Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’قاف جی‘‘

شہزاد اعظم
    ہم نے اپنی زندگی میں شہر اور اسکول بہت بدلے ۔ پاکستان کے اکثر شہروں میں ہم نے کہیں صبح گزاری، کہیں دوپہر، کہیں شام اور کہیں رات اس لئے ہم سینہ تان کر ، جی میں ٹھان کر، خود کو تجربہ کار مان کراور اپنی اوقات جان کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ وطن عزیز کے چپے چپے پر ہمارے قدموں کے نشاں موجود ہیں۔ اسی طرح ہم نے’’ ٹاٹ‘‘ اسکول سے لے کر ’’ٹھاٹ‘‘ اسکول تک کی ہر استانی سے مار کھا رکھی ہے۔ہمیں سیدھا کرنے کیلئے ان مادرانِ علمی کو سرتوڑ کوششیں کرنی پڑیں۔یہی وجہ تھی کہ استانیوں نے ہماری اصلاح کیلئے اپنی استطاعت ، ہمت و جرأت کے مطابق لوہاری میں تیار شدہ ہیل والی جوتی سے لے کر برطانوی ساختہ ’’کین‘‘تک سب ’’آلاتِ ضرب وحرب‘‘ کا کما حقہٗ استعمال کیا۔ یوں 10سالہ شکست و ریخت اور تضحیک و تحقیر کے بعد ہمیں ’’تمیز داروں‘‘کی فہرست میں شمولیت کے لائق قرار دے دیا گیا۔
    مختلف اسکولوں میںہمیں نہ صرف وضع وضع کی استانیوں سے پالا پڑا بلکہ بھانت بھانت کے طلبہ وطالبات بھی دیکھنے کو ملے۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہم کانونٹ کی جماعت ہشتم میں زیر تعلیم تھے۔ وہاں سر وقار تھے جنہیں ان کے ہمجولی اور ہمجولیاں ’’مسٹر وکی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے چنانچہ طلبہ و طالبات بھی انہیں ’’وکی سر ‘‘ کہا کرتے تھے۔وہ ہمیں عربی پڑھایا کرتے تھے۔انہوں نے ہی ہمیں سمجھایا کہ حروف حلقی کیا ہوتے ہیں۔ سین اور صاد میں کیا فرق ہے، کاف اور قاف کیسے ادا کئے جاتے ہیں، دال اور ضاد کی ادائیگی میں کس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ہماری ہشتم میں دیگر ساری جماعتوںکے برخلاف ہر بینچ پر 2، 2ہستیاں براجمان ہوتی تھیںجن میں ایک لڑکا ہوتا اور دوسری لڑکی۔کس بینچ پر کون سا لڑکا اور کون سی لڑکی بیٹھے گی، اس کا فیصلہ ہماری کلاس ٹیچر ’’مس میری‘‘ نے کیا تھا۔ انہوں نے انتہائی سختی سے کہا تھا کہ میں نے جس کو جہاں بٹھا دیا ہے ، وہ وہیں بیٹھے گا،اگر کسی نے جگہ تبدیل کرنے کا خواب بھی دیکھا تو میں اسے ’’مِلک آف سِکستھ‘‘ یعنی ’’چھٹی کا دودھ‘‘ یا ددِلا دوں گی۔مس میری کافی صحتمند تھیں۔ ان کی صحت کا اندازہ اس امر سے لگایاجا سکتا ہے کہ ان کا ہاتھ اتنا بھاری تھاکہ اگر وہ کسی کوایک طمانچہ ٹکادیتیں تومتاثرہ ’’ طمانچہ خور‘‘کی والدہ کو کم از کم 3دن تک اپنے لخت جگر کے گال کی سکائی کرنی پڑتی تھی۔اس ڈر سے ہر مذکر اور مونث نے اپنی نشست کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لیا۔ حد یہ ہے کہ مستقبل میں بھی ان ’’ہم نشستیوں‘‘ نے ایک دوسرے کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اب انکی اولادیں کانونٹ کے آخری درجے میں ہیں۔ بس ایک ہم ہی وہ ہستی تھے جس کو مونث ’’ختم‘‘ ہو جانے کے باعث ایک مذکر کے ساتھ ہی بٹھا دیا گیا تھا۔اس کا نام تو کچھ اور تھا مگر کانونٹ کا بچہ بچہ اسے ’’قاف جی‘‘کہہ کر پکارتا تھا۔ اس کی وجہ تسمیہ بھی عجیب و غریب تھی ۔ ہوا یوں کہ کانونٹ کی ہشتم میں پہلا دن تھا، قافجی وہ ہستی تھی جس نے اسکول میں نیا داخلہ لیا تھا چنانچہ وقار سر جیسے ہی کلاس میں آئے ، انکی نظرہمارے ساتھ براجمان اس نئے طالبعلم پر پڑی۔ انہوں نے سوال کیا کہ آپ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔اس نے جواب دیا ’’نام میرا قمر ہے ، قراچی کے علاقے قورنگی سے قوئی ایق ماہ پہلے لاہور آیا ہوں، یہاںابو نے قرشن نگر میں قرائے قامقان لیا ہے جس قا نام قاشانۂ قامران ہے ۔