Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”ادبآداب“

شہزاد اعظم۔جدہ
آج میرا ہموطن تارک بہت غصے میں تھا۔اس کی بھی عجب کہانی ہے۔ جب پیدا ہوا تو والدین جھگی نشین تھے۔ ذرا بڑاہوا تو ٹاٹ اسکول میں بٹھا دیاگیا پھر ابا نے جو ایک سرکاری محکمے میںجاروب کش یعنی ”جھاڑو پھیرو“تھے انہوں نے محکمے کی تجوری پر جھاڑو پھیر دی یعنی 10لاکھ کا غبن کر لیا ۔گرفتار ہوئے تو گرفتار کنندگان میں 2لاکھ روپے کی ”سرمایہ کاری “ کی۔جیل میں وقت گزاری کے دوران ہی ایک سیاسی جماعت میں شمولیت اختیارکر لی۔ اپنی سزائے قید کو ”سیاسی جد و جہد“ کا رنگ دیا اور”معززینِ شہر“ کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ اب انہوں نے اپنے بیٹے یعنی ہمارے اس ہموطن تارک کو ”کانوینٹ“ میں داخل کر وا دیا جہاں انہوں نے چھٹی جماعت سے 8ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اوراس کے بعد اچانک ہی یتیم ہوگئے اور پڑھائی ترک کر کے بیرون ملک جانے کی کوششیں شروع کر دیں اور 5سالہ جدوجہد کے بعد بالآخر ان کا خواب شرمندہ¿ تعبیر ہوگیا۔ اس ”تعبیری شرمندگی“ کے بعد سے جدہ میں ہی مقیم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں”ٹاٹ اسکول سے کانوینٹ“ تک کے 8سالہ تعلیمی سفرنے نابغہ¿ روزگار شخصیت بنا دیا۔ اُن میں اگر ٹاٹ اسکول کی ”ٹاٹیت“ کوٹ کوٹ کر بھری ہے تو دوسری جانب اس پر ”کانوینٹیت“ کا ملمع چڑھا ہوا ہے۔ یوں وہ عجیب و غریب دورنگی یادوغلے پن یا دہری کیفیات کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود ان کی باتیں سنہری حروف سے رقم کرنے کے قابل ہیں۔ کل ہی اُن سے ملاقات ہوئی ، رمضان کریم کی مبارکباد دینے کے لئے آئے تھے۔فرمانے لگے کہ:
”ہمارے ہاں ”ادبآداب“بالکل ہی چوپٹ ہو کر رہ گیا ہے۔ کل میرے ”شیڈو فیلو“یعنی ”ہم سایہ“ کا بھائی، جس کا نام ”ایلوا“ تھا، کراچی میں”بدچلن“ گولی کا شکار ہوگیا۔ “ہم نے کہا کہ آوارہ گولی تو سنی تھی یہ بد چلن گولی کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ سوال ہی احمقانہ ہے ۔بھائی میاں! وہ گولی جو بدچلن لوگ چلاتے ہیں، ”بدچلن گولی“ کہلاتی ہے، شریفانہ کارتوس تو کہلانے سے رہی۔بہر حال اس سانحے کی خبر ٹی وی پر یوں نشر ہوئی کہ ”ایلوا“نامی شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا، لاش گھر پہنچی تو ماں دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ اس کے مقابلے میں کوئی سیاسی شخصیت ”عوامی گولی“ کا نشانہ بنتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخصیت ”شہید“ ہوگئی۔ لاش گھر پہنچی تو صفِ ماتم بچھ گئی۔ اس کی موت پر بڑے بڑے ایوانوں میں ”خاموشی“ اختیار کی جاتی ہے۔غریب قبر میں دفنایا جاتا ہے جبکہ امیر آدمی کواس کی آخری آرام گاہ میں سپردِ خاک کیا جاتا ہے۔اسی لئے تو کہتا ہوں کہ ”ہمارے ہاں ”ادبآداب“بالکل چوپٹ ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ ادبی سرمایہ داروں یعنی شاعروں اور ادیبوںکے حوالے سے بھی یہی تفریق پائی جاتی ہے۔ عام آدمی کسی محفل میں جائے تو کہتے ہیں کہ ”دیکھوں! منہ اٹھا کر چلا آیا۔“ اس کے مقابلے میں شاعر یا ادیب آئے تو کہا جاتا ہے کہ ”وہ تشریف لا رہے ہیں۔“شاعرجب بزم سے جائے تو اسے ”وداع ہونا“ کہتے ہیں اور غریب آدمی چلا جائے تو کہتے ہیں کہ”دفع ہو گیا۔“ 24یعنی دودرجن غریب دوست گلی کے کسی تھڑے پر بیٹھ جائیں تو کہا جاتا ہے کہ ”ایک ٹولے نے چکری جما رکھی ہے“ مگر صرف 2شاعر کہیں جمع ہوجائےں تو اسے ”ادبی نشست“ کا نام دیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ شاعر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ”ادبآداب“ روا نہیں رکھتے۔ اپنے اشعار کو یہ کہہ کر سناتے ہیں کہ ”اس شعر کو ذرا غور سے سنئے، آپ سے داد چاہوںگا“جبکہ دوسرے کے لئے کہتے ہیں کہ وہ شاعر ی نہیں ”تُک بندی“ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ غریب اگر دلہن لے آئے تو کہتے ہیں کہ فلاں نے ”شادی رچا لی“ اور امیر وہی کام کرے تو کہتے ہیں کہ فلاں صاحب ”رشتہ¿ ازدواج میں منسلک“ ہوگئے۔اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ ”ہمارے ہاں ”ادبآداب“ چوپٹ ہو چکا ہے۔اسی طرح بااثر آدمی جب بینک سے اربوں روپے کی رقم اینٹھتا ہے تو اسے ”قرضہ “ کہا جاتا ہے اور ”بے اثر“ آدمی جب بینک سے چند ہزاراینٹھ لیتا ہے تو اسے ”غبن“ کہا جاتا ہے۔بے اثر جب خون پسینے کی کمائی سے خزانہ بھرتا ہے تو اسے ”ریونیو“ کہا جاتا ہے اوربااثر جب خزانہ خالی کرتا ہے تو اسے ”قوم کی خدمت“ کا نام دیاجاتا ہے۔ اسی طرح بااثرکہیںجا بیٹھے تو کہا جاتا ہے کہ وہ ”جلوہ افروز “ ہیں اور غریب آدمی کہیں بیٹھ جائے تو کہتے ہیں کہ ”مسلط ہو گیا ہے“ اسی لئے کہتا ہوں کہ ”ہمارے ہاں ”ادبآداب“ چوپٹ ہے۔سچ یہ ہے کہ جنہیں ”جلوہ افروز “ کہا جاتا ہے وہ درحقیقت مسلط ہیں اور بے اثر لوگ اس ”تسلط“ سے نجات چاہتے ہیں۔
 

شیئر: