Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہنگ پارلیمنٹ

***محمد مبشر انوار***
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اور سیاسی جماعتوں کی ہٹ دھرمی پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت واضح نظر آ رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین میں سیاسی سوجھ بوجھ کا شدید فقدان ہے۔ سیاسی قائدین ایک طرف ملک کو جمہوری روایات کے مطابق چلانے کے لئے ز و ر دیتے ہیں تو دوسری طرف جمہوری روایات کے مطابق رو بہ عمل ریاستی اداروں کے احکامات کی تذلیل و تضحیک کے ساتھ ساتھ انہیں تسلیم بھی نہیں کرتے۔ مقتدرہ کی طرف مسلسل اشارے ،عوام میں گمراہ کن پروپیگنڈے ،عدالت عظمیٰ کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان ،معزز ججز کو ننگی گالیاں،سول اداروں کی ملی بھگت سے سیاسی چمچوں او رکڑچھوںکو سزائیں ملنے پر بیماریوں کے بہانے ہسپتالوں میں عیاشی کی سہولت،من پسند افسر شاہی کو کھلی چھوٹ اور مسلمہ طریقۂ کار سے ہٹ کر تقرریاں و ترقیاں،چھوٹی سوچ کے مظاہرے۔اس وقت سیاسی قا ئد ین کی یہی ترجیحات ہیں۔ اس پس منظر میں آئندہ مجوزہ انتخابات میں کیا ہو گا؟کون سی جماعت اکثریت حاصل کرپائیگی؟ کیا وفاق میں کوئی ایک سیاسی پارٹی سادہ اکثریت بھی حاصل کر پائیگی؟مقتدرہ کے حوالے سے تحفظات کے باوجود،اگر مقتدرہ اس حد تک سیاست میں دخیل ہے یا اس کا اتنا اثرورسوخ ہے تو کیا موجودہ اشرافیہ سیاست دان کہلانے کی حق دار ہے؟کیا موجودہ سیاست دان صرف اُس وقت نظریاتی ہوتے ہیںجب انہیں اقتدار سے رخصت کیا جاتا ہے؟کیا ایسے ہوس اقتدار کے بھوکوں کو سیاست دان تسلیم کیا جائے یا انہیں صر ف ’’تاجر‘‘ یا ’’کھلاڑی‘‘ ہی تسلیم کیا جائے؟یہ آمریت کا ہی اعجاز ہے کہ وہ اپنے اقتدار کی خاطر قوم کو یکجاکرنے کی بجائے تقسیم کرتے ہیں جبکہ ایک حقیقی سیاستدان نہ صرف قوم کو وژن دیتا ہے بلکہ اسے ایک لڑی میں بھی پروتا ہے۔پاکستان کی آدھی زندگی آمروں کے زیر سایہ گزر ی اور اس زندگی میں جس سیاسی اشرافیہ نے جنم لیا،اس کی کارکردگی آج سب کے سامنے ہے۔ یہ وہ سیاسی اشرافیہ ہے جو قوم کو متحد کرنے کی بجائے مزید تقسیم کر رہی ہے یا جغرافیائی سرحدوں کے حوالے سے جو حصے ان کو دئیے جا چکے ہیں،وہ ان پر قانع رہتے ہوئے،اپنے حلقے میں بھرپور فاشزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کو وہاں قدم جمانے کی اجازت نہیں دیتے۔
راقم اس سے پہلے اپنی ایک تحریر بعنوان ’’ متوقع انتخابی نتائج‘‘میں اس حوالے سے مفصل لکھ چکا ہے کہ اگر افسر شاہی کا کردار یہی رہا اور ان کی وفاداریاں مسلم لیگ ن کے ساتھ رہی تو انتخابی نتائج (بالخصوص پنجاب )میں کوئی واضح تبدیلی ممکن نہیں ہے لیکن اب صورتحال تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے کہ عدالت عظمی جس طرح بلا امتیاز نہ صرف بنیادی انسانی حقوق سے متعلق معاملات کو نپٹا رہی ہے بلکہ افسر شاہی کی ریاست سے ہٹ کر وفاداریوں پربھی انتہائی سنجیدگی کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق معاملات کو ٹھیک کر رہی ہے۔ اس کی ایک سادہ سی مثال احد چیمہ کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری ہے،جس نے حکمران خاندان کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور وہ اس حد تک چلے گئے کہ صوبائی افسر شاہی نے ہڑتال کی دھمکی دے دی۔ ریاست نے اس پر بجائے گھٹنے ٹیکنے کے سخت مؤقف اختیار کیا اور ان تمام چیلے چانٹے افسروں کی فہرست طلب کر لی جو ہڑتال میں ملوث ہو رہے تھے،نتیجہ فوری طوری پر افسر شاہی نے پسپائی اختیار کر لی،اس پسپائی نے حکمران خاندان کو بھی واضح پیغام دے دیا کہ اب معاملات ماضی کی طرح نہیں چل سکتے ۔ اس صورتحال میں یہ امر بھی واضح ہے کہ انتخابی میلے میں نتائج ویسے نہیں ہوں گے جس طرح توقعات/امیدیں مسلم لیگ ن لگائے بیٹھی تھی،اب یقینا حالات بدل جائیں گے اور مسلم لیگ ن کے لئے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ وہ صرف پنجاب فتح کرکے وفاق میں حکومت بنا لے۔ تسلیم کہ اس کے باوجود مسلم لیگ ن خاطر خواہ انتخابی نتائج دے گی مگر حیران کن نتائج کا آنا بھی ممکن ہے کہ جن حالات سے مسلم لیگ ن دوچار ہے اور جس طرح کا بیانیہ مسلم لیگ ن عوام میں دے رہی ہے،وہ بیانیہ ممکن ہے عوام بوقت انتخاب’’واقعتاً‘‘اس بیانئے سے متاثر ہو کر مسلم لیگ ن کو ہی دوبارہ مینڈیٹ دے دیں لیکن اس کے امکانات کتنے کم/زیادہ ہوتے ہیں،وہ انتخابات کے قریب آنے پر ہی پتہ چلے گا،اس وقت تک دونوں ممکنہ صورتیں موجود ہیں۔
پی ٹی آئی کی صورتحال بھی اس وقت اتنی حوصلہ افزاء نہیں کہ خان بالعموم غلط وقت پر صحیح فیصلہ کرنے میں مشہور ہے اور اس وقت بھی اسے اسی کا سامنا ہے گو کہ یہ اس کا ذاتی خانگی معاملہ ہے مگر اس کے اثرات انتہائی دوررس ہیں،جن سے خان پوری طرح واقف نہیں لیکن اگر اس کے ووٹرز نے خان کی اس کوتاہی سے صرف نظر کر لیا(جس کا قوی امکان ہے کہ ہماری عوام سات خون معاف کردینے والی خاصیت رکھتی ہے)تو عین ممکن ہے پنجاب میں پی ٹی آئی بہتر نتائج دے یا کم ازکم مسلم لیگ ن کی روایتی برتری کا خاتمہ کر سکے۔ ایسی صورت میں مسلم لیگ ن کہاں کھڑی ہو گی؟علاوہ ازیں مسلم لیگ ن میں درون خانہ طاقت کی جو رسہ کشی جاری ہے،اس کے نتائج کیا ہوں گے،اس رسہ کشی کا اثر انتخابی سیاست پر کیا ہوگا؟کیا ہیوی ویٹس عدالتوں سے نااہل اور متوقع مجرمان کے ساتھ کھڑے رہ پائیں گے (کتنے ہیوی ویٹس چوہدری نثار کے ہم خیال بن کر الگ گروپ بنائیں گے)۔پیپلز پارٹی ،پنجاب میں مرحومہ و مغفورہ،کس حد تک خود کو زندہ کر پائے گی؟ایک حقیقت تو واضح ہے کہ پیپلز پارٹی کے پچھلے5 سالہ مفاہمتی دور حکومت نے زرداری کی قیاس آرائیوں کو بری طرح غلط ثابت کر دیا ہے اور پنجاب کی شہری سیاست میں پیپلز پارٹی کا وجود ناپید ہو چکا ہے،ایسے میں پیپلز پارٹی (جو کبھی عوامی سیاست کی دعویدار تھی)آج جوڑ توڑ کی سیاست کرنے کی شہرت پا چکی ہے،کیسے اور کس طرح وفاقی حکومت کی دعویدار بن پائے گی؟کل کی وفاقی جماعت کا سٹیٹس آج ایک پریشر گروپ سے زیادہ نہیں کہ دیہی سندھ سے یہی پارٹی دوبارہ جیت کر آ ئے گی،تھوڑا فرق اب کراچی میں ضرور پڑیـ گا کہ ایم کیوایم کے منتشر ہونے کے بعد ممکن ہے پیپلز پارٹی کراچی میں ایک سے زیادہ نشستیں جیت پائے کہ دوسری طرف پی ایس پی بھی جان توڑ کوشش کرے گی،جماعت اسلامی بھی حصہ بقدر جثہ کی طلبگار ہو گی۔ 
انتخابی نتائج کا منظر کسی بھی صورت ایک سیاسی جماعت کو واضح اکثریت میں نہیں دکھا رہا ماسوائے اگر مگر،چونکہ چنانچہ،لیکن ویکن ہو جائے تو ممکن ہے کہ کوئی ایک سیاسی جماعت سامنے آ جائے۔ سیاسی جماعتیں اپنی کوتاہیوں اور کوتاہ بینی کے سبب اس حد تک زوال پذیر ہو چکی ہیں کہ آج وفاق کی کوئی ایک بھی جماعت عملاً میدان میں موجود نہیں لیکن اس کے باوجود قائدین کی اکثریت ،مقتدرہ اور عدالتوں پر تبری بھیجنے سے باز نہیں آ رہی۔ اس مفروضے کو اگر تسلیم کر لیا جائے کہ مقتدرہ ہی اس کھیل کے پیچھے ہے تب اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیاست دان ہی نا اہل ہیں،اگر عدالت کے ایکٹو ازم کو تسلیم کیا جائے تو سیاست دانوں کے ماورائے قانون اعمال کو بھی تسلیم کرنا پڑے گااوران سب حقائق کی روشنی میں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا ہم پر سیاست دانوں کی بجائے ’’تاجر(بشمول جوڑ توڑکے تاجر)‘‘ یا ’’کھلاڑی ‘‘ مسلط ہیں،جو سیاسی سوچ/وژن سے محروم، قوم کو متحد کرنے کی بجائے تقسیم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں(بلکہ انہیںضیاء دور سے منقسم قوم ملی ،جسے انہوں نے مزید تقسیم کر دیا)اور نتیجہ آج ایک ہنگ پارلیمنٹ کی صورت سامنے آنے کو ہے۔
ہنگ پارلیمنٹ 
محمد مبشر انوار
 

شیئر:

متعلقہ خبریں