قھیلوں میں مجھے قرقٹ بے حد پسند ہے ،اداقاروں میں راج قپور، فلموں میں ’’وہ قون تھی ‘‘میرا اصول ہے ، آج قا قام قل پر مت چھوڑو۔‘‘ ابھی اس نے اپنی بات ختم نہیں کی تھی کہ سر وقار نے چلا کر کہا ’’او ہ یو اسٹوپڈ ’’قاف جی‘‘، شٹ یور مائوتھ اَپ۔‘‘اس دن کے بعد سے ہمارے ہم نشیں کا نام ہی قاف جی پڑ گیا۔ہم 2سال تک قاف جی کے ساتھ بیٹھ کرکانونٹ میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ روزانہ ہی ہمیں یہ منظر دیکھنے کو ملتا کہ سر وقار قافجی سے سبق سنتے اورپھر قافجی کی ’’قافیت ‘‘ پر اس کی خوب دھنائی کرتے۔ایک روز وقار سر نے ہم سے کہا کہ آپ قافجی کے ہمسائے ، ہم نشیں ا ور ہم درد ہیں اس لئے ان کی قافیت کو ’’کافیت‘‘ سے بدلنے کی کوشش کیجئے۔ہم سر وقار کا کہنا کیسے ٹال سکتے تھے؟ ایک تو استاد اور وہ بھی کانونٹ کے ، چنانچہ بلا تاخیر ہم نے انہیں سبق دے دیا کہ بھیا ! جو لفظ کاف، قاف یا کیو سے شروع ہو اُسے انگریزی حرف ’’کے‘‘ سے اداکرنا اپنا شعار بنا لو۔ بھول جائو کہ دنیا کی کسی لغت میں 2نقطوں والا ’’ق‘‘ موجود ہے ۔ قینچی کو بھی کینچی کہو، قیمے کو کیمہ کہنے کی عادت ڈالو،تقسیم کو تکسیم ، قرار کو کرار، قلت کو کلت، قائم کو کائم، بس یہ سمجھو دنیا میں صرف’’کے‘‘ کی حکمرانی ہے۔ قافجی نے ہماری بات کو گرہ سے باندھ لیا ۔ وہ ہر لفظ کو پہلے تصور میں لاتا پھر اس کے ہجے کرتا اور جہاں جہاں ’’ق‘‘ محسوس ہوتا، اسے ’’کے‘‘ سے بدل دیتا۔ انجام کار اس کے بولنے کی رفتار سست ہو گئی بالکل اسی طرح جیسے انگریزی گرامر کے قواعد سیکھنے کے بعد ہماری انگلش بولنے کی رفتار سست ہو گئی کیونکہ ہم اسی چکر میں الجھ جاتے ہیں کہ ہیز کے بعد ورب کی تھرڈ فارم استعمال کی ہے یا نہیں؟ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ قافجی نے اپنی لغت سے ’’ق‘‘ کو بالکل ہی غائب کر دیامگر بے چارے سر وقار کی مار سے پھر بھی نہ بچ سکے کیونکہ وہ ’’رشکِ قمر‘‘ کی بجائے ’’رشکِ کمر‘‘کہنے لگے۔ سر وقار کے سامنے وہ کہنا چاہتے تھے کہ اچھی بات کرنے کو بھی توقرینہ چاہئے چنانچہ کہہ بیٹھے کہ اچھی بات کرنے کو بھی تو ’’کرینہ‘‘ چاہئے ۔ بس پھر کیا تھا، سر وقار نے اپنا جوتا اتار کر قافجی کی پٹائی شروع کر دی۔قافجی چیختا رہا کہ ’’سروَکار! میرا مطلب وہ نہیں تھا جو آپ سمجھ رہے ہیں ۔ بہر حال 2سالہ معیت کے بعدقاف جی سے ہمارے رابطے ٹوٹ ٹاٹ گئے اور پھر کئی دہائیاں بیت گئیں۔
    ہم گزشتہ ماہ وطن عزیز میں تھے۔پورے پاکستان کی طرح ہمارے محلے میں بھی سیاست کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔اسٹیج سجا ہوا تھا۔ محترم گاماعوام کو مخاطب کر کے تجربہ کار فقراء کی طرح دامن پسار کر کہہ رہے تھے کہ ایک بار پھر مجھے ووٹ دینا ،اس مرتبہ وعدہ کرتا ہوں کہ  سارے شکوے دور کر دوں گا،میں نوجوانوں کو روزگار دوں گا، بے کاروں کو کار دوں گا، بد حالوں کا مستقبل سنوار دوں گا۔ اسی دوران مجمع میں سے ایک شخص نے نعرہ لگایا’’ہمارا کائد گاما گاما‘‘، یہ سن کر اسٹیج سے ایک فرتوت کرسی چھوڑ کر اٹھے اور نعرہ مارنے والے کو جوتی سے مارنے لگے۔ سب لوگوں نے اس نعرے باز کو پٹنے سے بچایا اور فرتوت سے سبب دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ قائد کو ’’کائد‘‘ کہہ رہا تھا۔ قائد کا مطلب تو رہنما ہے مگر کائد کے معنی تو فریبی اور دھوکہ باز کے ہیں۔ یہ سن کر وہ مرکھنا رونے لگا اور بولا کہ زندگی گزر گئی اسی چکر میں، پہلے ’’ق‘‘ کی وجہ سے مار کھاتا رہا، آج ’’ک‘‘ کی وجہ سے کھا رہا ہوں۔ میں قاف جی نہ ہوا ، پاکستانی عوام ہو گیا جو پٹ رہے تھے، پٹ رہے ہیں اور....اسی لمحے مجمع سے شور اٹھا ’’مگر اب نہیں پٹیں گے۔‘‘
 
مزید پڑھیں:- - - -ایمنسٹی اسکیم ابتدا ہی میں متنازعہ ہوگئی

شیئر: