Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے

موت کا وقت متعین ہے، موت پر انسان کے اعمال کا رجسٹر اور توبہ کا دروازہ بند اور جزا وسزا کا وقت شروع ہوجاتا ہے
*  * * *ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی۔ ریاض* * * *

 

  خالق کائنات اللہ رب العزت نے ہر جاندار کے لئے موت کا وقت اور جگہ متعین کردی ہے اور موت ایسی شی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص خواہ وہ کافر یا فاجر حتیٰ کہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو، موت کو یقینی مانتا ہے۔ اگر کوئی موت پر شک وشبہ بھی کرے تو اسے بے وقوفوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ بڑی بڑی مادی طاقتیں اور مشرق سے مغرب تک قائم ساری حکومتیں موت کے سامنے عاجز وبے بس ہوجاتی ہیں۔ موت بندوں کو ہلاک کرنے والی، بچوں کو یتیم کرنے والی، عورتوں کو بیوہ بنانے والی، دنیاوی ظاہری سہاروں کو ختم کرنے والی، دلوں کو تھرانے والی، آنکھوں کو رلانے والی،بستیوں کو اجاڑنے والی، جماعتوں کو منتشر کرنے والی، لذتوں کو ختم کرنے والی، امیدوں پر پانی پھیرنے والی، ظالموں کو جہنم کی وادیوں میں  جھلسانے والی اور متقیوں کو جنت کے بالاخانوں تک پہنچانے والی شیٔ ہے۔ موت نہ چھوٹوں پر شفقت کرتی ہے، نہ بڑوں کی تعظیم کرتی ہے، نہ دنیاوی چوہدریوں سے ڈرتی ہے، نہ بادشاہوں سے ان کے دربار میں حاضری کی اجازت لیتی ہے۔ جب بھی حکم خداوندی ہوتا ہے تو تمام دنیاوی رکاوٹوں کو چیرتی اورپھاڑتی ہوئی مطلوب کو حاصل کرلیتی ہے۔ موت نہ نیک صالح لوگوں پر رحم کھاتی ہے، نہ ظالموں کو بخشتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والوں کو بھی موت اپنے گلے لگا لیتی ہے اور گھر بیٹھنے والوں کو بھی موت نہیں چھوڑتی۔ اخروی ابدی زندگی کو دنیاوی فانی زندگی پر ترجیح دینے والے بھی موت کی آغوش میں سوجاتے ہیںاور دنیا کے دیوانوں کو بھی موت اپنا لقمہ بنالیتی ہے۔ موت آنے کے بعد آنکھ دیکھ نہیں سکتی، زبان بول نہیں سکتی، کان سن نہیں سکتے، ہاتھ پیر کام نہیں کرسکتے۔ موت نام ہے روح کا بدن سے تعلق ختم ہونے کا اور انسان کا دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے کا۔ ترقی یافتہ سائنس بھی روح کو سمجھنے سے قاصر ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر اعلان فردیا ہے: روح صرف اللہ کا حکم ہے۔ موت پر انسان کے اعمال کا رجسٹر بند کردیا جاتا ہے، اور موت پر توبہ کا دروازہ بند اور جزا وسزا کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم  نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ قبول کرتا ہے یہاں تک کہ اُس کا آخری وقت آجائے۔
    ہم ہر روز، ہر گھنٹہ، بلکہ ہر لمحہ اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ سال، مہینے اور دن گزرنے پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری عمر اتنی ہوگئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایام ہماری زندگی سے کم ہوگئے۔ موت ایک مصیبت بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    ’’اور وہیں تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے۔‘‘ (المائدۃ 106) ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی متعدد آیات میں موت اور اس کی حقیقت کو بیان کیا ہے جن میں سے چند آیات پیش خدمت ہیں:
    «  ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کو دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا، وہ صحیح معنیٰ میں کامیاب ہوگیا اور یہ دنیاوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں(آل عمران185)۔
     اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی کامیابی کا معیار ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس حال میں ہماری موت آئے کہ ہمارے لئے جہنم سے چھٹکارے اور دخولِ جنت کا فیصلہ ہوچکا ہو ۔
     «  اس زمین میں جو کوئی ہے، فنا ہونے والا ہے، اور (صرف) تمہارے پروردگار کی جلال والی اور فضل وکرم والی ذات باقی رہے گی (الرحمن 27,26)۔
    « ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے اللہ کی ذات کے۔ حکومت اسی کی ہے، اور اُسی کی طرف تمہیں لوٹ کرجاناہے (القصص 88)۔
    « ( اے پیغمبر!) تم سے پہلے بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہم نے کسی فرد بشر کیلئے طے نہیں کیا چنانچہ اگر تمہارا انتقال ہوگیا تو کیا یہ لوگ ایسے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں؟ ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم تمہیں آزمانے کے لئے بری اور اچھی حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہمارے ہی پاس لوٹ کر آؤگے(الانبیاء35,34) ۔
    «  تم جہاں بھی ہوگے(ایک نہ ایک دن) موت تمہیں جا پکڑے گی، چاہے تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہے ہو( النساء 78) ۔
    «  (اے نبی!) تم کہہ دو کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تم سے آملنے والی ہے( الجمعہ8)۔
    یعنی وقت آنے پر موت تمہیں ضرور اچک لے گی۔
     چنانچہ جب اُن کی مقررہ میعاد آجاتی ہے تو وہ گھڑی بھر بھی اُس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتے ( الاعراف34) ۔
    اور نہ کسی متنفس کو یہ پتہ ہے کہ زمین کے کس حصہ میں اُسے موت آئے گی (لقمان34)۔
     ان مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں چنانچہ بعض بچپن میں، توبعض عنفوان شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جبکہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تندرست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔
    یہی دنیاوی فانی وقتی زندگی‘ اخروی ابدی زندگی کی تیاری کے لئے پہلا اور آخری موقع ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    ’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت آکھڑی ہوگی تو وہ کہے گا کہ اے میرے پروردگار! مجھے واپس بھیج دیجئے تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں، اس میں جاکر نیک اعمال کروں۔ ہرگز نہیں، یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے، اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ ہے جب تک کہ وہ دوبارہ اٹھائے جائیں۔ ‘‘
    لہذا ضروری ہے کہ ہم افسوس کرنے یا خون کے آنسو بہانے سے قبل اس دنیاوی فانی زندگی میں ہی ا پنے مولاکو راضی کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہماری روح ہمارے بدن سے اس حال میں جُدا ہو کہ ہمارا خالق و مالک و رازق ہم سے راضی ہو۔ آج ہم صرف فانی زندگی کے عارضی مقاصد کو سامنے رکھ کر دنیاوی زندگی گزارتے ہیں اور دنیاوی زندگی کے عیش وآرام اور وقتی عزت کے لئے جد وجہد کرتے ہیں، لہذا آئیے دنیا کو دنیا کے پیدا کرنے والے کی ہی زبانی سمجھیں:
    «  اور یہ دنیاوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں(آل عمران 185) ۔
     دنیاوی زندگی کا فائدہ آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، مگر بہت تھوڑا ( التوبہ 38) ۔
    «   کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ تو تھوڑا سا ہے،اور جو شخص تقویٰ اختیار کرے اس کے لئے آخرت کہیں زیادہ بہتر ہے، اور تم پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا(النساء 77) ۔
    «   اور یہ دنیاوی زندگی کھیل کود کے سوا کچھ بھی نہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ دار آخرت ہی اصل زندگی ہے، اگر یہ لوگ جانتے ہوتے ( العنکبوت64)۔
