Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”ہر گاﺅں کے اوپن اسکولوں میں سائبان لگاﺅ“

اُم مزمل۔جدہ
وہ 7ویں سیڑھی پر کھڑی اپنے گھر کے بیرونی 4 فٹ اونچے لکڑی کے دروازے سے باہر نظر یں جمائے کھڑی تھی ۔ وہ لان کے آخری سرے پر موجود پانی کی موٹی دھار والے نل سے بہتے پانی کو انکے گھر کے پائپ سے قریبی کیاری میں پانی پہنچا کر اپنے گھر کا پائپ سمیٹ رہا تھا۔ ابھی آدھا ہی پائپ اپنے ہاتھوں میں اٹھا پایا تھا کہ اچانک اس کے والد صاحب کی گرجدار آواز اس کی دا ہنی طرف کے گھر سے آئی۔ وہ آدھا پائپ دائرے کی صورت اپنے ایک ہاتھ میں لئے لان کے ایک سرے سے دوسرے کی طرف دوڑا۔5 فٹ چوڑی اور ساڑھے 8 فٹ اونچی سبزہ سے بنی دیوار سے گزر کر اپنے گھر کے لان میں جا پہنچا ۔ اسکی منمناتی آواز اس کے کان تک پہنچی ” جی ابا جی۔“ 
پائپ کا آدھا حصہ اسکے ہمراہ لان میں ہی گر گیا۔باقی آدھا اس سبزے کی اونچی دیوار پر معلق رہ گیا۔ پھر اس میں سے پانی کی موٹی دھار اس کمپاﺅنڈ کے دوگھروں کے درمیا ن بنی اس ڈم ڈم کی جھاڑیوں کو سیراب کرنے لگی اور کچھ دیر کے بعد اس کے بھتیجے صاحب نے جو اپنے لان کے ،جس میں پودوں کی بھرمار تھی، ایک ایک کونے میں پانی پہنچانے کے لئے پڑوسی سے اکثر پائپ لے کر اپنے لان میں لگا کر بے فکر ہوجاتے اور جب اسے کام ہوتا تو ان لوگوں کا پائپ وہ اپنے گھر لے جاتا۔
ان لوگوں کا ٹول بکس اکثر پڑوسی کے گھر موجود ہوتا ۔ وہ جب گھر آتا ،کسی نہ کسی چیز کا پوسٹ مارٹم کرتا رہتا۔ اس نے دیکھا کہ پائپ کا سرااس نے اپنے گھر میں کھینچ لیا تھا۔کوئی اور اس کی جگہ ہوتا تو ضرور اسکی اس اونچی چھلانگ پر شاباش دینے کے انداز میں کوئی جملہ کہتا یا واﺅ قسم کے تعریفی کلمات تو بے اختیار ایسی صورت میں ادا ہو ہی جاتے ہیں لیکن اس وقت اس کا موڈ بہت خراب تھا ۔وہ ڈھائی گھنٹے سے اپنے اس عم زاد کی سواری کا انتظار کرتے کرتے بالآخر ہال کمرے سے باہر آکر سیڑھی پر کھڑی ہوگئی تھی کہ جیسے ہی وہ آئے گا فوراً دروازہ آگے بڑھ کر کھولے گی حالانکہ اس ووڈن ڈور کو لوگ باہر سے ہی کھولا کرتے تھے۔ اس کمپاﺅ نڈ کے سرچ روم میں باہر سے آنے والوں کو اپنی شناخت بتانا پڑتی تھی اور وہاں تمام گھر ایسے ہی پودوں کی ہریالی میں گھرے مختلف رنگوں سے سجے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبوﺅ ں میں بسے تھے ۔
وہ انتظار کرتی رہی لیکن وہ نہیں آیا ۔صبح سے کچن میں لگے رہنے کا کوئی فائدہ اسے نہیں ہوا ۔ فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے اسکرین پر 
اپنی اس دوست کا نمبر دیکھا اور خوش ہوگئی کہ وہ ساری صورتحال جانتی ہے بلکہ جب گاﺅں میں بزرگوں کے درمیا ن کسی خاندانی مسئلے پر کچھ بدمزگی ہوگئی تھی تو وہ اپنے اس عمزاد کی بابت وہ بات بھی بتا چکی تھی کہ اس نے تمام خاندان والوں کے سامنے کیسے اپنی بارعب آواز میں ایسا کچھ کہا کہ سب کے سب خاموش ہی ہوگئے اور معاملہ رفع دفع ہو گیا ۔وہ بات پھر دوبارہ نہیں کی گئی ۔وہ جلدی جلدی پوچھ رہی تھی تمہیں میں نے اس لئے اس کا نمبر دیا تھا کہ میں تو فون کر نہیں سکتی۔ اکثر دونوں بھائیوں میں سے کوئی موجود ہوں اور ابو تو صرف نماز کے وقت مسجد جاتے ہیں اس لئے تم ہی فون کر کے میری طرف سے اسے شام کی چائے کی دعوت کی یاد دہانی کرادو جو بھابھی جان نے طے کی ہے اور سب کے ساتھ اسے بھی اہتمام سے دعوت دی ہے۔ وہ اب تو ہمارے گھر آئے گا ناں۔ تم کو تمہارے والد کی وجہ سے خاندان والے دور کا ہی سمجھیں لیکن ہماری اچانک طے ہوجانے والے رشتے کے دوران تم نے ہم دونوں کا بہت ساتھ دیا۔ اب جلدی سے بتاﺅوہ اپنا وعدہ کہ شہر آئے گا تو ضرور ہمارے گھر بھی آئے گا، یہ وعدہ پورا کرے گا ناں؟میں نے تو بہت محنت سے اس کی پسندیدہ چیزیںپھوپھی جان سے پوچھ کر بنائی ہیں۔
وہ برابر والے گھر سے آتی آواز سے ڈسٹرب ہو رہی تھی ۔وہ اپنے اباجان کے ہر سوال کہ ”تم نے میرے کپڑے پریس کردئیے، واسکٹ لے آئے تھے، عطر لگا دیا ہے ” سارا دن لان کی صفائی کرتے رہے ہو یا میری گاڑی بھی دھوئی ہے ۔ چمکنی چاہئے ورنہ دوبارہ دھلواﺅںگا۔ وہ اندر سے اپنے بھتیجوں کی آتی آواز نہ سنتی تو کب کی یہاں سے چلی جاتی اور اس کی منمناتی آواز نہ سننے کو ملتی جوہر ایک بات پر”جی ابا جی ” اپنے ابا جان کو یقین دلاتا کہ سارا کام اس نے بر وقت انجام دے دیا ہے۔ 
اس کے دونوں بھائی اپنے بچپن کے دوست کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے جو ٹارزن کی طرح ایک درخت سے دوسرے پرپہنچ جایا کرتا تھا۔ اس نے تم سے بھی کہا تھا کہ تمہیں سائنس اب نہیں پڑھنی بہت ڈاکٹر بن چکے۔ تم آرٹس کے مضامین لے لو ۔وہ اکنامکس میں ماسٹرز کر چکا ہے۔ یہی بزنس سنبھالنے کے لئے کافی ہے۔ وہ دھیمی آواز میں بتانے لگی کہ سال کے آخری دنوں میں یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ویسے بھی جب رزلٹ آئے گا تب ہی فیصلہ ہوگا ۔وہ اپنے ڈاکٹر بننے کی خواہش کو بھی پس پشت ڈال چکی تھی۔
کئی دنوںسے وہ عجیب مخمصے کا شکار تھی کہ برابر والے گھر سے اس کے لئے انکل نے اس کے والد صاحب سے بڑی محبت سے اپنے بیٹے کے لئے درخواست کی تھی۔ سب گھر والوں کا ووٹ بھی اس کی طرف تھا کہ اپنے رشتہ دار نے کہلا بھیجا تھا کہ لڑکا ابھی نیا کاروبار شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس میں اسکی توجہ کی ضرورت ہوگی اور آپ کو ہم انتطار کروانا نہیں چاہتے۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ ان کی طرف سے انکار سمجھا جائے۔ وہ پریشانی میں کچھ نہیں جان پائی کہ اتنی معمولی بات نے ان کے رشتے کو کیوں توڑ دیا ۔ جب ایک بات رشتے کی ہو جائے تو لڑکی کے دل و دماغ میں گھر کر جاتی ہے اور اس طرح رشتہ ختم کردینا تو مناسب نہیں۔ اس کو بار بار خیال آرہا تھا کہ وہ خود رابطہ کر کے اس مسئلے کو حل کرے کہ قدرت نے اس کا راستہ خود نکال دیا ۔وہ فون پر کہہ رہا تھا کہ وہ اس سے فلاں جگہ مل کر آخری فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ بتا رہی تھی کہ وہ اکیلے کہیں نہیں جاتی تو وہاں کیسے آئے گی۔ اچھا ہے کہ کسی وقت گھر آکر ہی بات کر لی جائے، ”اگر اپنی زندگی کی اہمیت ہے تو خود آکر بات کرو، بہانے مت بناﺅ۔“ یہ کہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ 
وہ اپنی پریشانی میں حالات کازیادہ اندازہ نہیں لگا سکی جب کہ آج ہی رسم کی اجازت مانگی گئی تھی اورجب اس نے برابر والوں کے یہاں سے ہلچل کی آوازیں سنیں تو فوراً فیصلہ کرلیا اور بھابھی کو صرف ٹیلرکا بتا کر کہ باہر کھیلتے بھتیجے کو ساتھ لے لیا جس طرح کہیں قریب ہی جانا ہو۔ انہوں نے خود ہی اندازہ لگا لیااور وہ اکیلی ہی اس جگہ پہنچی اور وہ اپنی طرف سے پوری شدت سے غصے کا اظہار کر رہا تھا کہ اگر میرے والد نے جائداد کی بابت کچھ زیادہ مانگ بھی لیا تھا تو اپنی بیٹی کے مستقبل کے لئے ہی سہی،تمہارے والد کو ہماری سپورٹ میں کھڑا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ وہ تیز تیز بولتا اٹھ کر چلا گیا ۔وہ دنگ رہ گئی ۔ابھی یہی سوال ذہن میں گردش کر رہا تھا کہ وہ اس سے درخواست کرے گی کہ میرے ساتھ گھر چلے پھر وہا ں سب سے بات ہو جائے گی، مسئلہ حل ہو جائے گا۔ وہ ابھی اسے آواز دینا چاہتی تھی کہ مجھے گھر پہنچا دو۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اس طرح اس کو اکیلا ہی چھوڑ کر روانہ ہوجائے گا۔ 
وہ ہمت مجتمع کرکے دعائیں مانگتی گھر واپسی کے لئے رکشہ لینے کی خاطرریسٹورنٹ سے باہر آئی تھی کہ ان کے گھر کمپاﺅنڈ کا ایڈریس آسان تھا ضرور وہ راستہ پہچان لے گی۔ اب سوچ رہی تھی کہ پریشانی میں اکیلے ہی آنے کا فیصلہ کر لیا تھا، اس یقین کے ساتھ کہ وہاں صرف ایک دفعہ جانے کی دیر ہے ، وہ ضرور اسکے ساتھ گھر آئے گا اور تمام مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن یہاں تو صورتحال ہی بدل گئی تھی ۔جیسے وہ سڑک پر آئی، اسے محسوس ہوا جیسے ا کہیں میدان جنگ میں فائر کھول دیا گیا ہے۔ تڑاتڑ گولیاں چلنے لگیں۔ یکدم بھگدڑ مچ گئی اور سب لوگ اپنی جان بچانے کے لئے کسی نہ کسی دوڑے لیکن شایدکچھ لوگ زخمی ہوئے تھے کہ یکایک چیختی چنگھاڑتی ایمبولینس آئی اور سب زخمیوں کو لے گئی۔ دو گروہ ایک دوسرے پر فائرنگ کر کے فرار ہوگئے تھے۔ اسی دوران وہاں موجود لوگوںکی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی تھی۔ شناختی کارڈ موجود نہ ہونے پر لوگوں کو پولیس وین میں بٹھایاجا رہا تھا۔وہ کسی سواری کی تلاش میں چند قدم بھی نہیں چل پائی تھی۔وہاں لوگوں کا ہجوم اور صرف سر ہی سر نظر آرہے تھے ۔ سب اپنی دکانیں بند کر چکے تھے۔ٹریفک سڑک سے غائب ہو چکی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس نے آخر کیسے انسان پر بھروسہ کرکے زندگی میں پہلی دفعہ اکیلے گھر سے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ قریب ہی موجود 2اہلکاروںمیں سے ایک نے اس سے بھی شناختی کارڈ 
