Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قرآن مجید کی عظیم تر سورت ، الفاتحہ

اس سورت میں 4 صفات ِ الٰہی کا ذکر ہے،ربو بیت،رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت، یہی جملہ صفاتِ الٰہی کا سر چشمہ ہیں

 

* * * مولانا سید حبیب اللہ الخطیب۔ کراچی* * *

    سورۃ الفاتحہ مکہ میں نازل ہوئی ، اس میں 7آیتیں ہیں۔ یہ قرآن کریم کی تعلیمات کا نچوڑ اور خلاصہ ہے۔ صحیح احادیث میں اس کو اعظم سورہ فی القرآن کہا گیا ہے یعنی قرآن کی سب سے زیادہ عظمت والی سورت۔ ارشاد ربانی ہے:
     ’’ تحقیق ہم نے آپ کو 7 دہرائی جانے والی چیز عطا کی ہے اور قرآن بھی دے رکھا ہے۔‘‘( الحجر87)۔
     آیت مذکور میں ’’ سَبْعًا مِّنَ الْمثانی ‘‘  سے مراد اس سورت کی7 آیتیں ہیں جو پنجگانہ نماز  کی رکعتوں میں دہرائی جاتی ہیں ۔ نماز میں اِسکو پڑھنا واجب ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’ سورۃ الفاتحہ کے بغیر نماز نہیں۔‘‘ گویا نماز اور سورۃ الفاتحہ لازم و ملزوم ہیں ۔ مکمل سورتوں میں سب سے پہلے نازل ہونے والی یہی سورت ہے اور یہ صرف قیاس اور قرائن ہی نہیں بلکہ ایک روایت میں بھی آیا ہے  جسے امام بیہقی کی روایت کے ساتھ’’ دلائل النبوہ‘‘  میں بیا ن کیا گیا ہے کہ’’ سورۃ الفاتحہ قرآن میں پہلی نازل ہونے والی سورت ہے۔‘‘ یعنی اسی اعتبار سے قرآن کریم کی ابتدا ہی اسی سے کی گئی ہے ۔ جو بات جتنی اہم ہو وہ اتنی ہی نمایاں جگہ پاتی ہے اور جلی حروف سے لکھی جاتی ہے ۔ قرآن کریم میں سورۃ الفاتحہ بھی یہی شان رکھتی ہے۔ اس سورت کے کئی نام ہیں یعنی ’’سورۃ الحمد، الدعاء الصلوٰۃ، ام القرآن، ام الکتاب، اساس القرآن ، سورۃ الفاتحہ‘‘ وغیرہ۔
    اس سورت میں 4 صفات ِ الٰہی کا ذکر ہے :ربو بیت،رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت۔
    اور یہی 4 صفات جملہ صفاتِ الٰہی کا سر چشمہ ہیں جسکی قرآن کریم میں جگہ جگہ وضاحت کی گئی ہے ۔ اس سورت میں بندگانِ خدا کو اظہار ِ نیاز مندی کے آداب اور درخواست پیش کرنے کے طریقے سکھائے گئے ہیں اور یہی سلیقہ  قبولیت  کی ضمانت ہے۔
    سور ۃ الفاتحہ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ منعمِ حقیقی سے کون سی نعمت کی طلب کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد اُسکی صفات کا بیان کیا جا تا ہے کہ وہ پر وردگار ہے اور سارے عالموں کی بِلا شرکت غیرے ربوبیت کر تا ہے ، اُسکی ربو بیت اس ایک عالم پر منحصر نہیں بلکہ تمام عالمین کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔
    وہ قیامت کے دن کا با اختیار مالک اور قادرِ مطلق ہے جسکو چاہے عذاب دے اور جس کو چاہے بخش دے ۔
    ایسے عظیم  الشان مولا و آقا کی صفات ِ جلیلہ سے متعارف ہو کر یہ عہد و اقرار کیا جا تا ہے کہ ہمارا سرِ نیاز تیری ہی بارگاہ میں جھکتاہے اور ہم فقط تیری ہی پر ستش و عبادت کرتے ہیں اور اپنی تمام تر حاجتوں اورضرورتوں کیلئے تیری ہی جناب میں دستِ سوال دراز کرتے ہیں۔ اسلئے کہ بندہ کی نظر میں اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی اور حاجت روا نہیں، یہی ایک بارگاہ ہے جہاں سے سب ہی فیضیاب ہوتے ہیں اس کے خزانۂ قدرت میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔
    حمد باری تعالیٰ کرتے ہوئے اپنے عجزو انکسار کے بعد سیدھی راہ پر عمر بھر چلتے رہنے کی ہدایت طلب کی جاتی ہے، چونکہ دنیا میں مختلف مذاہب کے لوگ پائے جاتے ہیں:کُلُّ حِزْبٍ بِما لَدَیْھِم فَرِحُون یعنی ہر جماعت اپنے طریق پر خوش ہے کے مصداق ہر ایک  کوراست بازی کا دعویٰ ہوتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا بندہ اپنے رب ہی سے رجوع کرکے یہ درخواست کرتا ہے کہ : اے اللہ ! تو ہی میری دستگیری و رہنمائی کر اور مجھے متفرق و پیچیدہ راہوں  سے ہٹاکر سیدھی راہ پر ڈال دے ، وہی راہ جس پر تیرے نیک بندے چلتے رہے جنہیں تو نے ہمیشہ اپنے بے پایاں انعام و اکرام سے نوازا۔ بارگاہِ احدیت کے یہ انعام یافتہ انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین ہیں جن کی نشاندہی قرآن کریم نے کی ہے:
    ’’ جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا وہ انبیاء ، صدیقین، شہداء اور نیکوکار ہیں۔‘‘انہی   کی راہ ِ مستقیم ہے، اسکے علاوہ صریحاً گمراہی ہے ۔ اگر ان پاکیزہ ہستیوں کی راہیں نہ ملیں تو رہِ حیات میں بھٹک کر ایسی غلط راہوں پر جا پڑیں گے جہاں متاعِ دین و ایمان لُٹ جائیگی اور رضائے الٰہی کے بجائے غضبِ خداوندی کے شکار ہوں گے اور پھر منزل ِ مقصود کبھی ہاتھ نہ آسکے گی گویا خَسِرَ الدُّنیا وَا لْاٰخِرَۃِکا انجام ہوگا۔
    انسان اپنی کج فہمی اور کم عقلی کے باعث یہود و نصاریٰ کی راہیں اختیار کر لیتا ہے جو مغضوب اور ضآ لین ہو کر رہ گئے ۔ مغضوب سے مراد یہود اور ضآلین سے مراد نصاریٰ ہیں ۔ اس سورت میں بندہ اپنے رب سے انہی کی راہوں سے بچا کر صراطِ مستقیم پر چلانے کی درخواست کرتا ہے۔

مزید پڑھیں:- - - - -ماں نے کبوتر کو لقمہ کھلایا بچی نے کبوتر کے منہ سے چھین لیا

شیئر: