القدس کا ممکنہ حل کیا ہے؟
عبداللہ فدعق۔ الوطن
اکثر اصولی کانفرنسیں انسان کو مختلف حوالوں سے کافی کچھ سکھانے کا اہتمام کرتی ہیں۔ نئی معلومات اور پوشیدہ حقائق منظرعام پر لاتی ہیں۔ اگر کانفرنس کا موضوع عوام الناس سے تعلق رکھتا ہے تو ایسی حالت میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ زیادہ بہتر ہوجاتا ہے۔ گزشتہ بدھ اور جمعرات کو القدس کی حمایت میں الازہر نے عالمی کانفرنس کی۔ مجھے اس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ کانفرنس مسئلہ فلسطین پر الازہر کے زیر انتظام ہونے والی آخری کانفرنس کے 30برس بعد منعقد کی گئی۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں 86ممالک سے تعلق رکھنے والے القدس کے پروانے جمع ہوئے۔ ہر ایک کا دکھ ایک تھا۔ عیسائی ہوں یا (ناطور ی کارتا) تحریک کے یہودیوںکا وفد ہو ہر ایک نے مسلمانوں کی طرح صہیونیوں کے وحشیانہ اقدامات کیخلاف آواز بلند کی۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان میں سے کس کا احتجاج زیادہ بلند آواز میں تھا۔ عالمی صہیونی اسرائیل کے قابض حکام کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے۔ ہر ایک نے اس پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
میں نے اور میری طرح دیگر لوگوں نے کانفرنس کے میزبان شیخ ازہر اور مجلس حکمہ المسلمین کے سربراہ کا خطاب سنا او راس سے کئی باتیں سیکھیں۔ شیخ الازہر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”اللہ تعالیٰ کے دربار او رمورخ کے سامنے ہمارا یہ عذر نہیں چلے گا کہ ہم کمزور ہیں، مسکین ہیں، ہتھیار ڈالے ہوئے ہیں۔ القدس ازل سے لیکر ابد تک اسلامی عیسائی شہر ہے اور رہیگا۔ یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے وجدان کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ یہ عرب شہر ہے اور عرب ہی رہیگا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس سے دلچسپی تھی، ہے اور رہیگی۔ یہ فلسطین کاپھول اور اسکا دھڑکتا ہوا دل ہے۔ یہ اسکا لازوال دارالحکومت ہے۔ یہ قابض حکا م کے قبضے میں ہے۔ یہ آرتھر بالفور، ٹرمپ سمیت کسی کی ملکیت نہیں۔ القدس سے متعلق امریکہ کا نیا فیصلہ غیر قانونی ہے، غلط ہے، واجب مذمت ہے، مسترد کیا جاتا ہے۔ اس فیصلے کو واپس نہ لینے کا ترقیاتی عمل پر برا اثر پڑیگا۔ کشیدگی پیدا ہوگی۔ عالمی امن مساعی میں رکاوٹ کھڑی ہوگی۔ انتہا پسندانہ نظریات کے ہوتے ہوئے امن قائم نہیں ہوگا۔ فلسطینی بچوں کے قاتلوں نے ہی ہمارے علاقے میں دہشتگردی کا رواج ڈالا۔ اہل اقصیٰ کی نصرت مسجد اقصیٰ کی نصرت ہے۔ مختلف اقوام کو پرامن بقائے باہم ، سچی فکر اور کثیر جہتی معاشرے کا احترام کرنا پڑیگا۔ کسی بھی شخص کو دوسروں کے عقائد اوردینی خیالات میں دخل دینے کا حق نہیں پہنچتا۔ تسلط قائم کرنے والی طاقت کا انجام زوال و انحطاط کے سوا کچھ نہیں۔ہر ناجائزقبضے کا انجام اسکا خاتمہ ہے۔ جلد یا بدیر خاتمہ آکر رہیگا۔ طاقت کے وسائل کا حصول ہی حملہ آور کو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی پر مجبور کرسکتا ہے۔ بیت المقدس کے قانونی اور سیاسی عناصر اپنی جگہ اہم ہیں۔ مذہبی عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ناجائز قبضہ آور طاقت المقدس کے شہریوں کا تشخص تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ اسکا تقاضا ہے کہ ہم لوگ القدس کے تشخص کی حفاظت کریں۔ القدس کاز کی بابت شعور و آگہی کا احیاءکریں۔
سعودی وزیر اسلامی امور کا یہ فرمانا بجا و درست ہے کہ القدس کی نصرت ہم سب پر فرض ہے ۔ اس سے سرمو انحراف کے ہم لوگ مجاز نہیں۔
القدس کی حمایت میں الازہر کے زیر انتظام ہونے والی عالمی کانفرنس نے شرکاءکو کافی کچھ سکھایا۔ اس کانفرنس نے ہمیں یہ بات بتائی کہ صہیونی یہودیو ںکی نمائندگی کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ اس کانفرنس نے ہمیں پیغام دیا کہ لفظ ”اسرائیل“ کا استعمال بجا نہیں ہے۔ صہیونیوں نے اسکی شکل بگاڑ دی ہے۔ انکی یہ تحریف قابل مذمت ہے۔یہودیت اور صہیونیت میں فرق واجب ہے۔ یہودیت ایک مذہب ہے جبکہ صہیونیت استعماری تحریک کا دوسرا نام ہے۔ عیسائی صہیونیت نسلی تطہیر اور آباد کاری کے جواز کے سوا کچھ اور نہیں جانتی۔ یہ یہودی صہیونیت سے بھی بدتر ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ القدس اور مسجد اقصیٰ کو گریہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ القدس اور مسجد اقصیٰ کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے اس فارمولے کی ضرورت ہے جس کے تحت انہوں نے ابراہہ سے کہا تھا کہ بیت اللہ کا اپنا رب ہے جو اسکا محافظ ہے۔ یہاں بیت اللہ کی جگہ مسجد اقصیٰ کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں سچی فکر، مسلسل آگہی اور عمل پیہم کا بھی دھیان رکھنا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