 کا پوچھ لیا ۔وہ یوں سر اٹھائے انکی شکل دیکھنے لگی جیسے انکی کوئی بات سمجھ ہی نہ پائی ہو۔ شناختی کارڈ تو اس نے ساتھ رکھا ہی نہیں تھااور اب ایسی آفت آئی تھی کہ اس کا شولڈربیگ بھی کہیں گر گیا تھا ۔انہوں نے آپس میں کہا انہیں بھی وین میں بٹھاﺅ۔ وہ سن ہوکر رہ گئی ۔ وہ پولیس وین میں بیٹھنے سے پہلے اپنی موت کی دعا مانگنے لگی۔ ہاتھ پیر سے جان نکلتی جارہی تھی ۔اسے لگا وہ بے جان ہوکر گر پڑے گی کہ ایک دھاڑتی ہوئی آواز اس کے کان تک پہنچی ”تمہاری جرا¿ ت کیسے ہوئی میری فیملی سے کوئی بھی سوال پوچھنے کی؟ یہ سن کر اسے لگا کہ اس کے جسم میں دوبارہ دوران خون شروع ہو گیا ہے۔ایک ہی دن میں نجانے اس نے کتنے سبق سیکھنے تھے کہ جو اس کی روح قبض کئے دے رہے تھے ۔اس پر ان کی اتنی دہشت تھی اور اب وہی یونیفارم میں بڑے افسر کے سامنے گھگھیارہے تھے ۔وہ انہیں حکم دے رہا تھاکہ مادام کومیری جیپ تک بحفاظت پہنچاﺅ۔رش میں ان کے لئے جگہ بناﺅ۔ وہ خود فون پر رپورٹ کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ 
ابھی چند لمحوں پہلے جو لوگ اس کی حیثیت ایک قیدی کی بنانے پر مصر تھے ، وہ اب اس کی منتیں کر رہے تھے کہ وہ سر سے معافی دلا دے ۔ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہی اس نے پوچھا ”آپ خیریت سے تو ہیں،شہر کے حالات اچانک ایسے خراب ہو جاتے ہیں کہ ہمیں بھی سخت ایکشن لینے کا آرڈر مل جاتا ہے۔ میں نے آپ کو اپنی فیملی کہا جبکہ انکل نے آج عصر میں مسجد میں اباجی سے ملاقات پر اپنے جواب سے آگا ہ کرنے کا وقت دیا ہے۔ 
وہ ایک اہم فیصلہ کرچکی تھی۔ اس لئے کہنے لگی کہ انہوں نے ہمیں مہمانوں کی عشاءکے بعد آمد کی اطلاح دے دی ہے۔وہ پر جوش لہجے میں کہنے لگا ،شاید ہماری ہمشیرہ صاحبہ کو بھی ان کے پروگرام سے آگاہی ہوگئی ہے۔اسی لئے وہ اپنے چاروں بیٹوں کو لئے صبح ہی پہنچ کر تیاری شروع کر چکی ہیں اور بے چارے میری طرح کے عوام کے خادم کو ڈیوٹی سے گھرپہنچنے کے احکامات جاری کر چکی ہیں۔ میں بھی مستقبل میں آپ کے ہر حکم پر جی سرکار نہیں کہہ سکوں گااور ویسے بھی اباجی نے ٹاسک دیا ہے کہ تم لوگ آفات میں سب کام کرتے ہو تو ہر گاﺅں کے اوپن اسکولوں میں سائبان لگاﺅ اور ہر گھر کے بچوں کےلئے درسی کتابوں کا انتظام کرواﺅ۔
وہ ونڈ اسکرین سے باہر دیکھ رہی تھی۔ کئی نوجوان لڑکے لڑکیوں کو وین میں بٹھایا جا رہا تھا ۔ وہ ایک اہلکارکو اپنے ہاتھ میں موجود کارڈ دکھا کر منت کر رہا تھا۔ وہ قدرت کے کرشمے دیکھ رہی تھی۔ جو گھر میں دھاڑتا تھا، وہ مجمع میں بھیگی بلی بنا ہوا تھا اور جو والد کے سامنے سر جھکائے انکی ہر بات پر صرف ”جی ابا جی ” کہتا تھا ،وہ مجمع میں پوری قوت سے دھاڑرہا تھا۔ اسکے ایک حکم پر وہاں موجود ہر کوئی حرکت میں آگیا تھا ۔ جب اس پر اتنی رحمت ہوئی تھی تو اس نے بھی ان دونوں کی طرف اسے متوجہ کیا کہ ہم تینوں ہی یہاں آئے تھے اور اس نے ہارن دے کر اہلکار کو ان دونوں کو گھر جانے کی اجازت دے دی ۔اہلکار نے بتایا ان لوگوں کے پاس پتہ نہیں کس کا کارڈ ہے، بتا رہے ہیںکہ 15 تاریخ کوہماری شادی ہے ۔وہ دونوں اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے جس کے کہنے پر ایسی رسوائی کی گرفتاری سے رہائی مل گئی تھی۔
٭٭جاننا چاہئے جو والدین کے سامنے سرتسلیم خم رکھتے ہیں،دنیاان کی عزت کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ 
 

شیئر: