سعودی عرب کے جزیرہ داریں کے رہائشیوں نے سالم المطوع ہال میں جمع ہو کر خون کا عطیہ دیا، یہ مہم الجزیرہ سپورٹس کلب نے قطیف ہیلتھ نیٹ ورک کے تعاون سے منعقد کی تھی۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ مہم ’آپ کا خون، زندگی ہے‘ ہمدردی اور شہری ذمہ داری کا اظہار ہے۔
مزید پڑھیں
-
’ہارٹ اٹیک کا خطرہ کم‘، خون کا عطیہ کن بیماریوں سے بچاتا ہے؟Node ID: 886142
ریم الحمدان جو ڈائریکٹر برائے سماجی ذمہ داری الجزیرہ سپورٹس کلب اور تنظیمی کمیٹی کی سربرا ہیں، کا کہنا ہے’ یہ مہم صرف ایک کمیونٹی ایونٹ نہیں بلکہ ایک ذاتی مشن ہے۔‘
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’جب ہمیں یقین ہوتا ہے کہ ہر قطرہ خون کسی کی زندگی میں نیا موقع دے سکتا ہے، تو ہم سمجھتے ہیں کہ خون دینا صرف ایک رضاکارانہ عمل نہیں بلکہ ایک طاقتور انسانی پیغام ہے۔‘
ریم الحمدان نے یہ پروگرام اس وقت ترتیب دیا جب وہ دوستوں اور خاندان کے ساتھ ہسپتالوں کے دورے کر رہی تھیں اور وہاں ان مریضوں کی مشکلات دیکھی جو خون کی کمی یا دیگر بیماریوں کی وجہ سے ٹرانسفیوژن کے محتاج تھے۔
انہوں نے کہا کہ’ یہ قریبی اور جذباتی لمحات مجھے یہ احساس دلاتے ہیں کہ خون دینا صرف ایک انتخاب نہیں، بلکہ ایک ضرورت ہے جو زندگی بچاتی ہے اور امید واپس لاتی ہے۔‘

مہم میں شامل متعدد افراد میں سے صحافی فارس الدرباس بھی باقاعدگی سے خون دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’خون دینا ایک انسانی خدمت ہے جو مریضوں اور زخمیوں کی مدد کرتا ہے جنہیں ٹرانسفیوژن کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا ’انہوں نے سب سے پہلے خاندان کے رکن کے لیے خون دیا تھا۔ میں سب سے پہلے آگے بڑھنے والوں میں تھا جس کا میرے اوپر بہت اثر ہوا۔ مجھے لگا جیسے میں نے کسی کی زندگی بچائی۔‘

مہم میں خاص طور پر نئے شرکا کے لیے ایک محفوظ اور خوش آمدید کہنے والا ماحول بنانے کو ترجیح دی گئی۔ ایک میڈیکل ٹیم بھی موجود تھی تاکہ سوالات اور خدشات کا جواب دے سکے۔
ریم الحمدان نے کہا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ رضاکار جب پہنچیں تو محفوظ محسوس کریں اور ہم انہیں جذباتی اور اخلاقی حمایت فراہم کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ محسوس کریں کہ وہ کسی معنی خیز کام کا حصہ ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ ’ایک کینسر کے مریض نے اپنی بیماری کے باوجود خون دینے پر اصرار کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں اس کے لیے بے حد شکر گزار محسوس کرتی ہوں۔ اس نے مہم کے نام ’آپ کا خون، زندگی ہے‘ کو حقیقی معنی دیے، کیونکہ درد میں مبتلا لوگ بھی دوسروں کو زندگی دینے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
ریم الحمدان نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ مہم کمیونٹی میں مستقل طور پر جاری رہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ یہ مہم ہر سال منعقد ہو۔۔۔ کچھ ایسا جو نہ صرف خون کے بینک کی مدد کرے بلکہ خون کی کمی اور باقاعدہ خون دینے کی اہمیت کے بارے میں آگاہی بھی بڑھائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ یکجہتی دکھاتی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اب بھی نیکی زندہ ہے۔ ہم مل کر حقیقی فرق لا سکتے ہیں۔‘