    «  لوگوں کے لئے اُن چیزوں کی محبت خوشنما بنا دی گئی ہے جو اُن کی نفسانی خواہش کے مطابق ہوتی ہے، جیسے عورتیں، بچے، سونے چاندی کے لگے ہوئے ڈھیر، نشان لگائے ہوئے گھوڑے، چوپائے اور کھیتیاں یہ سب دنیاوی زندگی کا سامان ہیں( آل عمران 14)۔
      اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم دنیاوی زندگی کو نظر انداز کرکے رہبانیت اختیار کرلیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ اللہ کے خوف کے ساتھ دنیاوی فانی زندگی گزاریں اور اخروی زندگی کی کامیابی کو ہر حال میں ترجیح دیں۔
    الحمد للہ! ہم ابھی بقید حیات ہیں اور موت کا فرشتہ ہماری جان نکالنے کیلئے کب آجائے، معلوم نہیں۔ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا:
    ’’5 امور سے قبل5 امور سے فائدہ اٹھایا جائے:بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے، مرنے سے قبل زندگی سے، کام آنے سے قبل خالی وقت سے، غربت آنے سے قبل مال سے، بیماری سے قبل صحت سے۔‘‘
     لہذا ہمیں توبہ کرکے نیک اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہئے۔
     اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    «   اور اے مومنو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ (النور31)۔
    «   کہہ دو کہ: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے(یعنی گناہ کررکھے ہیں)، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے (الزمر 53) ۔
    قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا یہاں تک کہ وہ 5 سوالات کا جواب دیدے: زندگی کہاں گزاری؟ جوانی کہاں لگائی؟ مال کہاں سے کمایا؟ (یعنی حصول ِ مال کے اسباب حلال تھے یا حرام)، مال کہاں خرچ کیا؟ (یعنی مال سے متعلق اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کئے یا نہیں)، علم پر کتنا عمل کیا؟
    حضور اکرم  نے ارشاد فرمایا:
     اُذْکُرُوا ہَاذِمَ اللَّذَّات۔
     ایک روایت میں ہے:
     اَکْثِرُوْا ذِکْرَ ہَاذِمِ اللَّذَّاتِ۔
    ’’  لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔ ‘‘ (ترمذی)۔
    موت کو یاد کرنے کے چند اسباب یعنی وہ اعمال جن سے موت یاد آتی ہے، یہ ہیں:
    ٭ وقتاً فوقتاً قبرستان جانا ۔
     حضور اکرم  نے ارشاد فرمایا:
     قبروں کی زیارت کیا کرو، اس سے تمہیں آخرت یاد رہے گی(مسند احمد وابوداود)۔
    ٭ مُردوں کو غسل دینا یا اُن کے غسل کے وقت حاضر رہنا۔
    ٭ اگر موقع میسر ہو تو انتقال کرنے والے شخص کے آخری لمحات دیکھنااور اُن کو کلمہ شہادت کی تلقین کرنا۔
    ٭  جنازہ میں شرکت کرنا۔
    ٭  بیماروں اور بوڑھوں سے ملاقات کرنا۔
    ٭ آندھی، طوفان اور زلزلے کے وقت انسانوں کی کمزوری اور اللہ تعالیٰ کی طاقت وقوت کا اعتراف کرنا۔
    ٭ پہلی امتوں کے واقعات پڑھنا۔
    موت کو کثرت سے یاد کرنے والوں کو اللہ کی جانب سے مذکورہ اعمال کی توفیق ہوتی ہے:
    ٭ گناہوں سے توبہ نصیب ہوتی ہے۔
    ٭ گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے۔
    ٭ سخت دل نرم ہوجاتا ہے اور وقتاً فوقتاً آنکھوں سے آنسو بہہ جاتے ہیں۔
    ٭ دل قناعت پسند بن جاتا ہے۔
    ٭ عبادت میں نشاط پیدا ہوتی ہے۔
    ٭  بہت ساری دشواریاں آسان ہوجاتی ہیں۔
    ٭ لمبی لمبی امیدیں اور امنگیں کم ہوجاتی ہیں۔
    ٭  تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے جس سے انسان دوسروں پر ظلم کرنے اور کبر کرنے سے محفوظ رہتا ہے۔
    ٭ اخروی زندگی یاد رہتی ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوتا ہے۔     اللہ تعالیٰ ہم سب کو مرنے سے قبل مرنے کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی سے نوازے،    آمین۔       
مزید پڑھیں:- - - - - سنتِ مبارکہ کے اتباع کے اصول

شیئر: