبے لاہور اور بہاولپورتھے۔ اس سے بہاولپورختم کیا ۔بلوچستان کے 4صوبے تھے کوئٹہ ،قلات ،لسبیلہ اور مکران۔ اسی طرح فرنٹیر کے 6صوبے تھے جس میں پشاور،سوات،دیر،چترال،ھنزہ، گلگت۔جب 1955میںچوہدری محمد علی وزیراعظم بنے تو ون یونٹ کے نام پر تمام صوبے ختم کردیئے گئے۔ مشرقی پاکستان کا اکلوتا صوبہ ڈھاکا بھی ختم ہوگیا ۔یحییٰ خان نے ایوب خان سے حکومت چھینی اور 1970میں مغربی پاکستان کے 4صوبے اور مشرقی پاکستان کا ایک صوبہ بحال کیا ۔ایک مرتبہ پھر بیوروکریسی کو نقصان پہنچایا گیا اور 303بیوروکریٹس نکال دیئے گئے۔ اس مرتبہ بھی وہی کیاگیا۔ ایماندار اور کرپٹ ایک ترازو سے تولے گئے ۔اب ایمانداری معیار ہی نہیں رہا۔پھر سب سے بڑا فرق مغربی پاکستان کی آبادی مشرقی پاکستان سے کم تھی۔ الیکشن ہوئے مشرقی پاکستان کی اکثریتی پارٹی عوامی لیگ جیتی تو اُس کو اقتدار نہیں دیا گیا ۔نتیجہ بنگالی بھائی ناراض ہوگئے ۔ ہندوستانی علاقہ درمیان میں تھا اُس نے فائدہ اُٹھاکر بنگالیوں کو ورغلا یا  اورپھر خود ہی حملہ کرکے مغربی پاکستان سے ناطہ تڑوا دیا اور یوں ملک دولخت ہوگیا ۔ہم نے پھر بھی اس سانحہ سے سبق نہیں سیکھا۔ صوبوں میں کشمکش کی فضا برقرار رکھی۔ ایک طرف 3صوبوں کی آبادی والا علاقہ تو دوسری طرف اکیلا پنجاب آبادی کے لحاظ سے ان3صوبوں سے بڑا تھا تو ملک میں اکیلا حکومت کرتا تھا ،سندھ میں پانی کا مسئلہ ، تو پختونخوا میں بجلی پر کنٹرول، تو کراچی کا سندھی استحصال ،بلوچستان کے معدنیات اور گیس پر مرکزی حکومت کا قبضہ۔
جب جب صوبوں کی تحریک چلی مشرقی پاکستان کی طرح غداری کا لیبل لگا کر کچل دیا گیا ۔عوام حصول انصاف کیلئے مارے  مارے پھرتے تھے۔ جس طرح ڈسٹرکٹ نئے بنائے گئے ،اگر اُسی طرح صوبوں کی تشکیل ہوتی رہتی تو اقتدار سب میں تقسیم ہوتا رہتا ۔ایک مرتبہ ضیاء ا لحق حکومت نے اس کو حل کرنے کی کوشش کی اور 17صوبوں پر عمل درآمد بھی ہونے جارہا تھا ۔ بدقسمتی سے ضیاء الحق کے جہاز  کے حادثہ نے اس کو بھی متاثر کیا۔ بیوروکریٹس اور آنے والے حکمرانوں نے مل کر اس کو دبایا تاکہ اُنکی اجارہ داری(Monopoly) برقرار رہے ۔آج سندھی مہاجروں پر ،پنجابی ہزارہ سرائیکی پر اور چھوٹی چھوٹی قوموں پر،پختونخوا فاٹا کے عوام پر،بلوچ پشتون و بروہی عوام پر زبردستی حکومت کررہے ہیں اور سب ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہیں۔ کرپشن میں ہمارے ملک کے حکمران غالباً سب سے اونچے درجے پر سمجھے جاتے ہیں ۔عملاً پنجاب کا پورے ملک پر ہر لحاظ سے کنٹرول ہوچکا ہے ۔خود پنجاب کے غریب عوام اس منہ زور بیوروکریٹس اور کرپٹ حکمرانوں کے ہاتھوں برادریوں کے نام پرچوہدریوں، جاگیرداروں،وڈیروں کے ہاتھوں یر غمال بنے ہوئے ہیں۔ اول تو انہیں غربت کیساتھ تعلیم سے بھی دور رکھا ہوا ہے۔ اگرہند کی طرح روز اول کی طرح ان وڈیروں، نوابوں، جاگیرداروں کا نظام ختم کردیا جاتا تو ہم بھی ترقی کرتے۔صرف بھٹونے جاگیرداروں کو اپنے مفاد میں ختم کرنے کی کوشش کی مگر جعلی کاغذوں کا پیٹ بھر کر زمینداروں نے اپنی اپنی زمینیں بچالیں۔ کوٹہ کے نام پر مہا جروں پر اقتصادی پابندیاں لگائیں جو کسی اور صوبے میں نہیں لگائی گئیں۔ معیشت کو قومیا کر تباہ کردیا گیا ۔تعلیمی ادارے قومیا کر عوام پر تعلیم کے دروازے بند کردیئے۔ ایک بھی نئی یونیورسٹی ،کالج حکومت اور حکمرانوں نے نہیں بنائیں۔ اگر ضیاء الحق تعلیمی ادارے واپس نہیں کرتے تو آج نہ صرف ٹوٹے پھوٹے اسکول کالج اور یونیورسٹیاں کھنڈروں کی شکل میں پائی جاتیںبلکہ قوم تعلیم سے محروم ہوجاتی ۔خود نئے اسکول ،کالج ،یونیورسٹیاں نجی اداروں کی مرہون منت ہیں جس سے ہم تعلیم کے میدان میں کم از کم شہروں میں خود کفیل ہیں۔ ستم ظریفی تو دیکھئے، ہمارے صوبہ سندھ میں یونیورسٹیاں کھولنے کیلئے ر شوت کے علاوہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ وزراء کے ہاتھ جوڑنے پڑتے ہیں۔ صرف سند ھ اسمبلی چارٹرڈ دیتی ہے ۔میڈیکل کالجوں پر بھی پابندی ہے ۔ویسے ہی سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں، دوائیوں اور آلات سے خالی اور مریضوں سے بھری عوام بے حسی سے بستر کے بغیر فرشوں پر پڑے ملتے ہیں ۔کھربوں کا بجٹ سب مل ملا کر کھارہے ہیں۔ علاقہ ناظم ہوں یا میئر سب کرپٹ ہوچکے ہیں ۔نیب بے بس، عدلیہ غصے میں ہے۔ کہاں جائے یہ مظلوم قوم ،کھربوں روپے ٹیکس بھی دیتے ہیں تو ان کی جیب میں چلاجاتا ہے جب تک نظام کی تبدیلی نہیں لائی جائیگی۔ ایک نہیں 10الیکشن کروالیں یہی حکمران گھوم پھر کر واپس آجائیں گے ۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں