Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی ثقافت اور تہذیب

حمود ابوطالب ۔ عکاظ
ہم سعودی جہاں بھی جائیں، خواہ حکومتی ذمہ داران ہوں یا عام شہری ،ہمارے ساتھ جو شہرہ لگا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم بدو ہیں۔ یہ شہرہ مغرب سے پہلے خود عربوں نے ہم پر لگا یا ہے کہ ہم ایسی قوم ہیں جن کی سرزمین میں تیل کی دولت تو نکل آئی ہے مگر ہم بنیادی طور اجڑ بدو ہیں ۔ تیل کی دولت سے ہمیں صرف خرچ کرنا آگیا ہے مگر ہمیں انسانی تہذیب وتمدن سے کوئی واسطہ نہیں۔ عرب شعراءاور مفکروں نے ہماری شناخت وپہچان صحرائ، اونٹ ، خیمہ اور تیل سے کردی ہے اور اس مقصد کےلئے انہوں نے بڑی فنکاری بھی دکھائی ہے۔ اس طرح ایک طرح سے وہ ہمار ا مذاق بھی اڑاتے رہے۔ افسوس کہ اس شہرت ، شناخت اور شبیہ کو ہم نے بھی رواج دیا ہے ۔ ہم نے کبھی بھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ دنیا میں اپنی شبیہ کو درست کریں اور اپنی تہذیب وتمدن ، ثقافت اور قدیم ورثے کے علاوہ اپنی فکری کارناموں کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔
یہ کوتاہی صرف مفکرین اور افراد سے ہی نہیں ہوئی بلکہ سرکاری اداروں سے بھی ہوئی ہے۔ ہمارے سرکاری اداروں نے ہزاروں واعظ، دعاة اور علماءکو دنیا کے کونے کونے میں بھیجنے کا اہتمام کیا مگر ہم اس عرصے کے دوران ایک بھی ادیب، مفکر ، نقاد ، شاعر ، مصنف یا فنکار کو کہیں بھی نہیں بھیجا۔ہمارے ذمہ داران دنیا بھر میں جاتے ہیں اور وہاں تیل اور دولت کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں مگر کوئی بھی اُن سے ثقافت، تہذیب اور فکری کاموں کے بارے میں نہیں پوچھتا کیونکہ یہ بات خود ہمارے ذہن سے محو ہوچکی ہے کہ ہمارے ہاں تہذیب وثقافت کے علاوہ فکری کام بھی ہےں۔ مطالبہ کرنے والے مطالبہ کرکے تھک گئے کہ ہماری تہذیب، تمدن، فن اور فکری کاموں سے دنیا کو آشنا کیا جائے مگر ہمارے مطالبوں پر کسی نے توجہ نہیں دی کیونکہ ہم ایسی چیزوں کا مطالبہ کر رہے تھے جو ممنوعہ اشیاءمیں آتی تھیں۔ ہمارے ہاں فن، موسیقی، گانا اور دیگر ثقافتی پروگرام ممنوع تھے یہاں تک کہ وژن2030متعارف کیا گیا جس نے سعودی عرب کی تہذیب، ثقافت اور فن پر زور دیا۔
اگر یہ وژن حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے تو دیگر ثقافتوں کے ساتھ سعودی عرب کے نئے رابطے استوار ہوں گے۔ہم پرانی غلطیوں کو بھول جائیں اور نئے صفحے کا آغاز کریں ، انسانی فکری پیداوار سے دنیا کو آگاہ کریں۔ دنیا کو بتائیں کہ سعودی عرب صرف تیل پیدا کرنے والاملک نہیں بلکہ یہاں فکری ، تہذیبی اورثقافتی پیداوار بھی ہے۔ اس طرح طویل عرصے کے بعد دنیا کو معلوم ہوگا کہ سعودی عرب میں ثقافتی کام بھی ہوتے ہیں۔ 
ولی عہد کا دورہ¿ امریکہ میں سعودی عرب کی ثقافت اجاگر ہوئی ہے۔ وہ جہا ںبھی گئے سعودی عرب کی ثقافت کو اپنے ساتھ لے گئے۔ سعودی ثقافت سے امریکی معاشرے کو روشناس کرانے کےلئے جہاں بھی میلے منعقد ہوئے وہاں ہزاروں امریکیوں نے شرکت کی اور سعودی ثقافت کو سراہا۔امریکی میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا صارفین نے ان میلوں کی نشاندہی کی۔ اس طرح امریکی معاشرہ سعودی عرب کے تیل ، اونٹ اور خیمے کے بجائے سعودی عرب کی ثقافت کے بارے میں بات کرنے لگا۔ اس طرح ہماری خوبصورت شبیہ دنیا کے سامنے پیش ہوئی۔ 
ہمارا ملک براعظم نما ہے جس کے طول وعرض میں سے ہر خطے کی اپنی پہچان او رالگ شناخت ہے۔ مشرقی ریجن کی اپنی تہذیب اور ثقافت ہے جو صدیوں سے معروف ہے۔ اسی طرح وسطی علاقوں کی اپنی لوک ثقافت اور الگ تہذیب ہے۔ یہی حال ساحلی علاقوں کا بھی ہے ۔ جدہ ، مکہ مکرمہ، طائف اور مدینہ کے پورے علاقہ کو حجاز کہا جاتا ہے جس کی حجازی ثقافت اور پہچان ہے۔ اسی طرح شمالی اور جنوبی علاقے ہیں جو اپنے فنون اور علوم رکھتے ہیں۔ صرف روایتی رقص اگر پیش کیا جائے تو ہمارے ملک کی نمائندگی کئی مختلف طریقوں سے کی جاسکتی ہے۔ ہمارے صحرائی علاقوں کا اپنا فن ہے، حجاز کی اپنی طرز گائیکی ہے۔ ہمارا ملک کثیر الثقافتی ملک ہے۔ ہمارے ہاں بڑے فنکار ہیں، معروف گائک ہیں۔ہمارے ملک میں عالم عرب کے جید مفکر ہیں۔ ہمارے ہاں ممتاز شعراءہیں جو مقامی بولیوں کے علاوہ فصیح عربی میں شاعری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ ہمارے ہاں یادگار ڈرامے اور ٹی وی سیریل ہوئے جو پورے خلیج میں پسند کئے گئے۔ انسان کا اپنی سرزمین سے رشتہ تہذیب اور ثقافت سے بھی وابستہ رہتا ہے۔ ہر آدمی اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے اور اسی کی عکاسی کرتا ہے۔ اب جبکہ وژن 2030پر عمل کیا جارہا ہے تو ہمیں چاہئے کہ سعودی عرب کا سافٹ امیج بھی دنیا کو دکھا ئیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ سعودی عرب صرف تیل پیدا کرنے والا ملک نہیں بلکہ خوبصورت تہذیب اور ثقافت کا بھی ملک ہے جس میں فن بھی ہے، شاعری کا خوبصورت احساس بھی ہے، یہاں سُروں اور ساز کا خوبصورت سنگم بھی ہے اور لوک ثقافت بھی۔ روایتی بدو کی شناخت ختم کرکے اب ہم ماڈرن شہری کی شبیہ پیش کریں جو اپنی جڑوں سے وابستہ ہونے کے ساتھ جدید دور کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہےں جو اپنے دین وایمان اور اسلام کی تعلیمات پر بھی عمل کرتا ہے اور قافلے کا ہمرکاب بھی ہے۔ وژن2030صرف صنعتی اور معاشی انقلاب کا نام نہیں، یہ تہذیبی اور ثقافتی انقلاب کا بھی نام ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: