Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران کے ایٹمی معاہدے کو میزائل پروگرام سے جوڑاجائے

ڈاکٹر کریم عبدیان بنی سعید۔ الشرق الاوسط
امریکی صدر کی جانب سے ایران پر پابندیاں عائدکرنے نہ کرنے کے فیصلے سے قبل اہم موضوع یہ تھا کہ کیا ایران کے میزائل پروگرام کو ایٹمی معاہدے سے مربوط کیا جائے یا نہ کیاجائے اور یہ کام کس طرح انجام دیا جائے۔
میرے نقطہ نظر سے یہ مسئلہ سوجھ بوجھ سے کام لینے کی صورت میں آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے۔ اگر سیاسی و اقتصادی پہلوﺅں سے چشم پوشی کرلی جائے تو ایسی صور ت میں یہ مسئلہ طے ہوسکتا ہے۔
ایٹمی خطرہ بذات خود ایک الگ مسئلہ نہیں۔ دراصل اسکا تعلق ایٹم بم لیجانے کے طور طریقے سے جڑا ہوا ہے۔ جب سے ایٹم بم کا دور شروع ہوا ہے تب سے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر2 ایٹم بم گرائے گئے۔ اصل مسئلہ ایٹم بم گرانے کے طریقہ¿ کار کا ہے۔ یہ مسئلہ نواڈا کے صحراءمیں امریکہ کے مین ہٹن منصوبہ شروع ہونے سے پہلے سے چل رہا ہے۔ ایٹم بم کو مطلوبہ ہدف تک پہنچانے اور کامیابی سے ایٹمی دھماکہ کرنے کا طریقہ کار ایٹمی منصوبے کا اٹوٹ حصہ ہے۔ علاوہ ازیں جو لوگ تباہی و بربادی سے دوچار ہوتے ہیں انہیں اس بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تباہی بیلسٹک میزائل سے ہورہی ہے یا ایٹم بم سے۔
ایران نے اپنے اتحادیوں او رپریشر گروپوں کے ذریعے انتہائی مہارت سے اوباما کی حکومت کو ایٹمی مسئلے اور دیگر مسائل میں ربط پیدا کرنے سے دور رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔سوال یہ ہے کہ فی الوقت ایران اس بات پر بضد کیوں ہے کہ ایٹمی معاہدے پر کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔ جواب یہ ہے کہ ایران میزائل پروگرام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی اپنی آ زادی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اس نے ایٹمی پلانٹ اور میزائل پروگرام کو ایک دوسرے سے جدا رکھنے کاچکر یونہی نہیں چلایا تھا۔ اسکے اپنے مقاصد تھے۔ایٹمی معاہدے کے تحت ایران اپنے یہاں ایٹمی تحقیق کا مجاز ہے لہذا اہم بات یہ ہے کہ آئندہ مرحلے میں وہ بات طے ہونی چاہئے جس کےلئے ٹرمپ بضد ہیں۔ یورپی یونین صدر ٹرمپ کی تجویز کو محض اقتصادی مفادات کی بنیاد پر مسترد کررہے ہیں۔ وہ ایٹمی معاہدے کو میزائل پروگرام سے جوڑنے والے امریکی مشن پر ضد نہیں پکڑ رہے حالانکہ وہ نیٹو میں امریکہ کے حلیف ہیں او رایران کا میزائل پروگرام منطقی انجام تک پہنچنے کی صورت میں وہ خود ایران کے رحم و کرم پر ہونگے۔ 
روس ، چین اورشمالی کوریا کی مدد سے ایرانی میزائل 30میٹر لمبے ایٹم بم 3ہزار کلو میٹرتک لیجانے کی صلاحیت حاصل کرلیں گے۔ ہیرو شیما او رناگاساکی پر جو ایٹم بم گرائے گئے تھے وہ 10میٹر سے بھی چھوٹے تھے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مئی کے دوران ایٹمی معاہدے میں توسیع پر ہونے والے مذاکرات میں ایران کے میزائل پروگرام کو ایٹمی معاہدے سے جوڑنے کا اہتمام کیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: